بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 جمادى الاخرى 1446ھ 12 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ انتظامیہ کا داخلہ کے وقت طلبہ اور ان کے سرپرستوں سے زکوۃ کی وصولی اور طلبہ پر خرچ کرنے کے وکالت نامہ پر دستخط لینا


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک دینی مدرسہ ہے جب کسی کا داخلہ کیا جاتا ہے تو داخلہ فارم پر بچے اور اسکے سر پرست سے اس بات کے دستخط کرالئے جاتے ہیں کہ آپ ہمیں اس بات کا وکیل بناتے ہیں کہ مدرسہ میں جس قسم کے عطیات آئیں گے ہم آپ کے بچے پر خرچ کریں گے ۔پھر مدرسے والے بغیر تملیک بچوں پر خرچ کرتے ہیں کیا ہمارے زکوة فطرانہ مدرسہ میں دینے سے  ادا ہوجائیں گے؟

جواب

واضح رہے کہ سائل کے سوال کے دو پہلو ہیں: ایک یہ کہ مدارس میں زکوٰۃ اور فطرہ دینے سے وہ ادا ہوجاتاہے یا نہیں؟ اور دوسرا یہ کہ مدارس انتظامیہ کا تملیک کے بغیر صرف مذکورہ وکالت نامے کی بنیاد پر غیر مصارف میں زکوٰۃ صرف کرنا۔ پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ مدارس کے ذمہ داران طلبہ کے نمائندے اور وکیل ہیں لہٰذا ان کے پاس رقم جمع کراتے ہی زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی۔ البتہ ان کے لیے مذکورہ وکالت نامے کی بنیاد پر باقاعدہ تملیک کے بغیر زکوٰۃ و فطرے کی رقم کو غیر مصارف میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی کے درست ہونے کے لیے تملیک ضروری ہے، یعنی جس کو زکاۃ دی جا رہی ہو  اس کو اس چیز میں تصرف کرنے کا مکمل اختیار دے کر   مالک بنا دیا جائے، جب کہ مدرسہ میں داخلہ کے وقت داخلہ فارم پر بچے اور اس کے سرپرست سے  وصولی زکاۃ اور خرچ کے وکالت نامہ پر دستخط کرا لینے اور وکالت نامہ  کے ذریعہ مدرسہ کے مہتمم و منتظم کا طلبہ کا وکیل بن کر زکاۃ وصول کرنے کے بعد باقاعدہ طلبہ کو قبضہ دے کر مالک بنائے بغیر اپنے قبضہ کو طلبہ کے قبضہ  کے قائم مقام سمجھ کر ان پر خرچ کرنے میں چوں کہ تملیکِ زکاۃ کی  صورت نظر نہیں آتی؛ اس لیے اس طرح کا حیلہ کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ ایسے حیلے پر مشتمل وکالت نامہ  (جس کے تحت وکیل کو وصولی زکاۃ و صدقہ اور ان کے خرچ کے اختیارات  حاصل ہوتے ہیں ) پر بے شمار فقہی اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور بہت سی وجوہِ فاسدہ پائی جاتی ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱)مدارسِ عربیہ کی بیشتر آمدنی (زکاۃ و صدقاتِ واجبہ وغیرہ) رمضان المبارک میں جمع ہوجاتی ہے، جب کہ طلبہ کا داخلہ شوال میں ہوتا ہے، تو وکالت نامہ پر دستخط تو بعد میں لیا جارہا ہے جب کہ زکاۃ وغیرہ کا بیشتر حصہ پہلے ہی سے مدرسہ کے فنڈ میں جمع ہو چکا ہوتا ہے، اس پر اشکال یہ ہے کہ وکالتِ لاحقہ یا اجازتِ لاحقہ وصول شدہ زکاۃ و صدقات کے وصول و خرچ کے لیے تملیک کا فائدہ کیسے دے سکتی ہے؟

۲)اس طرح کے وکالت نامہ پر دستخط سے فقہی طور سے وکالت کا مفہوم اور روح نہیں پائی جاتی، کیوں کہ  مذکورہ وکالت نامہ میں نہ تو یہ تعیین ہوتی ہے کہ مہتممینِ مدرسہ یا انتظامیہ کتنی مقدارِ زکاۃ وصول کریں گے؟ جن افراد سے مالِ زکاۃ و صدقات وصول کیا جائے گا وہ افراد و اشخاص کون ہیں؟ اور کن کن مصارف میں کتنا کتنا خرچ کریں گے؟ تو اتنی جہالت پر مبنی توکیل ( وکالت نامہ اور اس پر دستخط) کیسے درست ہوگا؟

۳)بذریعہ وکالت نامہ طلبہ کے نام پر زکاۃ و صدقات کی جو رقم وصول ہوگئی اس رقم میں سے جتنی خرچ ہونے کے بعد بچ جائے وہ ان طلبہ کی ملکیت ہوگی، لہٰذا اس رقم کے ختم ہونے سے پہلے جو طلبہ مدرسہ سے فارغ ہوکر جارہے ہوں وہ بقیہ رقم ان طلبہ کو واپس ملنی چاہیے، لیکن وہ واپس نہیں ملتی، بلکہ مدرسہ میں ہی رہ جاتی ہے،  اور اگر  وہ وکالت نامہ میں مدرسہ کو فاضل رقم کا مالک بھی بنا دیں تو اس پر یہ اشکال ہوگا کہ شے مجہول کی تملیک کیسے ہوگی؟ کیوں کہ وکالت نامہ پر دستخط کرتے وقت یہ بات معلوم ہی نہیں ہوتی کہ کتنی رقم وصول ہوگی؟ کتنی خرچ ہوگی؟ اور کتنی اس میں سے بچ جائے گی؟ اس لیے اس طرح کے مجہول  اجازت نامے اور وکالت نامے سے نہ تو تملیک ثابت ہوگی اور نہ ہی یہ حیلہ تملیک کے قائم مقام ہو سکتا ہے۔

۴)طلبہ سے  جو  وکالت نامہ پر  دستخط کروا کر توکیل کروائی جاتی ہے وہ و جبر و اکراہ پر مبنی ہوتی ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ وکالت نامہ پر دستخط داخلہ کے وقت  داخلہ فارم پر کروائے جاتے ہیں اور جو طالب علم دستخط نہ کرے اسے مدرسہ میں داخلہ نہیں دیا جاتا، چناں چہ طالب علم چاہے یا نہ چاہے اسے داخلہ لینے کے لیے ہر حال میں وکالت نامہ پر دستخط کرنے پڑتے ہیں، جو کہ ایک قسم کا جبر و اکراہ ہوا، لہٰذا ایسے جبر و اکراہ پر مشتمل توکیل کے ذریعہ سے حاصل شدہ اختیار کی شرعاً  کیا حیثیت ہوگی ؟

۵)اس طرح کے حیلہ بہانے کا سلسلہ نہ تو نبی کریم ﷺ کے زمانے میں تھا اور نہ بعد میں خیر القرون کے کسی دور میں تھا، بلکہ ہمارے اکابرین علمائے دیوبند (حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ، حضرت مولونا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ وغیرہ ) میں سے بھی کسی نے اس قسم کے خیالات کا کبھی تصور بھی نہیں کیا، بلکہ انہوں نے مدارسِ عربیہ کے لیے شدید مجبوری کے وقت جو حیلہ تملیک تجویز کیا ہے وہ تمام مدارسِ عربیہ میں سو سال سے زائد مدت سے جاری  و ساری ہے کہ مستحق طلبہ کو مالکانہ قبضہ دے کر ان سے  ان کے کھانے وغیرہ کا انتظام کرنے کے لیے  بطورِ توکیل واپس لے لیا جاتا ہے یا مدرسہ کے دیگر اخراجات میں خرچ کرنے کے لیے بطور چندہ مانگ لیا جاتا ہے، اس طرح زکاۃ کی شرطِ تملیک بھی پوری ہوجاتی ہے اور مستحق طلبہ اس حیلہ تملیک کے ذریعہ مدرسہ میں چندہ دینے کا ثواب بھی حاصل کر تے ہیں اور کوئی اور ذریعہ آمدن نہ ہونے کی صورت میں اس طرح کرنے سے مدرسہ کی ضروریات بھی پوری ہوجاتی ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ  باقاعدہ تملیک کیے بغیر صرف داخلہ کے وقت وکالت نامہ پر دستخط کرواکر زکاۃ کے مال کو طلبہ پر یا مدرسہ کی دیگر ضروریات پر خرچ کرنا درست نہیں ہے۔  (مستفاد از جواہر الفتاویٰ ( ج:۲ /  ۲۴۸ )

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 344):

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكاً) لا إباحةً، كما مر (لا) يصرف (إلى بناء) نحو (مسجد و) لا إلى (كفن ميت وقضاء دينه).

وفي التمليك إشارة إلى أنه لا يصرف إلى مجنون وصبي غير مراهق إلا إذا قبض لهما من يجوز له قبضه كالأب والوصي وغيرهما، ويصرف إلى مراهق يعقل الأخذ، كما في المحيط قهستاني".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200980

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں