مجھے کیش بیک کے متعلق سوال کرنا تھا کہ یہ جائز ہے یا نہیں؟ ،یعنی "کریڈٹ کارڈ " یا "ڈیبٹ کارڈ" سے میں پیسے ادا کروں اور بینک مجھے کچھ پیسے واپس کردے تو کیا حکم ہوگا ؟
صورت مسئولہ میں کریڈٹ کارڈ (Credit Card)بنوانا، استعمال کرنابذات خود ناجائز ہے۔ کیوں کہ کریڈٹ کارڈ بنوانے والے اور کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والوں کے درمیان جو معاہدہ ہوتا ہے ، وہ سودی لین دین(مثلاًمقررہ مدت میں رقم کی عدمِ ادائیگی پر متعین سودی جُرمانہ) کی شرائط کے ساتھ مشروط ہوتا ہے، جس طرح سود لینا حرام ہے، اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاحرام ہے، اور اِس معاہدے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ کا استعمال بھی جائز نہیں ہے۔لہذا اگر اِس کے استعمال کرنے پر بینک کی طرف سے کچھ کیش بیک ملے تو اُس کا استعمال بھی جائز نہیں ہوگا۔
باقی ڈیبٹ کارڈ (Debit Card)بنوانا اور خریداری وغیر ہ میں اس کا استعمال کرنا بذات خود جائز ہے،کیوں کہ اس کی حصولیابی میں سودی معاہدہ یا بعدازاں سودی لین دین نہیں کرنا پڑتا۔ تاہم ڈیبٹ کارڈ کے ذریعہ خرید و فروخت پر ملنے والے کیش بیک کی رقم حلال ہے یا حرام؟ اس میں کچھ تفصیل ہے، اگر وہ کیش بیک بعینہٖ بینک سے مل رہا ہو جیسا کہ سوال میں مذکور ہے، تو اُس کا وصول کرنا جائز نہیں ہوگا، یہ سود کے حکم میں ہے۔ مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل فتویٰ ملاحظہ کریں:
ڈیبٹ کارڈ یا کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر ملنے والے ڈسکاؤنٹس اور پوائنٹس کا حکم
قرآنِ کریم میں ہے:
"{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ} [البقرة: 278، 279]"
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔‘‘(از بیان القرآن)
صحیح مسلم میں ہے:
"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»"
( باب لعن آكل الربا ومؤكله،3/1219، ط:دار احیاء التراث-بیروت)
ترجمہ:’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے سود کھانے (لینے) والے پر، سود کھلانے (دینے) والے پر، سودی لین دین لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سب (اصل گناہ میں) برابر ہیں۔‘‘
البحر الرائق میں ہے:
"ولا يجوز قرض جر نفعا بأن أقرضه دراهم مكسرة بشرط رد صحيحة أو أقرضه طعاما في مكان بشرط رده في مكان آخر..وفي الخلاصة :القرض بالشرط حرام."
(كتاب البيع، باب المرابحة والتولية ،فصل في بيان التصرف في المبيع والثمن قبل القبض، 6/ 133، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوٰی شامی میں ہے:
"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام.
قال ابن عابدين: (قوله كل قرض جر نفعا حرام) أي إذا كان مشروطا كما علم مما نقله عن البحر."
(كتاب البيوع، باب القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، 5/ 166، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102323
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن