بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیبٹ کارڈ یا کریڈٹ کارڈ کے استعمال پر ملنے والے ڈسکاؤنٹس اور پوائنٹس کا حکم


سوال

1)ڈیبٹ کارڈ (Debit Card) استعمال کرنے پر ہمیں جو ڈسکاونٹ ملتا ہے،کیا وہ  جائز ہے یا ناجائز؟

2)کریڈٹ کارڈ (Credit  Card)استعمال کرنے میں ہمیں پوائنٹس ملتے ہیں،پھر ہم ان پوائنٹس سے کچھ پروڈیکٹ یاکھانے کی اشیاء خریدتے ہیں،کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟

جواب

1۔ڈیبٹ کارڈ (Debit Card)بنوانا اور اس کا استعمال کرنا بذات خودجائز ہے، اس کارڈ کے ذریعہ آدمی اتنے ہی پیسوں کی خریداری کرسکتا ہے جتنی رقم اس کے اکاؤنٹ میں موجود ہے، اس کے حاصل کرنے کے لیے سودی معاہدہ نہیں کرنا پڑتا، اورسود لینے دینے کی نوبت نہیں آتی،البتہ  ڈیبٹ   کارڈ کے استعمال پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کے جائز اور ناجائز ہونے میں درج ذیل تفصیل ہے:

1۔  کارڈ کے ذریعہ ادائیگی کی صورت میں کچھ   پیسوں کی رعایت (Discount)  اگر  بینک کی طرف سے ملتی ہوتو اس صورت میں اس رعایت کا حاصل کرنا شرعاً ناجائز ہوگا، کیوں کہ یہ رعایت بینک کی طرف سے کارڈ ہولڈر کو اپنے بینک اکاؤنٹ کی وجہ سے مل رہی ہے جو شرعاً قرض کے حکم میں ہے اور جو فائدہ قرض کی وجہ سے حاصل ہوتا ہے وہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔

2۔ اگر یہ رعایت  اس ادارے کی جانب سے ہو جہاں سے کچھ خریدا گیاہے یاوہاں کھاناکھایاگیاہے تو یہ ان کی طرف سے تبرع واحسان ہونے کی وجہ سے جائز ہوگا۔

3۔ اگر رعایت دونوں کی طرف سے ہو تو بینک کی طرف سے دی جانے والی رعایت درست نہ ہوگی۔

4۔ رعایت نہ تو بینک کی طرف سے ہو اور نہ ہی جس ادارے سے خریداری ہوئی ہے اس کی طرف سے ہو، بلکہ   کارڈ بنانے والے ادارے کی طرف سے رعایت ہو، تو اگر اس ادارے کے تمام یا اکثر معاملات جائز ہوں اور ان کی آمدن کل یا کم از کم اکثر حلال ہو تو اس صورت میں ڈسکاؤنٹ سے مستفید ہونے کی اجازت ہوگی۔

5۔اسی طرح اگریہ رعایت ایجنسیز(مثلاًایڈایجنسی) کی طرف سےہوتوچوں کہ وہ اپنی طرف سے  دینےکےبجائےبینک سے ہی لےکرکسٹمرکوڈسکاونٹ فراہم کرتی ہے،اس لیےایجنسیز کی طرف سے ملنےوالاڈسکاونٹ لینابھی درست نہیں ہے۔

6۔اگر معلوم نہ ہوکہ یہ رعایت کس کی طرف سے ہے تو پھر اجتناب کرنا چاہیے۔

2۔کریڈٹ کارڈ(Credit  Card)کااستعمال اوراس کے ذریعہ خریدوفروخت درست نہیں ہے،اس لیے کہ کسی  معاملے کے حلال وحرام ہونے  کی بنیاد درحقیقت وہ معاہدہ ہوتا ہے جو فریقین کے درمیان طے پاتا ہے، کریڈٹ کارڈ لینے والا کریڈٹ کارڈ جاری کرنے والے اداروں کے ساتھ یہ معاہدہ کرتا ہے کہ اگر مقررہ مدت میں لی جانے والی رقم واپس نہ کر سکا تو ایک متعین شرح کے ساتھ جرمانہ کے نام پر سود ادا کروں گا،شریعت میں  جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح اس کا معاہدہ کرنا بھی شرعاحرام ہے۔ اس بنیاد پر بالفرض اگر کریڈٹ کارڈ لینے والا شخص لی گئی رقم مقررہ مدت میں واپس بھی کردے تو معاہدہ سودی ہونے کی وجہ سے اصولی طور پر کریڈٹ کارڈ کا استعمال نا جائز ہے  اور اگر مقررہ مدت کے بعد سود کے ساتھ رقم واپس کرتا ہے تو اس کے ناجائز ہونے میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے، اس لیے ادائیگی کی صورت کوئی بھی ہو اس سے قطع نظر نفسِ معاہدہ کے سودی ہونے کی وجہ سے کریڈٹ کارڈ بنوانا ہی ناجائز ہے۔  باقی کریڈٹ کارڈ سے جو جائز سہولتیں متعلق ہیں وہ ڈیبٹ کارڈ سے بھی حاصل ہوجاتی ہیں، اس لیے کریڈٹ کارڈ کے استعمال کو ضرورت قرار نہیں دیا جاسکتا۔

قرآنِ کریم میں ہے:

{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ} [البقرة: 278، 279]

ترجمہ: ’’اے ایمان والو!  اللہ سے ڈرو ، اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو،  اگر  تم ایمان والے ہو، پھر اگر تم (اس پر عمل  ) نہ کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا  اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول  کی طرف  سے۔‘‘(از بیان القرآن)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ}[البقرة: 276]

 ترجمہ:’’اللہ سود کو مٹاتے ہیں،  اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔‘‘ (از بیان القرآن)

حدیثِ مبارک میں ہے:

"عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه» ، وقال: «هم سواء»"

(صحیح  مسلم، 3/1219، باب لعن آكل الربا ومؤكله، ط:، دار احیاء التراث ، بیروت)

ترجمہ:’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسولِ کریم ﷺ نے  سود  کھانے (لینے) والے پر،  سود کھلانے (دینے)  والے پر،  سودی لین دین  لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر سب ہی پر لعنت فرمائی ہے نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سب (اصل گناہ میں) برابر ہیں۔‘‘

 دوسری حدیث میں ہے:

"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الربا وإن كثر فإن عاقبته تصير إلى قل: رواهما ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان."

(مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع،باب الربوا،الفصل الثالث،ج:2، ص: 859،رقم:2827، ط:المکتب الاسلامی- بیروت)

ترجمہ:’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:  سود اگرچہ بڑھتا جائے لیکن اس کا انجام ہمیشہ قلت (کمی) کی طرف ہوتا ہے۔‘‘

         ایک اور حدیث میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الربا سبعون جزءًا أيسرها أن ينكح الرجل أمه".

ترجمہ:’’ حضرت ابوہریرہ فرماتے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا سود (میں) ستر گناہ ہیں سب سے ہلکا گناہ ایسے ہے جیسے مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔‘‘

(مشکاۃ المصابیح، کتاب البیوع،باب الربوا،الفصل الثالث،ج:2، ص: 859،رقم:2826، ط:المکتب الاسلامی- بیروت)

فتاوی شامی  میں ہے:

"وفي الخلاصة القرض بالشرط حرام والشرط لغو بأن يقرض على أن يكتب به إلى بلد كذا ليوفي دينه۔

وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام۔"

(باب المرابحۃ و التولیۃ، فصل فی القرض: 5 / 166، ط: سعید)

الأشباه والنظائر میں ہے:

"ما ‌حرم ‌أخذه حرم إعطاؤه کالربا ومهر البغي وحلوان الكاهن والرشوة وأجرة النائحة والزامر۔"

(‌‌القاعدۃالرابعۃ عشرۃ: 132، ط:دار الكتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100362

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں