بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چاندی سے قربانی کا نصاب متعین کرنا


سوال

ایک خطیب صاحب نے  جمعہ کے خطبے میں فرمایا کہ آج کے دور میں نصاب کا اعتبار چاندی سے نہیں کیا جائے گا، بلکہ سونے سے کیا جائے گا؛ کیوں کہ چاندی کی قیمت بہت زیادہ گر چکی اور علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔

1 ۔کیا مفتیانِ  کرام نے کوئی ایسا فتویٰ جاری کیا ہے؟ 

2۔  اگر کیا ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟  کیا کسی ایک ادارے کا فتویٰ جمہور کے مقابلے میں راجح ہو سکتا ہے؟

3۔  اس مسئلہ کی تعلیم و تبلیغ کرنا درست ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو (اس کے ساتھ نقد رقم، چاندی یا مالِ تجارت وغیرہ کچھ بھی نہ ہو) تو  سونے کے اعتبار سے  نصاب کی  مقدار  ساڑھے سات تولہ سونا ہے اور اگر چاندی ہے تو  نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے، اگر سونا اور چاندی دونوں کچھ کچھ ہوں، یا ان کے ساتھ مالِ تجارت یا نقدی ہو، یا صرف نقدی یا مال تجارت ہو تو ان سب صورتوں  میں چاندی کے نصاب کو معیار بنایا جائے گا، اس لیے کہ اس میں فقراء کا زیادہ فائدہ  ہے۔

لہذ ا  جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں، ذمے  میں  واجب الادا اخراجات منہا کرنے کے بعد ضرورت  و استعمال سےزائد اتنا مال یا  سامان  موجود ہو جس کی قیمت  ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو (خواہ ضرورت سے زائد مال نقدی ہو یا سونا چاندی ہو یا کسی اور شکل میں ہو، اسی طرح مالِ تجارت نہ بھی ہو) تو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

1-  مفتیانِ کرام نے  متفقہ طور پر ایسا فتویٰ جاری نہیں کیا ہے۔

2-   ملحوظ رہے کہ فتوے کی بنیاد دلیل پر ہوتی ہے، اور مسئلے کی قوت دلیل کی قوت پر مبنی ہوتی ہے، نہ کہ فتوی جاری کرنے والوں  کی گنتی کی بنیاد پر ، اور مذکورہ مسئلے میں قطع نظر اکثریت و جمہور کی رائے کے،از روئے دلائل وہی فتویٰ راجح ہے جو اکابر کے زمانے سے چلا آرہا ہے   کہ موجودہ زمانے میں بھی چاندی کا نصاب ہی معتبر ہے۔

3- قربانی کے لیے سونے کا نصاب معیار قرار دینے کے مسئلے کی تشہیر درست نہیں ہے۔

اس کی تفصیلی وجوہات اور دلائل کے لیے درج ذیل لنک پر اس متعلق تحقیق ملاحظہ ہو:

قربانی کے نصاب کا معیار سونا یا چاندی؟

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144212200003

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں