بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وبائی امراض کے وقت اذان دینے کا حکم


سوال

درج ذیل فتویٰ کی تصدیق مطلوب  ہے:

وبائی امراض کے دفعیہ  کے لیے اذان دینے کا شرعی حکم

بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب باسم الملک الوھاب۔

قدرتی آفات ومصائب ( مثلا وبائی امراض طاعون  ، شدید بارش یا زلزلہ وغیرہ ) کے وقت اجتماعی یا انفرادی طور پر اذان دینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین سے ثابت نہیں ہے، نیز نماز کے علاوہ اذان دینے کے جو مواقع ائمہ مجتہدین نے ذکر کئے ہیں ان میں بھی مذکورہ مواقع پر اذان دینے کا ذکر نہیں ہے ( ان مواقع کی تفصیل علامہ شامی نے ردالمحتار میں اور ابن نجیم مصری نے البحر الرائق میں کتب شافعیہ کے حوالے سے ذکر کی ہے )  اس لیے اگر سنت اور مستحب سمجھے بغیر محض تدبیر اور علاج کے طور پر دفعِ بلاء اور مصائب کے لئے اذان دی جائے تو شرعاً اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے جیساکہ مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی نوراللہ مرقدہ نے " کفایت المفتی " جلد :۳/ ۵۱ ، کتاب الصلاۃ ، اور فقیہ الامت مفتی محمود الحسن گنگوہی علیہ الرحمہ نے " فتاوی محمودیہ " جلد : ۵/ ۴۰۷ ، باب الاذان ، میں تحریر فرمایا ہے ۔

لیکن چوں کہ عوام اس کی حدود وقیود کا پاس ولحاظ نہیں رکھتے اور اسے شریعت کا حکم سمجھنے لگتے ہیں ، نیز ملک میں پھیلی وبائی مرض کے پیش نظر ایک خاص طبقہ کی جانب سے باضابطہ اعلان جاری کیا جارہا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے گھروں کی چھتوں پر اذان کا اہتمام کرے، ظاہر ہے کہ عوام الناس شریعت کا ایک حکم سمجھ کر اس پر عمل کریں گے، حالانکہ شریعت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔

دوسری طرف شریعت کا ضابطہ ہے کہ اگر کسی امر مباح کو لازم اور ضروری قرار دیا جانے لگے اور عوام اسے سنت یا مستحب سمجھنے لگے تو پھر وہ مباح عمل مباح نہیں رہتا، بلکہ وہ مکروہ اور قابل ترک عمل ہوجاتا ہے ، بلکہ فقہا ء نے تو امر مستحب کے اصرار کو بھی ممنوع اور مکروہ قرار دیا ہے۔ چنانچہ " تنقیح الفتاوی الحامدیۃ " میں ہے :

"كل مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنيۃ أمر أو وجوبہ فهو مكروه ، كتعيين السورة للصلاة ، وتعيين القراءة لوقت ونحوه".

( تنقيح الفتاوى الحامديۃ : ٢/ ٥۷۴ ، دار الکتب العلمیۃ بیروت) 

ارشاد الساری میں ہے :

"إن المندوب ربما انقلب مکروها إذا خیف علی الناس أن یرفعوہ عن رتبتہ".

(إرشاد الساري شرح صحیح البخاري : ٢/ ۵۸۶، کتاب الأذان، باب الانتقال والانصراف عن الیمین والشمال دارالفکر بیروت )

مرقاۃ المفاتیح میں ہے :

"من أصر علی مندوب وجعلہ عزماً ولم یجعل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال ، فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر".

(مرقاۃ المفاتیح : ۳/۲۶، المکتبۃ الأشرفیۃ دیوبند) 

اسی بنا پر بعض کتب فتاوی میں اس طرح کے مواقع پر اذان دینے کو ممنوع اور بدعت قرار دیا گیا ہے، چنانچہ فقیہ النفس حضرت اقدس مفتی عزیز الرحمن نوراللہ مرقدہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

"سوال ( ۹۳) : زمانہ قحط اور وباء میں اور دیگر حوادثات میں اور دفن میت کے بعد اذن کہنا کیسا ہے ۔ جواب ان حوادثات میں اذان شارع علیہ السلام سے اور اقوال وافعال سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے بلکہ بدعت ہے "۔

( فتاوی دارالعلوم دیوبند: ۲/ ۶۷، باب الاذان ، عنوان : دفن اور قحط وباء اذان دینا ثابت ہے یا نہیں ، ۔۔ ۱/ ۷۳ ، باب الاذان ، سوال وجواب نمبر : ۱۱۱، عنوان : خشک سالی اور طاعون کے موقع پر اذان دینا ثابت ہے یا نہیں ، مکتبہ دار الاشاعت کراچی ، پاکستان ) 

مفتی نظام الدین صاحب اعظمی سابق صدر مفتی دارالعلوم دیوبند اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :

" اذان طاعت وقربت ہے اس کا اجراء شارع علیہ السلام کی تجویز اور فقہاء کرام کی تخریج وبیان پر موقوف ہے اوراس موقعہ میں کسی بھی روایت یا فقہاء کی تخریج میں کہیں اذان ثابت نہیں اس لیے بدعت ہے " ۔

(نظام الفتاوی : جلد اول حصہ دوم ، ص ۱۲۶، عنوان : دفع وباء کے لئے اذان دینا بدعت ہے ، زکریا بکڈپو دیوبند )

الغرض چوں کہ قدرتی آفات ومصائب کے وقت اذان دینا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے اقوال وافعال سے سے ثابت نہیں ہے، اس لیے موجودہ وقت میں ملک اور بیرون ملک میں پھیلی " کرونا وائرس " نامی وباء کے دفعیہ کے  لیے اجتماعی یا انفرادی اذان دینے کی ترغیب دینا اور لوگوں کا اس پر عمل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، بلکہ بدعت ہے جس سے احتراز کرنا لازم اور ضروری ہے ۔ لیکن اگر اس کے باوجود کوئی اپنی طرف سے بطور علاج اتفاقیہ طور پر اذان  دے دے بشرطیکہ التزام و اہتمام نہ ہو  اور  اشتہار و عمومی دعوت نہ ہو تو گنجائش ہے، اس پر نکیر نہ کی جائے ،اذان کے مقابلے میں ایسے مواقع  کے لیے جو اوراد  و وظائف منقول ہیں ان کا اہتمام زیادہ نفع بخش ہوگا۔

"عن عائشة رضی الله عنهما قالت: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا مالیس منه فهو رد".

( صحیح البخاري : ۱/ ۳۱۷، رقم : ۲۶۱۹ ، کتاب الصلح ، باب إذا اصطلحوا علی جور فالصلح مردود) 

قال القاری فی المرقاہ :

"قال القاضی: المعنی من أحدث فی الاسلام رأيا لم یکن له من الکتاب والسنة سند ظاهر أو خفی ملفوظ أو مستنبط ، فهو مردود علیہ ---- وفي رواية لمسلم: من عمل عملا أي أتي بشئ من الطاعات ، أو بشئ من الأعمال الدنيوية والأخروية سواء كان محدثا أو سابقا على الأمر ليس عليه أمرنا ، أي وكان من صفته أنه ليس من إذننا بل أتى به على حسب ما هواه فهو رد ، أي مردود غير مقبول ".

(مرقاۃ المفاتيح شرح مشکاۃ المصابیح : ۱/ ۳۳۶ ، کتاب الایمان / باب الاعتصام بالکتاب والسنة ، دارالکتب العلمیة بیروت )

وفي مبارق الأزهار :

"«من احدث» أی أتی بأمرجدید« فی أمرنا هذا » أي في ديننا عبر عن الدين به تنبيها على أن الدين الذی نشتغل به« مالیس منه » أی شیئاً لم یکن له سندظاهراوخفی من الکتاب والسنة «فهورد» أی الذی أحدثه مردود باطل".

( مبارق الازهارفی شرح مشارق الانوار : ۱/ ۵۳ ، الباب الاول / الفصل الاول ابتداء بمن الموصولة ، دارالجبل بیروت )

وفي مرعاة المفاتيح :

"ومعنى الحديث : أن من احدث فی الاسلام رأيا لم یکن له من الکتاب والسنة سند ظاهر أو خفی، ملفوظ أو مستنبط ، فهو مردود علیه ، والمراد أن ذلك الأمر واجب الرد يجب على الناس رده ، ولا يجوز لأحد إتباعه والتقليد فيه".

(مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح : ١/ ٢٣٦ ، كتاب الایمان /باب الاعتصام بالکتاب والسنة ، دارالکتب العلمیة بیروت )

ایسے حوادث ومصائب چوں کہ انسان کے اعمالِ  بد کے نتائج ہوتے ہیں  اس لیے ایسے موقع پر لازم ہےکہ اپنے اپنے گھروں میں نماز ، دعا  اور کثرت سے توبہ واستغفار کا اہتمام کیاجائے ، اللہ تعالیٰ تمام امتِ  مسلمہ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے آمین !

مزید تفصیل کے لیے مندرجہ ذیل کتب فتاوی کا مطالعہ فرمائیں :

( امداد الفتاوی جدید مطول : ۹/ ۵۲۳ - ۵۲۸، سوال وجواب نمبر : ۲۶۹۵، عنوان : دفع وباء کے واسطے اذان دینے کا حکم )

( امداد الاحکام للشیخ ظفر التھانوی : ۱/ ۴۲۰، کتاب الصلاۃ ، عنوان : مرض طاعون میں اذان دینا مشروع ہے یا نہیں ، مکتبہ دارالعلوم کراچی )

( احسن الفتاوی : ۱/ ۳۷۶ ، باب ردالبدعات ، ایم ایچ سعید کمپنی ، کراچی)

فقط واللہ اعلم وعلمہ اتم

جواب

وبا کے خاتمے کے لیے اذان دینے کے بارے میں فقہائے احناف سے کوئی روایت منقول نہیں ہے،  نیز قرآنِ مجید یا کسی حدیث میں بھی اس کا ذکر موجود نہیں ہے، البتہ شوافع کے ہاں  مصائب، شدائد اور عمومی پریشانیوں کے بعض مواقع پر اذان دینے کی اجازت منقول ہے، اس لیے وبا کے خاتمے کے لیے بطورِ  علاج  اذان دینے کی گنجائش  ہے،  تاہم اس میں درج ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:

1۔۔ اس عمل کے سنت یا مستحب ہونے کا اعتقاد نہ ہو۔

2۔۔  اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر  نہ کیا جائے۔

3۔۔ مساجد میں یہ اذان نہ دی جائے۔

4۔۔  اس کے لیے کسی مخصوص ہیئت اور  اجتماعی کیفیت کا التزام نہ کیا جائے۔

5۔۔ ایسی وضع کے ساتھ نہ دی جائے جس سے اذانِ نماز ہونے کا اشتباہ ہو۔

مذکورہ بالا شرائط کا لحاظ رکھ کر وبا کے خاتمے کے لیے اذان دی جائے تو حکم کے اعتبار سے یہ مباح ہے، سنت یا مستحب نہیں ہے، نیز  یہ بطورِ علاج ہے۔

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کی دار الافتاء کی رائے یہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی۔سوال میں مذکورہ اکابر کے فتاویٰ اور ان کا علمی مقام و قبولیت مسلّم ہے، تاہم کرونا وائرس کے شیوع کے ابتدائی دنوں میں ہماری دار الافتاء کے رفقاء نے  قدیم و جدید کتبِ فقہ و فتاویٰ میں طویل غور و خوض اور جامعہ کے دو سابق رئیس دار الافتاء (مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب اور مفتی محمد عبد السلام چاٹ گامی صاحب رحمہما اللہ) کے فتاویٰ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے جو فتویٰ جاری کیا وہ اوپر تحریر کردیا گیا ہے۔ اس کی روشنی میں آپ حضرات (سوال میں ذکر کردہ) اپنے جواب کا تجزیہ کرسکتے ہیں۔

جامعہ ہٰذا کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’سوال:

کسی عظیم حادثے کے نازل ہونے کے بعد مسجدوں میں رات کے وقت اذانیں دی جائیں؛ تاکہ اس کی برکت سے بلا رفع ہوجائے، کیا اس کا کوئی شرعی ثبوت ہے؟

جواب:

صورتِ مسئولہ میں احناف سے اس بارے میں کوئی روایت منقول نہیں، البتہ شوافع کے اقوال سے مسنون معلوم ہوتاہے، جس پر علامہ شامی رحمہ اللہ نے کہاہے کہ ایسے مواقع پر اذان دی جائے تو ہمارے نزدیک بھی اس کی گنجائش ہے؛ لما في رد المحتار:

’’ولا بعد فيه عندنا...‘‘ الخ

(کتاب الصلاة، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لها الأذان في غیر الصلاة، (1/385) ط: سعید)

البتہ یہ اذان مسجدوں میں نہ دی جائے؛ تاکہ اذانِ صلاۃ کے ساتھ التباس نہ ہوجائے۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: محمد عبدالسلام چاٹ گامی                                                                                            الجواب صحیح: ولی حسن‘‘

حضرت  مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ اللہ فرما تےہیں:

طاعون،وباوغیرہ امراض کے شیوع کے وقت کوئی خاص نماز احادیث سے ثابت نہیں،  نہ اس وقت اذان کہنا کسی حدیث میں وارد ہوا ہے، اس  لیے اذان کو یا جماعت کو ان موقعوں میں ثواب یا مسنون یا مستحب سمجھنا  خلافِ واقع ہے۔

(فتاوی رشیدیہ، کتاب العلم) 

’’کفایت المفتی‘‘  (از مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب  رحمہ اللہ) میں ہے :

’’سوال : دفعِ وباء کے لیے اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟  تنہا یا گروہ کے ساتھ مسجد میں یا گھر میں؟

جواب : دفعِ وباء کے لیے اذانیں دینا تنہا یا جمع ہوکر بطورِ علاج اور عمل کے مباح ہے، سنت یا مستحب نہیں‘‘۔  (۳ / ۵۲، دار الاشاعت ) 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 547):

"وخرج بها الأذان الذي يسن لغير الصلاة كالأذان في أذن المولود اليمنى، والإقامة في اليسرى، ويسن أيضًا عن الهم وسوء الخلق لخبر الديلمي، «عن علي: رآني النبي صلى الله عليه وسلم حزينًا فقال: (يا ابن أبي طالب إني أراك حزينًا فمر بعض أهلك يؤذن في أذنك، فإنه درأ الهم) قال: فجربته فوجدته كذلك». وقال: كل من رواته إلى علي أنه جربه، فوجده كذلك. وروى الديلمي عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من ساء خلقه من إنسان أو دابة فأذنوا في أذنه )".

فتاوی شامی میں ہے :

" مطلب في المواضع التي يندب لها الأذان في غير الصلاة.

(قوله: لا يسن لغيرها) أي من الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل وعند إنزال الميت القبر قياسا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان: أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه. أقول: ولا بعد فيه عندنا. اهـ. أي لأن ما صح فيه الخبر بلا معارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه، لما قدمناه في الخطبة عن الحافظ ابن عبد البر والعارف الشعراني عن كل من الأئمة الأربعة أنه قال: إذا صح الحديث فهو مذهبي، على أنه في فضائل الأعمال يجوز العمل بالحديث الضعيف كما مر أول كتاب الطهارة، هذا، وزاد ابن حجر في التحفة الأذان والإقامة خلف المسافر. قال المدني: أقول وزاد في شرعة الإسلام لمن ضل الطريق في أرض قفر: أي خالية من الناس. وقال المنلا علي في شرح المشكاة قالوا: يسن للمهموم أن يأمر غيره أن يؤذن في أذانه فإنه يزيل الهم، كذا عن علي - رضي الله عنه - ونقل الأحاديث الواردة في ذلك فراجعه. اه".

(1/385،باب الاذان، ط: سعید )

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

وبا اور طاعون وغیرہ کے مواقع پر اذان دینے اور بعض روایات سے استدلال کا حکم

 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201287

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں