بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وبا اور طاعون وغیرہ کے مواقع پر اذان دینے اور بعض روایات سے استدلال کا حکم


سوال

وبا اور قحط اور خشک سالی طاعون وغیرہ کے موقعہ میں اذان بعد نماز کہنا شرعاًدرست ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو شرعی دلیل کیا ہے؟ اور اگر ممنوع ہے تو ہم نے جو سنا ہے کہ وبا میں غولِ بیابانی اور جنات کی کثرت ہوتی ہے اور جنات کے دفع کے لیے جو حدیث: "إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأذَانِ" اور حدیث :"وإِذا رأی الحریق فلیطفئه بالتکبیرسے سندِ جواز پکڑنا صحیح ہے یا نہیں؟

جواب

آپ کے بنیادی سوال کا جواب یہ ہے کہ: وبا یا طاعون وغیرہ کے خاتمے کے لیے اذان دینا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، نیز فقہائے احناف سے بھی اس موقع پر اذان دینے کے بارے میں کوئی روایت منقول نہیں ہے، البتہ شوافع کے ہاں  مصائب، شدائد اور عمومی پریشانیوں کے بعض مواقع پر اذان دینے کی اجازت منقول ہے؛ اس لیے وبا کے خاتمے کے لیے اذان دینے کی گنجائش ہوگی، تاہم یہ اذان مساجد میں نہ دی جائے،  نیز اس انداز سے بھی نہ دی جائے کہ نماز کے لیے اذان ہونے کا اشتباہ ہو۔

جامعہ ہٰذا کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’سوال:

کسی عظیم حادثے کے نازل ہونے کے بعد مسجدوں میں رات کے وقت اذانیں دی جائیں؛ تاکہ اس کی برکت سے بلا رفع ہوجائے، کیا اس کا کوئی شرعی ثبوت ہے؟

جواب:

صورتِ مسئولہ میں احناف سے اس بارے میں کوئی روایت منقول نہیں، البتہ شوافع کے اقوال سے مسنون معلوم ہوتاہے، جس پر علامہ شامی رحمہ اللہ نے کہاہے کہ ایسے مواقع پر اذان دی جائے تو ہمارے نزدیک بھی اس کی گنجائش ہے؛ لما في رد المحتار:

’’ولا بعد فيه عندنا...‘‘ الخ (کتاب الصلاة، باب الأذان، مطلب في المواضع التي یندب لها الأذان في غیر الصلاة، (1/385) ط: سعید)

البتہ یہ اذان مسجدوں میں نہ دی جائے؛ تاکہ اذانِ صلاۃ کے ساتھ التباس نہ ہوجائے۔ فقط واللہ اعلم

الجواب صحیحکتبہ
ولی حسنمحمد عبد السلام چاٹ گامی

حضرت  مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ اللہ فرما تےہیں:

طاعون،وباوغیرہ امراض کے شیوع کے وقت کوئی خاص نماز احادیث سے ثابت نہیں،  نہ اس وقت اذان کہنا کسی حدیث میں وارد ہوا ہے، اس  لیے اذان کو یا جماعت کو ان موقعوں میں ثواب یا مسنون یا مستحب سمجھنا  خلافِ واقع ہے۔(فتاوی رشیدیہ، کتاب العلم) 

کفایت المفتی میں ہے :

"سوال : دفع وباء کے لیے اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟ تنہا یا گروہ کے ساتھ مسجد میں یا گھر میں؟

جواب : دفع وباء کے لیے اذانیں دینا تنہا یا جمع ہوکر بطور علاج اور عمل کے مباح ہے، سنت یا مستحب نہیں‘‘۔  (۳ / ۵۲، دار الاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"بلا کے دفعیہ کے لیے اذان کہنا ثابت بلکہ مستحب ہے، اور بخار کے دفعیہ کے لیے اذان کہنا ثابت نہیں ہے۔ شرعاً دفع بلا کے لیے اذان اس طرح کہی جائے کہ اذان نماز کا اشتباہ نہ ہو"۔ (۳ / ۲۹۸، دار الافتاء فاروقیہ )

اس سلسلہ میں  وبا وغیرہ کے مواقع پر اذان کو احادیث سے ثابت کرنے کے لیے جس روایت سے استدلال کیا جاتاہے ،یہ درست نہیں،  اس روایت سے استدلال سے متعلق حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ  نے طویل کلام فرمایا ہے ذیل میں وہ نقل کیاجاتاہے:

" دفع وباء کے واسطے اذان دینے کا حکم"

سوال(392)اذان دینا واسطے دفع وبا کے جائز ہے یا ناجائز؟ اور جو لوگ جواز استدلال میں حصن حصین "إذا تغیلت الغیلان نادوا بالأذان" پیش کرتے ہیں یہ استدلال ان کا درست ہے یا نہیں ؟ اور اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ اور ایسے ہی یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ شیطان اذان سے اس قدر دُور بھاگ جاتا ہے جیسے روحا، اور طاعون اثر شیاطین سے ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟

الجواب:

اس میں دو حدیثیں معروف ہیں: ایک حصن حصین کی مرفوع "إذا تغیلت الغیلان نادوا بالأذان ". دوسری صحیح مسلم کی موقوف حضرت سہل سے:

"قال: أرسلني أبي إلی بني حارثة قال: ومعي غلام لنا أو صاحب لنا فناداه مناد من حائط باسمه، قال: وأشرف الذي معي علی الحائط فلم یرشیئًا -إلی قوله- إذا سمعت صوتًا فناد بالصلاة، فإني سمعت أبا هریرة یحدث عن رسول اللّٰه صلی اﷲ علیه وسلم أنه قال: إن الشیطان إذا نودي بالصلاة ولی الشیطان وله حصاص".

حصن حصین میں مسلم کا جو حوالہ دیا ہے وہ یہی حدیث ہے اور دونوں حدیثیں مقید ہیں ۔ ’’إذا تغولت‘‘  اور  ’’إذا سمعت صوتًا‘‘ کے ساتھ اور تغول کے معنی ’’حرزثمین‘‘  میں ’’نہایہ‘‘  سے منقول ہیں: "یتغول تغولاً: أي یتلون تلونًا" اور حاصل اس حدیث کا لکھا ہے:

"إذا رأی أشیاء منکرة أو تخیلت له خیالات مستنکرة أو تلونت له أجسام مکروهة. اهـ".

اور جو حکم مقید ہوتا ہے کسی قید کے ساتھ اس میں قائلین بمفہوم المخالف کے نزدیک تو عدم القید مفید ہوتی ہے عدم الحکم کو اور غیر قائلین بالمفہوم کے نزدیک گو عدم الحکم کو مفید نہ ہو مگر حکم کو بھی مفید نہیں؛ بلکہ عدم القید کی صورت میں حکم اپنے وجود میں محتاج دلیل مستقل کا ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ طاعون میں دونوں قیدیں منتفی ہیں؛ کیوں کہ اس میں نہ شیاطین کا تشکل اور تمثل ہے اور نہ اُن کی آواز مسموع ہوتی ہے، صرف کوئی اثر مبطن ہے جس کے بارہ میں یہ حدیث مرفوع آئی ہے:

"فما الطاعون قال رسول اللّٰه ﷺ: وخز أعداء کم من الجن. أخرجه أحمد عن أبي موسی الحذا في بعض الرسائل عن فتح الباري للحافظ ابن حجر".

پس جب اس میں قیدیں منتفی ہیں تو حدیثین مذکورین سے اس میں حکم اذان کا بھی ثابت نہ ہوگا، پس دوسری دلیل شرعی کی حاجت ہوگی، اور چوں ک ہ بوجہ اشتمال اذان کے ’’حي علی الصَّلاة‘‘ اور ’’حي علی الفلاح‘‘ پر غیر صلوٰۃ کے لیے اذان کہنا حکم غیر قیاسی ہے اور ایسے حکم کاتعدیہ قیاس سے صحیح نہیں۔ اس لیے وہ دلیل شرعی کوئی نص ہونا چاہیے، محض قیاس کافی نہیں، اور طاعون میں کوئی نص موجود نہیں، اگر کہا جاوے کہ حدیث مسلم میں صحابی کا سماع صوتِ شیطان کے وقت حکم بالاذان کو معلل کرنا علت تولی شیطان بالأذان کے ساتھ متقضی ہے صحت تعدیہ اس حکم کو دوسرے محل پر بھی جہاں دفع شیطان کی حاجت ہو اور طاعون میں اس کی حاجت ہے، پس اُسی علت سے طاعون کو بھی سماع صوت پر قیاس کر لیا جاوے گا، جواب یہ ہے کہ اول تو بدلیل مذکور یعنی بوجہ اشتمال اذان کے حی علی الصلوٰۃ وحی علی الفلاح پر غیر نماز کے لیے اذان کہنا حکم مخالف قیاس ہے اور ایسے حکم کا تعدیہ قیاس سے جائز نہیں ہوتا؛ بلکہ مورد نص پر مقتصر رہا کرتا ہے،  یہی وجہ ہے کہ غیر صلوٰۃ کے جن مواقع پر اذان وارد ہوئی ہے اُن میں احادیث سے استدلال کیا گیا ہے، چنانچہ ردالمحتار میں ایسے مواقع نقل کرکے کہا ہے:

"لأن ماصح الخبر فیه بلا معارض فهو مذهب للمجتهد" اورآگے کہا ہے: "ونقل الأحادیث الواردة في ذلك" اور یہی وجہ ہے کہ جس میں نص نہ تھی اس کو علماء نے رد کردیا ہے۔ چنانچہ شامی نے موقع مذکور میں کہا ہے:

"قیل: وعند إنزال المیت القبر قیاساً علی أول خروجه للدنیا، لکن رده ابن حجر في شرح العباب".

اوراحادیث بالا میں ممکن ہے کہ صحابیؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالخصوص یہ حکم سُنا ہو جیسا غیر مدرک بالرائے میں حدیث موقوف کو مرفوع حکمی کہا جاتا ہے، اور حدیث تولی کو ذکر کرنا تعلیل کے لیے نہ ہو بلکہ بیان حکمت منصوص کے لیے ہو، اور اگر اس سے غض بصر کرکے اس حکم کو قیاس ہی مان لیا جاوے تب بھی صحت قیاس کے لیے اوّل تو مجتہد ہونا قائس کا شرط ہے، اورطاعون میں اذان کہنا کسی مجتہد سے منقول نہیں، اور اب قیاس مفقود ہے، دوسرے قیاس کی صحت کے لیے اشتراک علتِ  مؤثرہ کا درمیان مقیس اور مقیس علیہ کے شرط ہے اور یہاں علتِ مؤثرہ اگر محض الی دفع الشیطان ہو تو لازم آتا ہے کہ جتنے امور از قسم تصرفات خفیہ شیطانیہ ہیں سب کے لیے اذان مشروع ہو، مثلاً استحاضہ کی نسبت حدیث میں ہے "رکضة من رکضات الشیطان" ” تو اس کا علاج بھی اذان سے مشروع ہونا چاہیے ولاقائل بہ۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہاں علتِ مؤثرہ میں کوئی اور وصف بھی معتبر ہے، سو ممکن بلکہ غالب یہ ہے جیسا کہ اُن مواقع میں تأمل کرنے سے جہاں اذان بہیئت اذان صلوٰۃ وارد ہوئی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ وہ وصف یہ ہو کہ وہ حادثہ دفعۃً پیش آجائے اور فی الفور ہی اس کے علاج کی احتیاج ہو، چنانچہ وہ مواقع یہ ہیں :

"عند مزدحم الجیش، وعند الحریق، وعند تغول الغیلان، وخلف المسافر، ولمن ضل الطریق في أرض قفر، کذا في ردالمحتار".

ان سب مواقع میں وصف مذکور مشترک ہے، اور جو اذان بہیئت اذان صلوٰۃ نہ ہو اس میں بحث نہیں ۔

"کالأذان في أذن المولود، والمهموم، والمصروع، والغضبان، ومن ساء خلقه من إنسان أو بهیمة کما في ردالمحتار أیضًا".

اور ظاہر ہے کہ طاعون میں یہ وصف نہ وقوعاً ہے، چنانچہ اس کا عروض ومعالجہ دونوں اس قدر متدرج اور ممتد ہیں کہ عین اُس کے دوران میں خود نماز کی متعدد اذانیں ہو جاتی ہیں جو دفع اثر جنات کے لیے کافی ہے، خود اُس کے لیے مستقل اذان کی کچھ حاجت نہیں، اور یہی سرّ ہے وصف مذکور کے علتِ مؤثرہ ہونے میں؛ کیوں کہ جو امر فوری نہ ہو  اس کے لیے اذان صلوٰۃ کافی ہو سکتی تھی؛ البتہ جہاں کان میں اذان کہی جاوے، چوں کہ اذان صلوٰۃ کان سے منہ قریب کرکے نہیں ہوتی؛ لہٰذا اُس میں یہ علت نہ ہوگی، اور نہ طاعون میں یہ وصف عملاً ہے؛ کیوں کہ جب مریض کو عین عروض مرض کا وقت ہو اُس وقت کوئی بھی اذان نہیں کہتا؛ بلکہ شب وروز میں کیف ما اتفق یا کسی وقت کی تعیین کے ساتھ اذان کا معمول ہے خواہ عروض مرض اس کے قبل ہو یا بعد ہو،  سو اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ بلا وصف فور پانچ وقت کی اذان ہی کافی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اذان میں جو علاوہ خاصیت تولی شیطان کے اور خواص حدیثوں سے ثابت ہوئے ہیں مثل اجابت دُعاعنداللہ اور شہادت اشیاء علی ایمان المؤذن ، اُن کی تحصیل کے لیے مستقل اذان کی کسی نے اجازت نہیں دی؛ کیوں کہ اذان نماز کی اس کے لیے کافی ہے، ورنہ چاہیے کہ جب دُعا کرنا ہو پہلے اذان کہہ لینا جائز ہو، خواہ کوئی وقت ہو، یا اسی طرح جب اشیاء کو شاہد ایمان بنانا ہو، ولا قائل بہ۔

اور جاننا چاہیے کہ جواب ثانی میں جوکہ علی سبیل التنزل ہے تبرعاً غض بصر کر لیا گیا ہے؛ تاکہ طاعون میں اذان کا ثبوت اس تقدیر پر بھی نہ ہو سکے، ورنہ نفس الامر میں یہ حکم غیر قیاسی ہے، پس اس قیاس سے زلزلہ وغیرہ کے وقت بھی اذان کی گنجائش نہیں ہو سکتی۔

تیسرے خود یہی امر معرض کلام میں ہے کہ آیایہ طاعون مسبب وخز جن سے ہے جیسا کہ اطلاق حدیث اس کا مرجح ہے یا بعض طاعون اس کا مسبب ہے جیسا کہ مہملہ کا قوت جزئیہ میں ہونا اس کامصحح ہے، جب خود مبنی یعنیوخز جنہی مشکوک فیہ ہے تو مبنی یعنی اذان کا کیسے ثبوت ہو جاوے گا۔  چوتھے اس میں بہت سے مفاسد لازم آتے ہیں ، مثلاً التباس مصلین بوجہ غلبہ جہل اہل زمانہ کے اور توحش ضعیف القلب لوگوں کا کہ وہ ان کے ذہن میں تخیل ہجوم مرض کی تجدید کردیتا ہے اور عوام الناس کا اذان کے بھروسے اصلاح اعمال واستغفار ودعاء الٰہی سے بے فکر ہوجانا اور اس کو احکام مقصودہ سے سمجھنے لگنا وغیرہ وغیرہ تو ایسی حالت میںتوجائز بھی ناجائز ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ تغول وغیرہ کے مواقع میں جو اذان وارد ہے اس میں بھی عدم لزوم مفسدہ شرط، پس تقریر مذکور سے ثابت ہوگیا کہ حدیث تغیل سے استدلال کرنا اس باب میں درست نہیں ، اور یہ اذان محض إحداث في الدین ہے اور یہی وجہ ہے کہ طاعون عمواس میں باوجود شدت احتیاج کے کسی صحابی سے منقول نہیں کہ طاعون کے لیے اذان کا حکم دیا ہو یا خود عمل کیا ہو۔

اور سوال ثانی میں حدیث کا مدلول تو ظاہر، اگر اس کے متعلق کوئی خاص امر پوچھنا ہو تو تصریح اور تعیین کرنا چاہیے۔

اور سوال ثالث میں جس حدیث کی طرف اشارہ ہے اس کے تحقق کی صورت قریب الی الفہم یہ ہو سکتی ہے کہ وخز جنسے مادہ سمیہ کا حدوث ہوجاتا ہو جس سے ہیجان دم یا انصباب دم عارض ہوتا ہو خواہ ہمیشہ یا کبھی کبھی، جیساکہ اوپر گذرا، باقی حقیقت حال اللہ کو معلوم ہے۔"۔(امدادالفتاویٰ،مسائل متعلقہ طاعون و وبا ، 4/313،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

نیز اس روایت سے استدلال کے متعلق ’’امدادالاحکام‘‘ میں مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:

" بعض علماء نے تغول غیلان کی حدیث سے طاعون کے لیے اذان کو مشروع کہاہے، مگر ہم کو اس میں کلام ہے، ہمارے نزدیک تغول غیلان سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسی صورت نمودار ہو جس میں جنات کا سامنے موجود ہونا اور غلبہ وتمرد کرنا محسوس ہو،جیسا کہ رات کو سفرکرتے ہوئے بعض دفعہ جنگلوں میں جنات کی آوازیں یا ڈراؤنی شکلیں نظرآیاکرتے ہیں، اس وقت اذان دینا مشروع ہے، اور طاعون میں جنات کا وجود اور غلبہ محسوس نہیں ہوتا، بلکہ محض سمعاً ونقلاً معلوم ہواہے. والله أعلم.

 قلت: ویوید قول الشیخ في القاموس ومجمع البحار من تفسیر التغول بالتلون بصورشتی وأیضًا، فإن في الأذان في هذه الحالة تشویشاً وتغلیطًا، وأیضاً فیه تهویل للناس فإنهم إذا سمعوا الأذانات بکثرة یفزعون ویتوهمون أن الوباء شدیدة في البلد حتیٰ سقط حمل بعض الحوامل بذلك، قاله الشیخ، لایقال: إن لم یعتقد سنیة هذا الأذان مستدلًّا بالحدیث المذکور لکونه محمولاً على ظهور الجنّ، بل أذن سنیة الرقیة ینبغي أن یجوز، قلنا: إن العوام تعتقده من الأمور الشرعیة الدینیة کما هومشاهد من أحوالهم، ومن لم یعرف حال أهل زمانه فهو جاهل، فافهم. حرره الأحقر ظفر أحمد عفاالله عنه  ۲۱ شوال ۴۴ھ

نعم التحقیق بقبول حقیق، کتبه: أشرف علي، ۲۳ شوال ۴۴هـ". (امدادالاحکام ، جلد اول ، کتاب الصلوۃ، ص:420،ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے :

’’سوال (111)وبا اور قحط اور خشک سالی طاعون وغیرہ کے موقعہ میں اذان بعد نماز کہنا شرعاً درست ہے یا نہ؟  اگر جائز ہے تو شرعی دلیل کیا ہے؟ اور اگر ممنوع ہے تو ہم نے جو سنا ہے کہ وبا میں غولِ بیابانی اور جنات کی کثرت ہوتی ہے اور جنات کے دفع کے لیے جو حدیث: "إِذَا تَغَیَّلَتِ الْغَیْلَانُ نَادَی بِالأذَانِ"  اور حدیث "وإِذا رأی الحریق فلیطفئه بالتکبیر"  سے سندِ جواز پکڑنا صحیح ہے یا نہیں؟

جواب: وبا اور قحط میں اذان کہنا منقول نہیں ہے اور تغولِ غیلان کے وقت جو اذان مستحب ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ظاہر طور سے غیلانِ جِنّ محسوس ہو ، مثلًا جنگل وغیرہ میں کسی کو  جنات کا احساس ہو، اس وقت اذان کہنے کا حکم ہے۔ امراضِ وبائیہ میں یہ وارد نہیں ہے، نہ اس کو اس پر قیاس کر سکتے ہیں کہ قیاس اول تو مجتہد کا معتبر ہے، نہ ہم لوگوں کا، اور علاوہ بریں قیاس مع الفارق ہے، امراضِ وبائیہ میں تغولِ غیلان کو محسوس نہیں کیا جاتا۔(فتاوی دارالعلوم دیوبند،باب الاذان ،1/73دارالاشاعت کراچی )فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں