بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیس رکعات تراویح کی دلیل


سوال

بیس رکعات تراویح کی دلیل کیاہے؟

جواب

بیس رکعات تراویح کی دلیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمل   ہےکہ آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے بیس رکعات تراویح کی نماز پڑھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل اُس حدیث شریف میں منقول ہے جو حضرت عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے؛ چناں چہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں بیس رکعات (تراویح) اور وتر پڑھا کرتے تھے"،یہ حدیث شریف حدیث کی کتابوں مصنف ابن ابی شیبہ،  معجم کبیر طبرانی  وغیرہ میں مذکور ہے،  اور یہ ایک صحیح اور  قوی حدیث ہے؛ کیوں کہ تمام صحابہ  کرام نے اس حدیث کے مطابق تراویح کی نماز پڑھی ہے، بلکہ اس حدیث کی صحت پر صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ  مجتہدین کے دور میں اجماع ہو چکا ہے۔

دوسری  بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ جس سنت پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم یا آپ کے خلفائے راشدین نے مداومت نہیں  کی ،بلکہ اس کو کبھی کبھی انجام دیا ہو اس کو سنت غیر مؤکدہ کہتے ہیں، اور جس کام کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے خلفائے راشدین نے ہمیشہ کیا اور اس پر مواظبت اور مداومت فرمائی ہے اس کو سنتِ مؤکدہ کہتے ہیں ؛ چوں کہ بیس رکعت تراویح حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی قائم کردہ ہیں، اور اس پر انہوں نے ہر رمضان میں پابندی کے ساتھ مواظبت بھی کی ہے، کبھی ترک نہیں کیا، اس لیے بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، لہٰذا بیس رکعت کا ثبوت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا عمل ہے اور اس کا سنتِ مؤکدہ ہونا یہ خلفائے راشدین کے عمل سے ثابت ہے جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: "میری سنت اور میرے  خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو"۔

مصنف ابن ابی شیبہ میں  ہے:

''عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر''.

(كتاب الصلاة، كم يصلى في رمضان من ركعة، 225/5 ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

اوجز المسالک الی مؤطا امام مالک میں ہے:

"وأما عدد ما صلى فيه فقال الزرقاني في حديث ضعيف عن ابن عباس رضي الله عنه أنه صلى عشرين ركعة والوتر، أخرجه ابن أبي شيبة والطبراني.......قلت وما قيل، إن حديث جابر أصح من حديث ابن عباس فيه تأمل.....وأنت خبير وإن فيها بعض الضعف، فإن جمهور الصحابة متفقة على صلاة التراويح بعشرين ركعة".

(كتاب الصلاة في رمضان، باب الترغيب في الصلاة في رمضان، 502/2-503، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي الهند)

ایضاً:

"فقد واظبت الصحابة على فعلها، كذلك من عهد عمر بن الخطاب، ولم يخالف أحد منهم ذلك فصار إجماعا، ولا تجتمع الصحابة على أمر إلا إذا كان معلوما لديهم  فعله صلى الله عليه وسلم، فمستند الإجماع فعله صلى الله عليه وسلم فلم يكن إحداث عمر إلا استقرار الأمر على العشرين، وجمعهم على إمام، ونسخ التشتت".

(كتاب الصلاة في رمضان، باب ما جاء في قيام رمضان، 524/2، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي الهند)

معارف السنن میں ہے:

"ويمكن أن يدفع النقد الأول بأنه وإن كان ضعيفا ولكن يؤيد روايته تعامل الأمة من عهد الفاروق ومن بعده ويدفع الثاني بالحمل على اختلاف الأحوال كما أشار إليه الحافظ في سياق آخر وقد يعمل بالضعيف لتقويته بالتعامل وغيره وأما عمل الفاروق فقد تلقاه الأمة بالقبول واستقر أمر التراويح في السنة الثانية من خلافته".

(أبواب الصيام، باب قيام شهر رمضان، بيان أمر الفاروق بعشرين ركعة وتلقيه الأمة بالقبول، 550/5، ط: دار التصنيف جامعة العلوم الإسلامية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(التراويح سنة) مؤكدة لمواظبة الخلفاء الراشدين (للرجال والنساء) إجماعا (ووقتها بعد صلاة العشاء)..........(وهي عشرون ركعة)".

(كتاب الصلاة، باب الوتر والنفل، 43/2-45 ط: سعيد)

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:

"سنة مؤكدة توارثها الخلف عن السلف من لدن تاريخ رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا....الخ".

(كتاب الصلاة، الفصل الثالث عشر في التراويح، 475/1، ط: قديمي)

بیس رکعت تراویح سے متعلق مزید تفصیلات کے لیے جامعہ کی ویب سائٹ پر موجود متعلقہ فتاوی سے استفادہ کر سکتے ہیں، جیساکہ مندرجہ ذیل کچھ لنکس ہیں:

بیس رکعت تراویح کا سنت سے ثبوت

کیا بیس رکعت تراویح احادیث سے ثابت ہے؟

تراویح بیس رکعت ہے اور سنتِ مؤکدہ ہے

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100506

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں