بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیس رکعت تراویح کا سنت سے ثبوت


سوال

کیا فرماتے  ہیں مفتیانِ کرام کہ تراویح  کی نماز کب سے شروع ہوئی؟ کیا حضور اقدسﷺ کے زمانے  میں بھی تھی یا نہیں ؟اگر تھی  تو کتنی رکعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہے ؟مدلل جواب دے کر راہ نمائی فرمائیں !

جواب

"صحیح بخاری "  میں حضرت  زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک میں ایک الگ جگہ بنائی ، وہ چٹائی کا ایک چھپر تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہاں کئی راتیں نماز  پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ کی اقتدا میں نماز  پڑھی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھائی اور آپ کی اقتدا میں لوگوں نے بھی نماز پڑھنا شروع کردی، اگلی دن لوگوں زیادہ ہوگئے، تیسرے دن لوگ جمع ہوئے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم باہر نہ  نکلے ، جب صبح ہوئی  تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے وہ دیکھا جو تم لوگوں نے کیا،  مجھے تم لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ بات رکاوٹ تھی کہ یہ نماز تم پر فرض کر دی جائے گی، یہ رمضان کا واقعہ تھا۔

مصنف  ابن ابی شیبہ ، معجم طبرانی   اور بیہقی  میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے  روایت  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں وتر کے علاوہ  بیس  رکعات  پڑھتے تھے۔

ان روایات  سے معلوم ہوا کہ باجماعت تراویح کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم  سے ثابت ہے، البتہ فرضیت کے اندیشہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمداً مداومت نہیں فرمائی۔

عہدِ صحابہ میں جب یہ اندیشہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو  ایک  امام پر  اکھٹا کرکے  باجماعت تراویح کا فیصلہ کیا، چناں چہ ''موطا امام مالک'' میں ہے کہ  عبد الرحمن بن عبد القاری فرماتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کے مہینے میں  حضرت  عمر رضی اللہ عنہ  کے  ساتھ مسجد  کی جانب نکلا، دیکھا کہ لوگ مختلف جماعتوں میں بنٹے ہوئے ہیں، کچھ  اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ  کے  ساتھ  ایک چھوٹی جماعت شریک ہے، یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہو کر نماز پڑھیں تو زیادہ مناسب ہوگا، پھر آپ نے اس کا پختہ ارادہ فرمایا اور سب کو حضرت ابی بن کعب پر جمع فرمایا ، جب اگلی رات مسجد کی جانب نکلے تو لوگ اپنے قاری یعنی حضرت ابی بن کعب کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو وہ اس سے بہتر جو تم قائم کرتے ہو، یعنی رات کے آخری پہر کی نماز، اور لوگ اس وقت رات کے ابتدائی حصے  میں یہ قیام کیا کرتے تھے۔

نیز رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعت تراویح  ادا فرمانا ثابت ہے،  نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین روز  تراویح  کی باقاعدہ امامت بھی فرمائی تھی، لیکن صحابہ کے شوق اور جذبہ کو دیکھتے ہوئے تیسرے یا چوتھے روز امامت کے لیے تشریف نہ لائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے مبارک کے باہر انتظار کرتے رہے اور اس خیال سے کہ نبی اکرم صلی علیہ وسلم سو نہ گئے ہوں بعض صحابہ کھنکارنے لگے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردی جائیں؛ اگر فرض کردی گئیں تو تم ادا نہیں کرسکو گے؛ لہذا اے لوگو!  اپنے گھروں میں ادا کرو۔ (متفق علیہ)  جب کہ آپ علیہ السلام کا ماہِ رمضان میں بذاتِ خود جماعت کے بغیر  بیس رکعت تراویح اور وتر ادا کرنے کا معمول تھا، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے:

’’عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كان النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة و الوتر‘‘.

( كتاب الصلاة، باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان، ٢ ٤٩٦، ط: اداره تالیفات اشرفیه)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

’’عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر‘‘.

(كتاب صلاة التطوع و الإمامة وأبواب متفرقة، كم يصلي في رمضان ركعة ٢/ ٢٨٦، ط: طیب اکیدمي ) (المعجم الأوسط للطبراني، رقم الحديث: ٧٨٩، (١/ ٢٣٣) و رقم الحديث: ٥٤٤٠، (٤/ ١٢٦) ط: دار الفكر)

بیس رکعت تراویح ادا کرنا صحابہ کرام کا بھی معمول تھا، یہی  وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت بیس رکعت تراویح کا اہتمام مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  میں کروایا تو ان پر نہ کسی نے نکیر کی اور نہ ہی کسی نے مخالفت کی، بلکہ تمام صحابہ کرام نے باجماعت تراویح کے اہتمام پر اتفاق کیا، چنانچہ ''موطا امام مالک'' میں یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں رمضان میں وتر کے ساتھ تیئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔  اور صحابہ کرام کے اجماع سے لے کر آج تک تمام فقہاءِ کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع بھی اسی پر  ہے، اور تمام فقہاء کے نزدیک تراویح بیس رکعات سنت ہے، اور بلاعذر اس کاتارک گناہ گار ہے، اور بیس رکعت تراویح کا انکارنصوصِِ شرعیہ سے ناواقفیت، جمہور فقہا ءِ کرام کی مخالفت اور گم راہی ہے۔

مرقاةاالمفاتیح میں ہے:

’’لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً‘‘.

(كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ٣/ ٣٨٢، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

’’التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين‘‘.

(كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، ٢/ ٤٣، ط: سعيد)

مؤطا امام مالک میں ہے:

''حَدَّثَنِي مَالِك عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ أَنَّهُ قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَإِذَا النَّاسُ أَوْزَاعٌ مُتَفَرِّقُونَ، يُصَلِّي الرَّجُلُ لِنَفْسِهِ، وَيُصَلِّي الرَّجُلُ فَيُصَلِّي بِصَلَاتِهِ الرَّهْطُ، فَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَانِي لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلَاءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ لَكَانَ أَمْثَلَ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُ لَيْلَةً أُخْرَى وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ قَارِئِهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ: نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ هَذِهِ، وَالَّتِي تَنَامُونَ عَنْهَا أَفْضَلُ مِنْ الَّتِي تَقُومُونَ يَعْنِي آخِرَ اللَّيْلِ وَكَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ أَوَّلَهُ''.

(موطأ مالك (2/ 158), باب :377 - مَا جَاءَ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ, الناشر: مؤسسة زايد بن سلطان آل نهيان للأعمال الخيرية والإنسانية - أبو ظبي - الإمارات)

ایضاً:

'' و حَدَّثَنِي عَنْ مَالِك عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَانِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي رَمَضَانَ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً''.

(موطأ مالك (2/ 159، اقتباس بالا)

شرح طیبی میں ہے:

'' عن زيد بن ثابت: أن النبي صلى الله عليه وسلم اتخذ حجرة في المسجد من حصير فصلي فيها ليالي، حتى اجتمع عليه ناس. ثم فقدوا صوته ليلةً، وظنوا أنه قد نام، فجعل بعضهم يتنحنح ليخرج إليهم. فقال: ((مازال بكم الذي رأيت من صنيعكم،حتى خشيت أنيكتب عليكم، ولو كتب عليكم ما قمتم به، فصلوا أيها الناس في بيوتكم، فإن أفضل صلاة المرء في بيته إلا الصلاة المكتوبة))۔ متفق عليه''.

(شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (4/ 1233), (37) باب قيام شهر رمضان , الفصل الأول, الناشر: مكتبة نزار مصطفى الباز (مكة المكرمة - الرياض)

نصب الرایہ میں ہے:

'' عن عروة بن الزبير عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في المسجد، فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة، فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبح، قال: قد رأيت الذي صنعتم، فلم يمنعني من الخروج إليكم، إلا أني خشيت أن تفرض عليكم، وذلك في رمضان، انتهى. وفي لفظ لهما: ولكن خشيت أن تفرض عليكم صلاة الليل، وذلك في رمضان، وزاد البخاري فيه في "كتاب الصيام": فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، والأمر على ذلك، انتهى. ۔۔۔۔ وعن ابن شهاب عن عروة بن الزبير عن عبد الرحمن بن عبد القارئ، أنه قال: خرجت مع عمر بن الخطاب ليلة في رمضان إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون، يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل، فيصلي بصلاته الرهط، فقال عمر: إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل، ثم عزم، فجمعهم على أبي بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى، والناس يصلون بصلاة قارئهم، فقال عمر: "نعمت البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل عن التي يقومون"، يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله، انتهى. وهذا يدل على أنها تركت إلى زمان عمر، دليل أن عمر جمع الناس على أبي بن كعب، والله أعلم، رواه البخاري أيضاً، وعن أبي ذر نحوه، رواه أصحاب السنن، وحسنه الترمذي، وصححه، وعن النعمان بن بشير نحوه، رواه النسائي، قال النووي في "الخلاصة": بإسناد حسن.

أحاديث العشرين ركعةً: روى ابن أبي شيبة في "مصنفه". والطبراني في "معجمه"، وعنه البيهقي من حديث إبراهيم بن عثمان أبي شيبة عن الحكم عن مقسم عن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي في رمضان عشرين ركعةً، سوى الوتر، انتهى. ورواه الفقيه أبو الفتح سليم بن أيوب الرازي في "كتاب الترغيب"، فقال: ويوتر بثلاث، وهو معلول، بأبي شيبة إبراهيم بن عثمان، جد الإمام أبي بكر بن أبي شيبة، وهو متفق على ضعفه، ولينه ابن عدي في "الكامل" ۔۔۔ حديث آخر: موقوف، رواه البيهقي في "المعرفة" أخبرنا أبو طاهر الفقيه ثنا أبو عثمان البصري ثنا أبو أحمد محمد بن عبد الوهاب ثنا خالد بن مخلد ثنا محمد بن جعفر حدثني يزيد بن خصيفة عن السائب بن يزيد، قال: كنا نقوم في زمن عمر بن الخطاب بعشرين ركعةً والوتر، انتهى. قال النووي في "الخلاصة": إسناده صحيح، وكأنه ذكره من جهة السنن لا من جهة المعرفة، فإنه ذكره بزيادة.

حديث آخر: رواه مالك في "الموطأ" عن يزيد بن رومان، قال: كان الناس يقومون في زمان عمر بن الخطاب في رمضان بثلاث وعشرين ركعةً۔ انتهى. ومن طريق مالك، رواه البيهقي في "المعرفة" بسنده ومتنه، وفي رواية في "الموطأ": بإحدى عشرة ركعةً، قال البيهقي: ويجمع بين الروايتين: بأنهم قاموا بإحدى عشرة، ثم قاموا العشرين، وأوتروا بثلاث، قال: ويزيد بن رومان لم يدرك عمر، انتهى''.

(نصب الراية (2/ 152), بَابُ النَّوَافِلِ, الناشر: مؤسسة الريان للطباعة والنشر - بيروت -لبنان/ دار القبلة للثقافة الإسلامية- جدة - السعودية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200411

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں