بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بغیر ولی کے نکاح کا حکم


سوال

لڑکی خود نکاح کرلے بغیر ولی کے اس کا حکم کیا ہے؟  باقی ائمہ کے نزدیک نکاح نہیں ہوتا ہے، احناف کے دلائل بھی بتائیں!

جواب

اگر عاقلہ بالغہ  لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر اپنا نکاح خود کرے تو شرعاً ایسا نکاح منعقد ہوجاتا ہے،  اگرچہ والدین کی رضامندی کے بغیر نکاح کرنا شرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ہے،  اگر لڑکی نے  ولی کی اجازت کے بغیر   غیر کفو میں نکاح کیا   تو   اولاد ہونے سے پہلے پہلے لڑکی کے اولیاء کو  عدالت سے  رجوع کرکے اس نکاح کو فسخ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، اور اگر کفو میں نکاح کیا ہے توپھر لڑکی کے اولیاء   کو وہ نکاح  فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا ،  اور کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین، دیانت، مال ونسب، پیشہ اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو، نیز کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے، لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔

قرآن کریم کی آیت کریمہ بھی اسی جانب اشارہ کرتی ہے کہ عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی رضاسے ہونا چاہیے، اور عاقلہ بالغہ عورت اگر مناسب جگہ اپنی رضا سے نکاح کرتی ہے تو اولیاء بلاکسی شرعی سبب کے اسے روکنے کا اختیار نہیں رکھتے ،چنانچہ سورہ بقرہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

{وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَاَطْهَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ} [البقرة: 232]

ترجمہ :" اور جب طلاق دی تم نے عورتوں کو پھر پورا کر چکیں اپنی عدت کو تو اب نہ روکو ان کو اس سے کہ نکاح کرلیں اپنے ان ہی خاوندوں سے جب کہ راضی ہو جاویں آپس میں موافق دستور کے، یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو کہ تم میں سے ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر، اس میں تمہارے واسطے بڑی ستھرائی ہے اور بہت پاکیزگی، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔"۔

اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

"مطلقہ عورتوں کو اپنی مرضی کی شادی کرنے سے بلاوجہ شرعی روکنا حرام ہے:

دوسری آیت میں اس ناروا ظالمانہ سلوک کا انسداد کیا گیا ہے جو عام طور پر مطلقہ عورتوں کے ساتھ کیا جاتا ہے  کہ ان کو دوسری شادی کرنے سے روکا جاتا ہے، پہلا شوہر بھی عموماً اپنی مطلقہ بیوی کو دوسرے شخص کے نکاح میں جانے سے روکتا اور اس کو اپنی عزت کے خلاف سمجھتا ہے اور بعض خاندانوں میں لڑکی کے اولیاء بھی اس کو دوسری شادی کرنے سے روکتے ہیں اور ان میں بعض اس طمع میں روکتے ہیں کہ اس کی شادی پر ہم کوئی رقم اپنے لیے حاصل کرلیں، بعض اوقات مطلقہ عورت پھر اپنے سابق شوہر سے نکاح پر راضی ہوجاتی ہے مگر عورت کے اولیاء واقرباء کو طلاق دینے کی وجہ سے ایک قسم کی عداوت اس سے ہوجاتی ہے، وہ اب دونوں کے راضی ہونے کے بعد بھی ان کے باہمی نکاح سے مانع ہوتے ہیں، آزاد عورتوں کو اپنی مرضی کی شادی سے بلاعذر شرعی روکنا خواہ پہلے شوہر کی طرف سے ہو یا لڑکی کے اولیاء کی طرف سے بڑا ظلم ہے، اس ظلم کا انسداد اس آیت میں فرمایا گیا ہے ... اس آیت کے خطاب میں وہ شوہر بھی داخل ہیں جنہوں نے طلاق دی ہے اور لڑکی کے اولیاء بھی، دونوں کو یہ حکم دیا گیا کہ {فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ} یعنی مت روکو مطلقہ عورتوں کو اس بات سے کہ وہ اپنے تجویز کیے ہوئے شوہروں سے نکاح کریں خواہ پہلے ہی شوہر ہوں جنہوں نے طلاق دی تھی یا دوسرے لوگ، مگر اس کے ساتھ یہ شرط لگا دی گئی {اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ} یعنی جب دونوں مرد وعورت شرعی قاعدہ کے مطابق رضامند ہوجائیں تو نکاح سے نہ روکو جس میں اشارہ فرمایا گیا کہ اگر ان دونوں کی رضامندی نہ ہو کوئی کسی پر زور زبردستی کرنا چاہے تو سب کو روکنے کا حق ہے، یا رضامندی بھی ہو مگر شرعی قاعدہ کے موافق نہ مثلاً بلا نکاح آپس میں میاں بیوی کی طرح رہنے پر رضامند ہوجائیں یا تین طلاقوں کے بعد ناجائز طور پر آپس میں نکاح کرلیں یا ایام عدت میں دوسرے شوہر سے نکاح کا ارادہ ہو تو ہر مسلمان کو بالخصوص ان لوگوں کو جن کا ان مرد وعورت کے ساتھ تعلق ہے روکنے کا حق حاصل ہے، بلکہ بقدرِ استطاعت روکنا واجب ہے۔

اسی طرح کوئی لڑکی بلا اجازت اپنے اولیاء کے اپنے کفو کے خلاف دوسرے کفو میں نکاح کرنا چاہے یا اپنے مہر مثل سے کم پر نکاح کرنا چاہے جس کا اثر خاندان پر پڑتا ہے جس کا اس کو حق نہیں تو یہ رضا مندی بھی قاعدہ شرعی کے مطابق نہیں، اس صورت میں لڑکی کے اولیاء کو اس نکاح سے روکنے کا حق حاصل ہے {اِذَا تَرَاضَوْا} کے الفاظ سے اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ عاقلہ بالغہ لڑکی بغیر اس کی رضا اجازت کے نہیں ہوسکتا"۔(معارف القرآن 1/575.576مکتبہ معارف القرآن )

نیزاحناف کا مستدل اس باب میں وہ احادیثِ مبارکہ  بھی ہیں جن میں نبی کریم ﷺنے عورت کے عاقلہ بالغہ ہونے کی صورت میں ا س کے  اولیاء کو عورت سے اس کی رائے اور رضامندی معلوم کرنے کا حکم دیاہے، نیز ان ہی روایات سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ ولی اور سرپرست عاقلہ بالغہ کی مرضی کے خلاف جبر واکراہ کرکے کسی سے اس کا نکاح منعقد نہیں کرسکتے ۔ احناف کے حدیثی مستدلات میں سے دوروایات ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں :

(1)"الثيب أحق بنفسها من وليّها، والبكر يستأذنها أبوها في نفسها وإذنها صماتها". (رواه مسلم عن ابن عباس رضي الله عنهما)

ترجمہ:شادی شدہ عورت اپنے نفس کی اپنے ولی سے زیادہ حق دار ہے اور باکرہ نوجوان عورت سے اس کے نفس کے بارے میں اس کا باپ اجازت طلب کرے گا اور اس کا خاموش رہنا اس کی طرف سے اجازت ہے ۔

(2) عن أبي سلمة أن أبا هريرة حدّثهم أنّ النبيّ صلى الله عليه وسلم قال : لاتنكح الأيم حتى تستأمر، ولاتنكح البكر حتى تستأذن، قالوا: يا رسول الله وكيف إذنها؟ قال: أن تسكت". (صحیح البخاري)

ترجمہ: شوہر دیدہ  عورت (خواہ شوہر کا انتقال ہوگیا ہو یا اس نے طلاق دے دی ہو)کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے، اور نہ باکرہ کا بغیر اس کی اجازت کے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! باکرہ کی اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے؟ فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے۔

علامہ نواب قطب الدین خان دہلویؒ ان احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
" عورت سے اس کے نکاح کی اجازت حاصل کرنے کے سلسلے میں حدیث نے باکرہ کنواری اور ثیب بیوہ کا ذکر اس فرق کے ساتھ کیا ہے کہ ثیب کے بارے میں تو یہ فرمایا گیا کہ جب تک اس کا حکم حاصل نہ کر لیا جائے اور باکرہ کے بارے میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے؛ لہذا حکم اور اجازت کا یہ فرق اس لیے ظاہر کیا گیا ہے کہ ثیب یعنی بیوہ عورت اپنے نکاح کے سلسلہ میں زیادہ شرم و حیاء نہیں کرتی، بلکہ وہ خود کھلے الفاظ میں اپنے نکاح کا حکم کرتی ہے یا کم سے کم صریح اشارات کے ذریعہ اپنی خواہش کا ازخود اظہار کر دیتی ہے اور اس بارے میں کوئی خاص جھجک نہیں ہوتی، اس کے برخلاف باکرہ یعنی کنواری عورت چوں کہ بہت زیادہ شرم و حیاء کرتی ہے؛ اس لیے وہ نہ تو کھلے الفاظ میں اپنے نکاح کا حکم کرتی ہے اور نہ صریح اشارات کے ذریعہ ہی اپنی خواہش کا اظہار کرتی ہے، ہاں جب اس کے نکاح کی اجازت اس سے لی جائے تو وہ اپنی رضا مندی و اجازت دیتی ہے، بلکہ زیادہ تر تو یہ ہوتا ہے کہ طلبِ اجازت کے وقت وہ زبان سے اجازت دینا بھی شرم کے خلاف سمجھتی ہے اور اپنی خاموشی و سکوت کے ذریعہ ہی اپنی رضا مندی کا اظہار کر دیتی ہے۔

اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کے حکم یا اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ہوتا، لیکن فقہاء کے یہاں اس بارے میں تفصیل ہے اور وہ یہ کہ تمام عورتوں کی چار قسمیں ہیں:

اول ثیب بالغہ، یعنی وہ بیوہ عورت جو بالغ ہو، ایسی عورت کے بارے متفقہ طور پر تمام علماء کا قول یہ ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کرنا جائز نہیں ہے، بشرطیکہ وہ عاقلہ ہو یعنی دیوانی نہ ہو، اگر عاقلہ نہ ہو گی تو ولی کی اجازت سے اس کا نکاح ہو جائے گا۔

دوم باکرہ صغیرہ، یعنی وہ کنواری لڑکی جو نابالغ ہو ، اس کے بارے میں بھی تمام علماء کا متفقہ طور پر یہ قول ہے کہ اس کے نکاح کے لیے اس کی اجازت کی ضرورت نہیں، بلکہ اس کا ولی اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح کر سکتا ہے۔

سوم ثیب صغیرہ، یعنی وہ بیوہ جو بالغ نہ ہو اس کے بارے میں حنفی علماء کا تو یہ قول ہے کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر ہو سکتا ہے، لیکن شافعی علماء کہتے ہیں کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے۔

چہارم باکرہ بالغہ، یعنی وہ کنواری جو بالغہ ہو ، اس کے بارے میں حنفی علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر جائز نہیں، لیکن شافعی علماء کے نزدیک جائز ہے۔

گویا تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ حنفی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار صغر پر ہے، یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کر دینے کا حق اسی صورت میں حاصل ہو گا جب کہ وہ کم سن یعنی نابالغ ہو، خواہ وہ باکرہ کنواری ہو یا ثیب بیوہ ہو، جب کہ شافعی علماء کے نزدیک ولایت کا مدار بکارت پر ہے، یعنی ان کے نزدیک ولی کو عورت کی اجازت کے بغیر نکاح کر دینے کا حق اس صورت میں حاصل ہوگا جب کہ وہ باکرہ ہو خواہ بالغ ہو یا نابالغ ہو ۔ لہذا یہ حدیث حنفیہ کے نزدیک بالغہ پر محمول ہے، خواہ وہ ثیب ہو یا باکرہ ہو، اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشادِ گرامی حدیث: "ولاتنکح البکر حتی تستأذن"  (کنواری عورت کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کر لی جائے) شوافع کے قول کے خلاف ایک واضح دلیل ہے"۔

باقی وہ روایات جو حضرات شوافع کا مستدل ہیں، جن میں نبی کریم ﷺنے نکاح کو ولی کی اجازت پر موقوف قرار دیا ہے، یا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیا ہے، احناف کے نزدیک ان روایا ت کا تعلق یا تو نابالغہ اور غیر عاقلہ سے ہے، یعنی کم سن لڑکی اور جنون میں مبتلا دیوانی عورت کا نکاح اس کے ولی کی اجازت کے بغیر نہیں ہوتا۔اور اگر ان روایات کو ان کے ظاہری الفاظ کے ساتھ عموم پر محمول کریں تو اس صورت میں  امام ابوحنیفہ ؒکے ہاں ان روایات میں کمال کی نفی کی گئی ہے، یعنی یہ روایات  نفیِ کمال پر محمول ہیں کہ اصل نکاح منعقد ہوجائے گا، لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ عورت ولی کی اجازت سے اپنا نکاح کرے۔

نیز محدثین نے اِن روایات پر جن میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو باطل قرار دیاگیا ہے،  فنی اعتبار سے بھی کلام کیاہے۔اور ان کی حیثیت یہ لکھی ہے کہ یہ روایات  اس درجہ کی نہیں ہیں کہ انہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے موقف کے مقابلے میں بطور دلیل اختیار کیا جا سکے۔ جیساکہ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں تفصیل موجود ہے۔

فقہی عبارات درج ذیل ہیں :

فتاوی شامی میں ہے:

"(فنفذ نكاح حرة مكلفة  بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا". (3/ 55، کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". (2/ 247،کتاب النکاح، فصل: ولایة الندب والاستحباب في النکاح، ط: سعید )

(فتاوی عالمگیری، ۱/۲۹۲، کتاب النکاح، الباب الخامس في الأکفاء في النکاح، ط: رشیدیة)

فتح القدیرمیں ہے:

"لأن انتظام المصالح بين المتكافئين عادة، لأن الشريفة تأبى أن تكون مستفرشةً للخسيس، فلا بد من اعتبارها، بخلاف جانبها؛ لأن الزوج مستفرش فلا تغيظه دناءة الفراش". (3/ 293، کتاب النکاح، باب الأولیاء والأکفاء، فصل في الکفاءة، ط: دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ثم المرأة إذا زوجت نفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى -، وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخراً، وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخراً أيضاً، حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك، ولكن للأولياء حق الاعتراض ... وفي البزازية: ذكر برهان الأئمة أن الفتوى في جواز النكاح بكراً كانت أو ثيباً على قول الإمام الأعظم، وهذا إذا كان لها ولي، فإن لم يكن صح النكاح اتفاقاً، كذا في النهر الفائق. ولايكون التفريق بذلك إلا عند القاضي أما بدون فسخ القاضي فلاينفسخ النكاح بينهما". (1/ 292، کتاب النکاح، الباب الخامس في الأکفاء فی النکاح، ط: رشیدیة)

متعلقہ مسئلہ کی مزید  تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

عاقلہ بالغہ کے ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح منعقد یا نہ ہونے میں مفتی بہ قول

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144107201007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں