بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو ملنے والے تحائف کا حکم


سوال

بچوں کو پیدائش پر اور اس کے بعد  وقتاً فوقتاً تحفتاً پیسے   ملتے رہتے ہیں، کیا ان پیسوں سے والدین بچوں  کی ضرورت کی چیزیں خرید  سکتے ہیں وہ جو  والدین کی ذمہ داری ہے؟  اور ان پیسوں پر والدین کا کتنا حق ہے؟

جواب

بچوں کو   ملنے والے تحفہ تحائف پر  بچوں کی ملکیت ہوتی ہے،  جسے والدین   اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتے ،   بچوں  کی ضروریات میں خرچ کرنا لازم  ہوتا ہے،  لہذا صورتِ مسئولہ میں اس رقم سے بچوں کی ضروریات، دودھ ، و غذائی اشیاء خریدی جا سکتی ہیں، اس لیے کہ اگر نابالغ بچے  کی ملکیت میں مال موجود ہو تو اس کا نفقہ  شرعًا والد پر واجب نہیں ہوتا، بلکہ اسی کے مال سے ادا کرنے کا حکم ہے، البتہ اگر بچہ  کی ملکیت میں کچھ بھی نہ ہو تو اس کا نفقہ والد پر شرعًا لازم ہوتا ہے۔

امداد الفتاوی میں ہے:

"بچوں کو جو عطیات  دیے جاتے ہیں ان کا حکم

سوال (۲۱۲۱) : قدیم ۳/ ۴۸۰- نابالغ بچوں کو ان کے نانا یا دادا کچھ عطا کریں تو اس عطا کو بچوں کے ماں باپ ان بچوں پر کس طرح سے صرف کریں ؟  اگر روٹی کپڑے میں صرف کیا جائے تویہ ماں باپ کے ذمّہ ہے، تاوقتیکہ بالغ ہوں ، تو اس عطا کو امانۃً جمع کریں بلوغ ’’تک ، یا شیرینی وبالائی میں خرچ کر دیویں ، کیا صورت کریں ؟

الجواب: 

في الدرالمختار: "و لطفله الفقیر الحرّ؛ لأنّ نفقة المملوك على ملكه و الغني في ماله الحاضر."

اس روایت سے معلوم ہوا کہ جو نابالغ مالک کسی مال کا ہوا ول نفقہ اسی مال میں ہوگا۔ مال کے ہوتے ہوئے باپ پر واجب نہ ہوگا، پس صورتِ مذکورہ میں یہ عطیات اس نابالغ کے ضروری نفقات میں صرف کردیے جائیں ۔  ۲۷؍ ربیع الاول ۱۳۲۵؁ ھ (امداد، ج۲، ص۸۰)

( امداد الفتاوی جدید،  کتاب الہبہ، ٨ / ٦١ - ٦٢، ط: زکریا بک ڈپو سہارنپور)

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب: للصغير و المكتسب نفقة في كسبه لا على أبيه."

(باب النفقة، ٣ / ٦١٢، ط: دار الفكر)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر میں ہے:

"فصل (و نفقة الطفل) الحرّ (الفقير) و كذا السكنى و الكسوة تجب (على أبيه) بالإجماع سواء كان الأب موسرًا أو معسرًا لكن على المعسرة تفرض عليه بقدر الكفاية و على الموسر بقدر ما يراه الحاكم و إن كان الأب عاجزًا يتكفف و ينفق و قيل:نفقته في بيت المال و إن كان قادرًا على الكسب اكتسب، و إن امتنع عنه حبس كما في الفتح و لايحبس والد وإن علا في دين ولده وإن سفل إلا في النفقة قيد بالطفل؛ لأن البالغ لايجب نفقته على أبيه إلا بشروط كما سيأتي وقيد بالفقير؛ لأنه ينفق على الغني من ماله فإن أنفق الأب من ماله رجع على ماله بشرط الإشهاد وقيدنا بالحر؛ لأن الوالد المملوك نفقته على مالكه لا على أبيه."

(باب النفقة، فصل نفقة الطفل الفقير، ١ / ٤٩٦ - ٤٩٧، ط: دار إحياء التراث العربي)

مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:

نابالغ بچوں کو ملنے والے تحائف کا حکم

پیدائش کے وقت بچوں کو ملنے والے تحفہ تحائف کا حکم/ نومولود بچی کا ترکہ

کیا ماں اپنے نا بالغ یتیم بچوں کا مال کاروبار میں لگا سکتی ہے؟

بچے کی پیدائش پر رشتے داروں کے تحائف کا حکم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں