بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچوں کو ملنے والے تحائف کا حکم


سوال

1. نا بالغ بچے کو تحفے میں ملی ہوئی چیزوں (کھلونے، کپڑے) کو کیا کوئی دوسرا بچہ (اس کے اپنے بہن بھائی یا کوئی اور بچہ) استعمال کر سکتا ہے؟ نیز نہیں کر سکتا تو والدین ان چیزوں کا کیا کریں؟ 2- نا بالغ بچے کو ملی ہوئی رقم سے خریدی ہوئی چیز (الماری، کپڑے، کھلونے) کوئی دوسرا استعمال کر سکتا ہے؟ 3- نا بالغ بچوّں کی ملکیت کی اشیاء پر والدین کا کتنا حق (اختیار) ہے؟ 4- بچوں کو کسی نے پرانے کپڑے یا چیزیں دی ہوں، ان کو استعمال سے پہلے یا بعد کسی دوسرے کو دینا صحیح ہے یا نہیں؟ 5- کیا بچوں کے مال سے خریدی گئی چیز ان سے خرید کر اپنی ملکیت بنا کر دوسرے بچوں کے استعمال میں لا سکتے ہیں یا بیچ سکتے ہیں ؟ 6- اگر بچوں کی ملکیت کی کوئی شے ہم آگے دے چکے ہوں تو اب اس کا کیا کریں ؟ 7- بچوں کو تحفے میں ملی کھانے پینے کی اشیاء کیا انہی کو کھلانا ضروری ہے؟ کیا والدین اس میں سے کچھ اپنے استعمال میں لا سکتے ہیں یا احتیاط کی غرض سے بچوں کواستعمال سے منع کرسکتے ہیں ؟

جواب

بچوں کو ان کے بچپن میں جو تحفے تحائف دیے جاتے ہیں، ان کی مختلف صورتیں ہیں:

1۔ اگر وہ ایسی چیزیں ہیں  جو بچوں کے استعمال کی ہیں  یا  ان کی ضرورت کے موافق ہیں تو ایسی چیزیں ان بچوں ہی کی ملکیت ہوں گی،  والدین کے لیے ان چیزوں میں تصرف  کرنا یا وہ چیزیں کسی اور کو دینا جائز نہیں ہوگا۔

2۔ اور اس کے علاوہ اگر کوئی اور چیزیں ہوں  تو اس میں عرف ورواج کا اعتبار ہوگا، اگر عرف یہ ہے کہ  یہ تحفے تحائف ماں باپ کو دینا مقصودہوتے ہیں ،صرف  ظاہراً  بچوں کے ہاتھ میں دیے جاتے ہوں ، جیسا کہ عام طورپر عقیقہ وغیرہ کی تقریب میں ہوتا ہے تو ان چیزوں کے مالک والدین ہی ہوں گے،وہ اس میں جو چاہیں تصرف کرسکیں گے، پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ  اگر وہ چیزیں  والدہ کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو والدہ ان کی مالک ہے، اور اگروالد کے رشتہ داروں نے دی ہیں تو  اس کا مالک والد ہے۔

3۔ اگر عرف یہ ہے کہ اس طرح کی تقریبات میں وہ چیزیں بچے ہی کو دی جاتی ہیں  تو پھر اس کا مالک بچہ ہی ہوگا۔

4۔ اگر  کسی موقع پر  ہدیہ دینے والے صراحت کردیں  یہ بچے کے لیے یا اس کی والدہ یا والد کے لیے ہے   تو جس کی صراحت کریں گے وہی اس کا مالک ہوگا۔

   مذکورہ تفصیل کے بعد سوالات کے جوابات  ترتیب وار درج ذیل ہیں:

۱،۲،۳،۴۔ نا بالغ بچے کو تحفے میں ملی ہوئی چیزوں (کھلونے، کپڑے وغیرہ) اور اسی طرح نا بالغ بچے کو ہدیہ میں ملی ہوئی رقم سے خریدی ہوئی چیز (الماری، کپڑے، کھلونے وغیرہ) کو کوئی دوسرا بچہ (اس کے اپنے بہن بھائی یا کوئی اور بچہ) استعمال نہیں کر سکتا ہے، کیوں کہ یہ کپڑے بچے کی ملکیت ہوں گے اور جو کپڑے بچے کے ملکیتی ہوں تو  والدین کے لیے وہ کپڑے کسی اور کو دینا جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر کپڑے والدین نے بچوں کو بناکر دیے ہوں یا جوتے وغیرہ والدین نے لیے ہوں اور والدین  نے ان کو مالک نہیں بنایا، بلکہ دیتے ہوئے بطورِ استعمال دینے کی نیت ہو، یعنی ابھی یہ بچہ استعمال کرے گا، اور چھوٹے ہونے پر اس کے چھوٹے بہن بھائی استعمال کریں گے، تو دوسرے بہن بھائیوں یا کسی اور بچے کو یہ کپڑے یا جوتے وغیرہ دیے جاسکتے ہیں،  اور اگر  کسی اور نے  وہ کپڑے بچے  کو تحفے میں دیے ہیں  اور موسم کے ناموافق  ہونے یا کسی اور  وجہ سے بچے کے استعمال میں نہیں آسکے اور  نہ وہ کپڑے بعد میں بچے کے کام آسکتے ہیں تو ایسی صورت میں والدین یہ کپڑے کسی اور کو  دے دیں  اور بعد میں اس کے عوض بچوں کو ان کے مناسب کوئی کپڑا بنا کردے دیں۔

۵۔ جی ہاں ! نابالغ  بچوں کے مال سے خریدی گئی چیز ان سے خرید کر اپنی ملکیت بنا نے کے بعد دوسرے بچوں کے استعمال میں لا نا یا  بیچ دینا درست ہے۔

۶۔ اگر  بچوں کی ملکیت کی کوئی چیز آپ آگے دے چکے ہوں تو اس کے عوض اور بدلہ میں ان بچوں کو  اسی چیز کی قیمت کے برابر کوئی دوسری چیز خرید کر دے دیں۔

۷۔ کھانے پینے کی کوئی چیز بچے کو کوئی ہدیہ دے یا بچہ اپنی رقم سے خریدے  تو اس کے والدین اور بھائیوں کو اس میں سے کھانے کی اجازت نہیں ہے،اگر اس چیز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو قیمت دے کر کھالے یا کسی اور کو دے دے، یا یہ صورت اختیار  کی جائےکہ ابھی اس چیز کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے  یا بچے کی یہ تربیت کرنے کے لیے کہ وہ تنہا  نہ کھائے، بلکہ سب کو کھلایا  بھی کرےتو اس کے ساتھ کھالے یا دوسرے بچوں کو ساتھ کھلادے، اور جب بعد میں  بچے کو کوئی چیز یا رقم دے تو اس میں  اس استعمال کردہ چیز کے عوض کی نیت کرلے تو اس سے بچے کی تربیت بھی ہوجائے گی اور نابالغ کے مال میں تصرف کا اشکال بھی نہیں ہوگا۔

اگر والدین اس چیز کو  بچے کے لیے نقصان دہ سمجھیں تو ان کو اس  کی اجازت ہے کہ وہ بچے کو وہ چیز استعمال کرنے یا کھانے   کے لیے نہ دیں ، اور اپنی طرف سے بعد میں کوئی چیز دیتے ہوئے اس کے بدل کی نیت کرلیں ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908201064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں