بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کی خواہش نہ ہونے کی وجہ عزل کرنا


سوال

 میرا دوست ہے، وہ مزید بچے نہیں چاہتا تو کیا منی خارج ہونے کے وقت سپاری نکال دے اور منی باہر خارج کر سکتا ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں نکاح  کے من جملہ اغراض ومقاصد میں سے  ایک اہم مقصد توالد وتناسل  ہے، اور  اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، لہذا  اس خطرہ کے پیش نظر  کہ بچے زیادہ ہوں گے تو ان کے معاش کا انتظام کیسے ہوگا، فیملی پلاننگ کرنا حرام ہے،اسی طرح کثرتِ آبادی کے خوف سے پیدائش کو محدود کرنا نظامِ خداوندی میں دخل اندازی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے جتنی جان دار مخلوق پیدا کی ہے سب کے لیے رزق کا وعدہ فرمایا ہے۔

ہاں اعذار کی بنا پر  یا بچوں کی تربیت اور نگہداشت کی غرض یا بیوی کی صحت کی رعایت کرتے ہوئے  بچوں کے درمیان   مناسب وقفہ کرنا جائز ہے اور اس کے لیے عارضی طور پر مانعِ حمل  کا ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے، لہذا بیوی کی رضامندی سوال میں ذکر کردہ طریقہ  اختیار کرسکتے ہیں۔ 

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَيُعْزَلُ عَنْ الْحُرَّةِ) وَكَذَا الْمُكَاتَبَةُ، نَهْرٌ بَحْثًا (بِإِذْنِهَا) لَكِنْ فِي الْخَانِيَّةِ: أَنَّهُ يُبَاحُ فِي زَمَانِنَا لِفَسَادِهِ قَالَ الْكَمَالُ: فَلْيُعْتَبَرْ عُذْرًا مُسْقِطًا لِإِذْنِهَا".

(الشامیة، كتاب النكاح، بَابُ نِكَاحِ الرَّقِيقِ، ٣ / ١٧٥ - ١٧٦)

فتاوی شامی میں ہے:

’’(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوي: إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فيعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها‘‘.

( باب نكاح الرقيق: مطلب في حكم العزل ٣/ ١٧٦، ط: سعيد)

 فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

عزل کا حکم


فتوی نمبر : 144204200948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں