بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ربیع الثانی 1446ھ 11 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عزل کا حکم


سوال

شریعتِ مطہرہ میں  "عزل"  کرنے کا کیا حکم ہے؟ جائز یا نا جائز  ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں نکاح  کے من جملہ اغراض ومقاصد میں سے  ایک اہم مقصد توالد وتناسل  ہے، اور  اولاد کی کثرت مطلوب اور محمود ہے، یہی وجہ ہے کہ حدیثِ مبارک میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، لہذا بلا عذر عزل کرنا ناپسندیدہ ہے،  البتہ اگر عذر ہو تو  (آزاد) بیوی کی اجازت سے عزل کرنا بلاکراہت جائز ہوگا، اور بعض حالات میں بیوی کی اجازت کے بغیر بھی اس کی گنجائش ہے۔

چند اعذار ذیل میں لکھے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں "عزل"  بلاکراہت جائز ہے:

1۔۔ عورت اتنی کمزور ہو  کہ حمل کا بوجھ   اٹھانے کی استطاعت نہ ہو، حمل اور درد زہ کی تکالیف جھیلنے کی سکت نہ ہو  یا بچہ کی ولادت کے بعد   شدید کمزوری اور نقاہت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو  "عزل" جائز ہے۔

2۔۔  دو بچوں کے درمیان اس غرض سے مناسب وقفہ کے لیے کہ بچے کو ماں کی صحیح نگہداشت مل سکے، اور دوسرے بچے کا حمل ٹھہرنے کی وجہ سے پہلے بچے کے لیے ماں کا دودھ مضر اور نقصان دہ نہ بنے۔

3۔۔ ۔ عورت بد اخلاق  اور سخت مزاج ہو اور خاوند اسے طلاق دینے کا ارادہ رکھتا ہواور اندیشہ ہو کہ بچہ کی ولادت کے بعد اس کی بداخلاقی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، ایسی صورت میں بلاکراہت عزل جائز ہے۔

4۔۔ اسی طرح طویل سفر میں ہو، یا دارالحرب  میں ہونے کی وجہ سے بچے کے جانی یا ایمانی نقصان کا اندیشہ ہوتو اس صورت میں بھی عزل جائز ہے۔

مذکورہ صورتوں میں عزل کرنے کا ایسا طریقہ اور تدبیر اختیار کرنا درست ہے کہ جس سے وقتی طور پر حمل روکا جاسکے ،اس طور پر کہ جب چاہیں دوبارہ توالد و تناسل کا سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہو۔ باقی آپریشن کرکے بچہ دانی  نکلوانا یا نس بندی کروانا یا کوئی ایسا طریقہ اپنانا جس سے توالد وتناسل   (بچہ پیدا کرنے) کی صلاحیت بالکل ختم ہوجائے ، شرعاً اس کی اجازت نہیں ہے۔

"عن عائشة عن جذامة بنت وهب أخت عکاشة، قالت: حضرت رسول الله ﷺ … ثم سألوه عن "العزل"؟ فقال رسول الله ﷺ: ذلک الوأد الخفي". وزاد عبید الله في حدیثه عن المقرئ: ﴿وَاِذَا الْمَوْؤدَةُ سُئِلَتْ﴾"  (صحیح مسلم، باب جواز الغیلۃ، وہی وطی المرضع وکراہۃ العزل، النسخۃ الہندیۃ ۱/۴۶۶،)

قال الملاعلي القاري:

"قیل: ذلک لا یدل علی حرمة العزل، بل علی کراهته". (مرقاۃ المصابیح، کتاب النکاح، باب المباشرۃ، الفصل الأول امدادیہ ملتان ۶/۲۳۸)

"(ويعزل عن الحرة) وكذا المكاتبة، نهر بحثاً، (بإذنها)، لكن في الخانية أنه يباح في زماننا؛ لفساده، قال الكمال: فليعتبر عذراً مسقطاً لإذنها، وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج، (وعن أمته بغير إذنها) بلا كراهة.
(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوى إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فليعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها. اهـ. فقد علم مما في الخانية أن منقول المذهب عدم الإباحة، وأن هذا تقييد من مشايخ المذهب؛ لتغير بعض الأحكام بتغير الزمان، وأقره في الفتح، وبه جزم القهستاني أيضاً حيث قال: وهذا إذا لم يخف على الولد السوء؛ لفساد الزمان، وإلا فيجوز بلا إذنها. اهـ. لكن قول الفتح: فليعتبر مثله إلخ يحتمل أن يريد بالمثل ذلك العذر، كقولهم: مثلك لا يبخل. ويحتمل أنه أراد إلحاق مثل هذا العذر به كأن يكون في سفر بعيد، أو في دار الحرب فخاف على الولد، أو كانت الزوجة سيئة الخلق ويريد فراقها فخاف أن تحبل، وكذا ما يأتي في إسقاط الحمل عن ابن وهبان، فافهم".
 (فتاوی شامی(3/ 175) ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202175

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں