بچی کا عقیقہ والد کرے یا شوہر؟
اگر مستحب اوقات (ساتویں دن، چودھویں دن، اکیسوے دن) میں عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو موت تک عقیقہ کر سکتے ہیں اور جس کا عقیقہ کیا جارہا ہو، اس کا خرچہ جس کے ذمہ ہو، اصولی طور پر وہی عقیقہ کا خرچہ اٹھائے گا؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں عقیقہ کا خرچہ شوہر پر ہوگا، البتہ اگر بچے کا نانا عقیقہ کرنا چاہے تو وہ بھی کرسکتا ہے، اور اس کے عقیقہ کرنے سے بھی استحباب حاصل ہوجائے گا، روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کا عقیقہ کیا۔
فتاوی رحیمیہ میں ہے :
جس کے ذمہ بچہ کا نفقہ واجب ہے، اسی کے ذمہ عقیقہ بھی ہے۔۔۔۔الخ
(ج۱۰ / ص۶۱)
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:
بچے کے عقیقے کے لیے باپ کا عقیقہ ہوا ہونا؟ / نانی نواسے کا عقیقہ کر سکتی ہے
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200573
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن