1-کیا یہ ضروری ہے کہ بچے کے عقیقہ کے لیے باپ کا عقیقہ ہوا ہو؟
2-اگر نانی بچے کا عقیقہ کرنا چاہے تو باپ کی اجازت ضروری ہے یا بس انہیں بتادیا جائے؟
1- بچے کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے،الںتہ باپ کے عقیقے کے ساتھ بچے کے عقیقے کا کوئی تعلق نہیں، لہذا اگر کسی نومولود بچے کے والد کا (ان کی پیدائش کے وقت) عقیقہ نہیں ہوسکا تھا تو اس کی بنا پر اس بچے کے عقیقے کی ادائیگی سے نہ رکا جائے۔
2- عقیقہ کا انتظام کرنے کے اصل ذمہ دار تو بچے کے والدین ہیں؛ لیکن اگر بچے کی نانی اس کا عقیقہ کردیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں، جیساکہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں (حضراتِ حسنین رضی اللہ عنہما) کی طرف سے خود عقیقہ فرمایا، جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نانا تھے۔
ہاں اگر بچے کے والدین اس پر راضی نہ ہوں، بلکہ خود ہی اپنے بچے کے عقیقے کا انتظام کرنا چاہتے ہوں تو وہ ہی اس کے حق دار ہیں۔
قال رسول اللّٰہ : من ولد له غلام فلیعق عنه عن الابل أو البقر أو الغنم۔
(اعلاء السنن ۱۷؍۱۲۸)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7 / 2690):
- وعن ابن عباس - رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «عق عن الحسن والحسين - رضي الله عنهما - كبشا كبشا» . رواه أبو داود، وعند النسائي: كبشين كبشين.
في ’’ إعلاء السنن ‘‘ :
عن عائشة - رضي اللّٰه عنها - قالت : ’’ عقّ رسول اللّٰه ﷺ عن الحسن والحسین یوم السّابع... الخ
(۱۷/۱۱۵ ، باب العقیقۃ ، تحت رقم :۵۵۱۳ ، ط : بیروت)
المستدرک میں ہے:
عن عطاء، عن أم كرز، وأبي كرز، قالا: نذرت امرأة من آل عبد الرحمن بن أبي بكر إن ولدت امرأة عبد الرحمن نحرنا جزوراً، فقالت عائشة رضي الله عنها: «لا بل السنة أفضل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة تقطع جدولاً، ولايكسر لها عظم فيأكل ويطعم ويتصدق، وليكن ذاك يوم السابع، فإن لم يكن ففي أربعة عشر، فإن لم يكن ففي إحدى وعشرين». هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه".
(المستدرك علی الصحیحین للحاکم(4/ 266) رقم الحدیث: 7595، کتاب الذبائح، ط: دار الكتب العلمية – بيروت)
رد المحتار على الدر المختار (6/ 336):
يستحب لمن ولد له ولد أن يسميه يوم أسبوعه، ويحلق رأسه، ويتصدق عند الأئمة الثلاثة بزنة شعره فضةً أو ذهباً، ثم يعق عند الحلق عقيقةً إباحةً على ما في الجامع المحبوبي أو تطوعاً على ما في شرح الطحاوي، وهي شاة تصلح للأضحية، تذبح للذكر والأنثى، سواء فرق لحمها نيئاً أو طبخه بحموضة أو بدونها.
المنتقى شرح الموطإ (3 / 101):
وَقَوْلُهُ «فَأَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ فَلْيَفْعَلْ» يَقْتَضِي أَنَّ ذَلِكَ فِي مَالِ الْأَبِ عَنْ ابْنِهِ وَلِذَلِكَ قَالَ: فَأَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ فَلْيَفْعَلْ وَلَوْ كَانَ لِلْمَوْلُودِ مَالٌ لَكَانَ الْأَظْهَرُ عِنْدِي أَنْ تَكُونَ الْعَقِيقَةُ فِي مَالِ الْأَبِ عَنْ ابْنِهِ لِقَوْلِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «فَأَحَبَّ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ ابْنِهِ» فَأَثْبَتَ ذَلِكَ فِي جِهَةِ الْآبَاءِ عَنْ الِابْنِ.
وَقَدْ قَالَ مَالِكٌ فِي الْمَبْسُوطِ: يُعَقُّ عَنْ الْيَتِيمِ مِنْ مَالِهِ وَظَاهِرُهُ أَنَّهُ لَا يَلْزَمُ أَحَدًا مِنْ الْأَقَارِبِ غَيْرَ الْأَبِ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144201200241
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن