بعض لوگ کہتے ہیں کہ مشترکہ گھر میں موجود غیر محرموں سے چہرہ کا پردہ لازمی نہیں ہے، بلکہ چہرہ ننگا رکھنے کی گنجائش ہے، لہذا چہرے کا پردہ نہ کیا جائے۔ نیز یہ بھی کہتے ہیں کہ چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کے علاوہ اعضاء کو ڈھانپ لو اِن غیر محارم کے سامنے تو کافی ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ اگر گنجائش ہے تو کس صورت حال میں؟
واضح رہے کہ غیر محرم (خواہ رشتہ دار ہو یا اجنبی) سے پردہ ایک شرعی حکم ہے،اور غیر محرم کے سامنے عورت پر چہرے کا پردہ لازم ہے،چاہےرہن سہن مشترکہ گھر میں ہو یا الگ الگ گھر میں ہو،قرآن و حدیث کی بہت سی نصوص سے چہرے کا پردہ ثابت ہے، بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عورت صرف ایک آنکھ کھلی رکھے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں جوائنٹ فیملی سسٹم میں بھی عورت پر نامحرم رشتہ داروں سے چہرہ کا پردہ کرنا لازم ہے،اور اِس مشترکہ خاندانی نظام میں جب غیر محرموں کا آمنا سامنا رہتا ہو تو عورت اپنے آپ کو بڑی چادر سے چھپائے رکھے، مستقل چہرہ پر نقاب ڈال کر رکھنا ضروری نہیں ہے، البتہ گھریلو امور انجام دیتے ہوئے بڑی چادر لے کر اس کا گھونگھٹ بنالیا جائے؛ تاکہ چہرے پر غیر محرم کی نگاہ نہ پڑے۔باقی عورت کے ہاتھ (گٹوں تک) اور پیر (ٹخنوں تک) اگر چہ فرض حجاب میں داخل نہیں ہیں، لیکن فتنہ کی وجہ سے احتیاطاً ان کے پردہ کا بھی حتی الامکان اہتمام کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ نامحرم سے بلاضرورت گفتگو ، بے جا ہنسی مذاق اور خلوت(تنہائی) میں ایک ساتھ رہنے کی شرعاً بالکل اجازت نہیں ہے۔بہرکیف بعض لوگوں یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ عورت پر نامحرم سے چہرہ کا پردہ کرنا لازم نہیں۔
گھر میں نامحرم سے پردہ کے حوالہ سے مزید تفصیل درج ذیل فتویٰ میں ملاحظہ ہو:
اجتماعی طور پر ایک گھر میں رہنے کی صورت میں پردہ کیسے کیا جائے؟
تفسیر آلوسی میں ہے:
"وقال ابن عباس وقتادة: تلوي الجلباب فوق الجبين وتشده ثم تعطفه على الأنف وإن ظهرت عيناها لكن تستر الصدر ومعظم الوجه، وفي رواية أخرى عن الحبر رواها ابن جرير، وابن أبي حاتم وابن مردويه تغطي وجهها من فوق رأسها بالجلباب وتبدي عيناً واحدةً."
(سورة الأحزاب، ج:11، ص:264، ط:دارالكتب العلمية)
مولانا ادریس کاندہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے {وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ} کے تحت لکھا ہے :
’’عورت کو اپنی یہ زینتِ ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سربازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں، حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا‘‘ ۔
(معارف القرآن، کاندھلوی رح6/254،ط:مکتبۃ المعارف شہداد پور)
فتاوی شامی میں ہے:
"فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولانجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها؛ لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن، وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة."
(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ ،ج:1،ص؛406، ط: سعید)
وفيه ايضا:
"(فإن خاف الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم، وأما في زماننا فمنع من الشابة قهستاني وغيره.
وفي الرد: (قوله وإلا فحرام) أي إن كان عن شهوة حرم (قوله وأما في زماننا فمنع من الشابة) لا لأنه عورة بل لخوف الفتنة."
(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:370، ط:سعيد)
والله تعالى اعلم
فتوی نمبر : 144603102871
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن