بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

b4u (بی فار یو) کے ساتھ کام کرنا


سوال

b4u ایک کمپنی ہے جس میں میں نے سرمایہ کاری کی ہے۔ کمپنی آپ کو آپ کی سرمایہ کاری کا 7 سے 20 فیصد نفع دیتی ہے۔ کمپنی آپ کے پیسوں سے واقعاتی کاروبار کرتی ہے مثلاً موٹر سائیکل کمپنی یا ہاوسنگ سوسائیٹی وغیرہ وہ بہت پیسے کماتے ہیں اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں نقصان کا بہت کم امکان ہے۔ نیز اگر کسی کو اس کمپنی کے ساتھ کام کرنے پر ہم لگائیں تو کمپنی اس میں 1 سے 7 فیصد تک کمپیشن دیتی ہے۔ کیا یہ حلال ہے؟

جواب

مذکورہ کمپنی کے کاروبار کا مکمل طریقہ، و منافع کی تقسیم کا طریقہ کار و شرائط اب تک مکمل طور پر واضح نہیں ہے، البتہ اس کمپنی کی ویب سائٹ سے حاصل شدہ معلومات اور دیگر ذرائع سے دست یاب معلومات کے مطابق اس کا حکم درج ذیل ہے:

1- چوں کہ مذکورہ ادارہ کرپٹو کرنسی میں کاروبار کرتا ہے، اور  مذکورہ کرنسی میں انویسٹمنٹ  جائز نہیں ہے؛ لہٰذا  بی فار یو میں انویسٹمنٹ کرنے کی بھی شرعًا اجازت نہیں ہوگی۔

2-  مذکورہ کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے پر کمپنی دوقسم کے پیکج دیتی ہے:

1: فکس منافع میں آپ کا منافع فکس ہوگا۔ 2: آپ کامنافع فکس نہیں رہتا، کم بھی اور زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔

بصورتِ مسئولہ پہلی صورت جس میں منافع متعین ہوتا ہے،  وہ بہر صورت جائز نہیں۔

 اور دوسری صورت کے بارے میں حکم  گزر چکا کہ  یہ ادارہ چوں کہ کرپٹو کرنسی میں انویسٹ کرتا ہے اور کرپٹو کرنسی شرعی طور پر مادی وجو دنہیں رکھتی، اور اس میں سرمایہ کاری کرنا جائز نہیں ہے،  لہٰذا دوسری قسم (یعنی جس میں منافع متعین نہیں ہوتا) میں بھی انویسٹمنٹ کرنا درست نہیں ہے،  کیوں کہ صرف منافع فکس نہ ہونے سے منافع حلال نہیں ہوتا، بلکہ دیگر شرعی حدود و شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے؛  لہذا اس کمپنی میں پیسے انویسٹ کرنا جائز نہیں ہے۔

3- اگر انویسٹر کے توسط سے لگنے والوں کے بعد ان کے توسط سے کاروبار میں لگنے والوں کی وجہ سے بھی پہلے انویسٹروں  کو چین در چین  اجرت یا کسی عنوان سے رقم دی جاتی ہے تو ناجائز ہونے کی ایک اور وجہ ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكون الربح بينهما شائعًا) فلو عين قدرًا فسدت."

(كتاب المضاربة، ج:5، ص:648، ط:ايج ايم سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

وعن النعمان بن بشير - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «الحلال بين والحرام بين، وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب» ". متفق عليه.

(باب الكسب وطلب الحلال، ج:5، ص:1891، ط:دار الفكر.بيروت)

 مزید  تفصیل کے لیے دیکھیے:

B4u میں انویسٹمنٹ کرنا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201584

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں