بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا زیب و زینت اختیار کرنا


سوال

 سورۃ نور کی آیت ۳۲ میں زینت سے متعلق حکم آیا ہے، مجھے یہ بتادیں کہ شادی بیاہ کے موقعوں پر عورتوں کو زیب و زینت اختیار کرنے کی کہاں تک اجازت ہے؟ چاہے وہ دلہن ہو یا شادی میں آنے والی عام دوسری عورتیں ،دونوں کے لیے کہاں تک اجازت ہے؟  کیوں کہ اکثر شادیاں اور دوسرے فنکشنز مکس گیدرنگ میں ہوتے ہیں، اور اگر مرد اور عورتوں کا الگ انتظام ہو بھی تو اکثر   کیمرہ مین اور ویٹرزکا عورتوں والے حصے میں آنا جانا لگا رہتا ہے!

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کے لیے زیب و زینت  یعنی سونا چاندی کا استعمال اور  بناؤ سنگھار کی  دیگر جائز چیزوں کا استعمال کرنا فی نفسہ جائز اور مباح ہے ،بلکہ شوہر کی خوشی کے لیے سجنا سنورنا مستحسن ہے اور  باعثِ  اجر  و ثواب ہے ۔ نیز یہ بھی واضح رہے کہ عورتوں کے لیے غیر محرم مردوں کے سامنے  مکمل شرعی پردہ کرنا ( یعنی مکمل بدن بشمول چہرہ ) ضروری ہے، بلكه  زیب و زینت اختیار  کیے بغير  بھی اپنا چہرہ یا دیگر اعضاء نا محرم کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں ہے،  چہ جائے کہ  زیب و زینت کے  ساتھ ہو ۔ حدیثِ پاک میں اس عورت کو بھی بدکار قرار دیا گیا ہے جو مہکنے والی خوش بو لگاکر باہر نکلے؛ تاکہ غیر مرد اس کی طرف متوجہ ہوں۔

لہذا شادی بیاہ کے موقع پر جو عورتیں تیار ہوتی ہیں، انہیں  اس بات کا خیال کرنا لازم ہے کہ وہ  نا محرم مردوں سے مکمل پردہ کا اہتمام کریں، صرف عورتوں  کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کریں اور جہاں پے پردگی کا احتمال ہو  اور  مردوں کا  گزر ممکن ہو اور لاعلمی میں وہاں عورت جاچکی ہو تو  وہاں مکمل  پردے  کے  ساتھ ہی رہیں،  اور اگر پہلے سے معلوم ہو کہ مخلوط اجتماع  ہوگا یا وہاں کوئی اور غیر شرعی کام ہوگا تو  ایسی تقریب میں شرعًا شرکت ہی جائز نہیں ہے   اور اگرپہلے سے معلوم نہ ہونے کی وجہ  سے شرکت ہوجائےتو  پھر مکمل پردہ کا اہتمام ضروری ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل  لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

شادی بیاہ یا دیگر تقاریب میں خواتین کا خواتین کی موجودگی میں ننگے سر رہنا

 فتاوی عالمگیری میں ہے:

"«و لا بأس للنساء بتعليق الخرز في شعورهن من صفر أو نحاس أو شبة أو حديد ونحوها للزينة والسوار منها و لا بأس بشد الخرز على ساقي الصبي أو المهد تعليلًا له، كذا في القنية."

(کتاب الکراہیۃ،باب عشرون ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۹۵،دار الفکر)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"فنقول: و يجوز أن ينظر الرجل إلى الرجل إلا إلى عورته، كذا في المحيط. و عليه الإجماع، كذا في الاختيار شرح المختار. و عورته ما بين سرته حتى تجاوز ركبته، كذا في الذخيرة. و ما دون السرة إلى منبت الشعر عورة في ظاهر الرواية ... (و أما بيان القسم الثاني) فنقول: نظر المرأة إلى المرأة كنظر الرجل إلى الرجل، كذا في الذخيرة. و هو الأصح، هكذا في الكافي. ولا يجوز للمرأة أن تنظر إلى بطن امرأة عن شهوة، كذا في السراجية. ولا ينبغي للمرأة الصالحة أن تنظر إليها المرأة الفاجرة؛ لأنها تصفها عند الرجال فلاتضع جلبابها، ولا خمارها عندها، و لايحل أيضًا لامرأة مؤمنة أن تكشف عورتها عند أمة مشركة أو كتابية إلا أن تكون أمة لها، كذا في السراج الوهاج.»

(کتاب الکراہیۃ،باب ثامن ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۲۷،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) ينظر (من الأجنبية) ولو كافرة مجتبى (إلى وجهها وكفيها فقط) للضرورة قيل والقدم والذراع إذا أجرت نفسها للخبز تتارخانية»(فإن خاف الشهوة) أو شك (امتنع نظره إلى وجهها) فحل النظر مقيد بعدم الشهوة وإلا فحرام وهذا في زمانهم، وأما في زماننا فمنع من الشابة قهستاني وغيره (إلا) النظر لا المس (لحاجة) كقاض وشاهد يحكم (ويشهد عليها) لف ونشر مرتب لا لتتحمل الشهادة في الأصح.

(قوله: فإن خاف الشهوة) قدمنا حدها أول الفصل (قوله مقيد بعدم الشهوة) قال في التتارخانية، وفي شرح الكرخي النظر إلى وجه الأجنبية الحرة ليس بحرام، ولكنه يكره لغير حاجة اهـ وظاهره الكراهة ولو بلا شهوة."

(کتاب الحظر والاباحہ ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۷۰،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں