بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی بیاہ یا دیگر تقاریب میں خواتین کا خواتین کی موجودگی میں ننگے سر رہنا


سوال

 شادی بیاہ یا دیگر تقریبات میں مستورات کا صرف مستورات کی موجودگی میں ننگے سر شرکت کرنا کیسا عمل ہے؟

جواب

دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور اس میں غمی و خوشی ہر طرح کے حالات کے لیے مستقل احکامات دیے گئے ہیں، اور ایک مسلمان کا فرض ہے کہ غمی ہو یا خوشی کسی حال میں بھی اپنے دین کے احکامات سے رو گردانی نہ کرے، بلکہ اپنی ہر خوشی و غم کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے حکم کو سامنے رکھ کر اس پر چلنے کی پوری کوشش کرے، چنانچہ شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر شرعی پردے کا خیال نہ رکھنا، مخلوط اجتماع کرنا، موسیقی اور شور ہنگامہ کرنا وغیرہ یہ سب ناجائز امور ہیں، اور جن تقریبات میں ناجائز اور گناہوں کا ارتکاب ہو وہ خلافِ شرع ہیں۔

نیز شریعتِ مطہرہ نے عورتوں کو پردہ کرنے کی بہت تاکید کی ہے اور بے پردگی کو  سخت گناہ قرار دیا ہے، لہذا عورت کو ہر حال میں اس طرح  کا لباس زیب تن کرنا چاہیے جس سے کسی صورت اس کی بے پردگی نہ ہو، اور عورت کا وقار اور حیا بھی برقرار ہے۔

صورتِ مسئولہ میں  اگر شادی بیاہ کی تقریبات میں غیر شرعی امور نہ پائے جائیں تو خواتین کا ایسی تقریب میں شرکت کرنا فی نفسہ جائزہے، اور اگر وہ تقریب صرف خواتین کی ہو، لیکن گھر سے باہر کسی ہال وغیرہ میں ہو  تو چوں کہ بہر حال یہ اندیشہ رہتا ہے کہ  کسی نامحرم کی نگاہ پڑجائے گی؛ اس لیے اس صورت میں خواتین کی موجودگی میں بھی ننگے سر رہنے سے اجتناب کیا جائے، اور اگر تقریب میں نامحرم بھی ہوں یا ہال میں سی سی ٹی وی کیمرہ موجود ہو تو پھر عورت کا ننگے سر رہنا ہی جائز نہیں ہے، بلکہ اس صورت میں تو یہ تقریب بھی غیر شرعی ہوگی، البتہ اگر تقریب گھر کے اندر ہی ہو اور وہاں کسی بھی نامحرم کا آنا جانا نہ ہو تو عورت کا دیگر خواتین کی موجودگی میں بال کھلے رکھ لینے کی گنجائش ہوگی۔ 

ارشاد باری تعالی ہے:

﴿وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ [ النور:31] 

فتاوی  بزازیہ علی ہامش الھندیہ میں ہے:

"ولایأذن بالخروج إلی المجلس الذي یجتمع فیه الرجال والنساء، وفیه المنکرات". (4/156، رشیدیه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144203200260

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں