بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسباب منع حمل اختیار کرنا


سوال

 میرا دو مہینے  کا بچہ ہے ،اب  میں  2 سال اس کے دودھ پینے کی مدت تک وقفہ کرنا چاہتاہوں ، اس کے لے آج کل 2 خاص قسم کے طریقے آئے ہیں ۔

(1ـــ) بازو میں جلد کے  نیچے ایک خاص قسم کا کیپسول رکھا جاتا ہے ،کیا اسلام ہمیں اس کے رکھنے کی اجازت دیتا ہے؟اور اگر دیتا ہے تو یہ وقفہ 3 یا 4سال یا پھر اس سےبھی زیادہ مدت کے لیے  کر سکتے ہیں؟

(2) بچہ دانی کے اندر ایک  سٹک رکھا جاتا ہے ،کیا اسلام ہمیں اس کی بھی اجازت دیتا ہے ؟ اور اگر دیتا ہے تو 2 سال سے بھی زیادہ مدت کے  لیے اسے رکھ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:  "محبت کرنے والی اور خوب بچے دینے والی عورت سے شادی کرو ،اس لیے کہ میں قیامت کے دن تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔"   اس  لیے حمل روکنے والے اسباب کو اختیار کرنا  اس کثرت  کے منافی ہے ،اور پھر جب والدین اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں اور ان کی تعلیم وتربیت کرتے ہیں ،ان کو احکام دین سکھاتے ہیں ،تو اس میں والدین کو  بہت بڑا اجر حاصل ہوتا ہے اسباب منع حمل کو اختیار کرنا گویا اس  خوشی سے مانع بننا ہے ،جو کثرت اولاد کے سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوتی ، اور اس اجر کو ضائع کرنا ہے جو بچہ کی پیدائش کے بعد اس کی  نیک تربیت  کے بدلے  میں والدین کو حاصل ہوتا ،لہذا اسی وجہ سے ایسے اسباب کو اختیار کرنے شرعًاممنو ع ہے ۔

لیکن اگر ایسے حا لات  پائیں جائیں جو واقعی عذر ہیں ،مثلًا عورت بہت  کمزور  ہے  اگر  دوبارہ  بچہ پیدا ہوا تو  اس کی جان جانے کا خطرہ ہے ،یا ایک بچہ ابھی پیدا ہوا ہے ،اب اگر حمل ٹھہرتا ہے  تو پہلے کی صحت پر اثرپڑے گا تو اس طرح کی صورت میں ایسے عارضی وسائل کو اختیار کرنا جو حمل کو روک دیں تو جائز ہے ۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر آپ کا ان اسباب مذکورہ کو اختیار کرنا  اس عذر کی وجہ سے ہے کہ تا کہ اس بچہ کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑے تو ان  اسباب کو اختیار کرنا جائز ہے ،اور دو سال کی مدت کے بعد  چوں کہ وہ عذر ساقط ہوگیا ہے اسی لیے پھر دو سال بعد ان اسباب کو اختیار کرنا جائز نہ ہوگا۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ  مانعِ حمل کوئی بھی ایسی تدبیر اختیار کرنا جس میں عورت کو شوہر کے علاوہ کسی  مرد کے سامنے ستر کھولنا پڑے اس کی اجازت نہیں ہے، اور اس غرض سے لیڈی ڈاکٹر کے سامنے میں بھی قدرِ ضرورت ستر کھولنے کی اجازت اس وقت ہوگی جب کہ  حمل ٹھہرنا مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق مضر ہو۔

مزید دیکھیے:

حمل میں وقفے کے لیے کوپرٹی لگانا

ابو داؤد شریف میں ہے؛

"عن معقل بن يسار، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إني أصبت امرأة ذات حسب وجمال، وإنها لا تلد، أفأتزوجها، قال: «لا» ثم أتاه الثانية فنهاه، ثم أتاه الثالثة، فقال: «‌تزوجوا ‌الودود ‌الولود فإني مكاثر بكم الأمم."

(باب النهي عن تزويج من لم يلد من النساء،ج:2، ص:220، ط:المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: قال الكمال) عبارته: وفي الفتاوي: إن خاف من الولد السوء في الحرة يسعه العزل بغير رضاها؛ لفساد الزمان، فيعتبر مثله من الأعذار مسقطاً لإذنها."

(باب نکاح الرقیق ،مطلب فی حکم العزل ،ج:3، ص:176، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں