بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایمازون کی ایک آپشن(AMAZON AFFILIATE) کا حکم


سوال

ایمازون کے اندر ایک آپشن ہے،جس کا  نام(Amazon affiliate)ہے،اس کا مطلب آسان الفاظ میں یہ ہے کہ یہ بالکل فری ہے،اس میں آپ مفت رجسٹریشن کر سکتے ہیں، پھر آپ جن اشیا کی مارکیٹنگ کرنا چاہتے ہیں انہیں اختیار کریں اور پھر اس کی تشہیر وترویج کرکے اس کا لنک لوگوں تک پہنچائیں، توجو شخص بھی آپ کے مخصوص لنک کے ذریعے ویب سائٹ تک پہنچ کر وہ چیز خریدے گا،  تو آپ کو اس میں سے کمیشن ملے گا، یہ کمیشن اس چیز کی قیمت کا کچھ فیصدی حصہ ہوتا ہے،باقی یہ کمیشن بالکل متعین ہوتا ہے ہر چیز میں ایک مخصوص فیصدی کمیشن ہوتا ہے،تو کیا یہ ایسا کرنادرست ہے؟ اورکیا اس کی  آمدنی جائز ہے؟

جواب

ایمازون ویب سائٹ پر فروخت ہونے والی جائز  اشیاء کی قیمتوں میں سے مخصوص تناسب کے عوض  تشہیری اور ترویجی مہم میں حصہ لینا جائز ہےاور اس پر فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کرکے کمیشن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں،شرعاً یہ  کام دلالی کے حکم میں ہے،جس کی اجرت لینا جائز ہے۔

البتہ یہ ضروری ہے کہ اس میں شرعًا کوئی ایسا مانع  نہ ہو، جس کی وجہ سے اصلاً بیع ہی ناجائز ہوجائے جیسے مبیع کاحرام ہونا،لہذا صرف ان ہی مصنوعات کی تشہیر کی جائے، جو اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہو ں، جوچیزیں  شرعاًحرام ہیں ان کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے ۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر ہمارےدار الافتاء کا تفصیلی فتوی ملاحظہ فرمائیں:

ایمازون سے کاروبار اور کمیشن کاحکم

الدرمع الرد میں ہے:

 "وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.

وفي الرد تحته:(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له.(قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."

(كتاب البيوع، 4/ 560 ، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"قال في التتارخانية: وفي ‌الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."

(کتاب الإجارة، مطلب في أجرة ‌الدلال ،6/63، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100425

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں