بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر والد واجب قربانی سے منع کرے تو اطاعت جائز نہیں


سوال

بلال کے والد صاحب ہر سال قربانی کرتے ہیں اپنے پیسوں سے، اس سال سال کے شروع سے ہی بلال کا ارادہ تھا کہ میں والد صاحب کے ساتھ پیسے ملا کر قربانی کروں گا پھر بیچ میں لاک ڈاؤن ہو گیا اور جو پیسے بلال کے والد کے پاس جمع تھے وہ سب ختم ہوگئے۔ اب عیدالفطر کے بعد بلال نے پیسے جمع کرنا شروع کئے اور اب اس کے پاس قربانی کے حوالے سے پیسے جمع ہوگئے۔ لیکن والد صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ہم صاحب نصاب نہیں ہیں لہٰذا ہم پر قربانی بھی واجب نہیں ہے اور حالات کا پتہ نہیں کیسے رہتے ہیں تم قربانی اس سال نہ کرو جب کہ بلال کی نیت سال کے شروع سے تھی اور اس نے پیسے بھی جمع کرلئے۔ اب سوال یہ ہے کہ بلال قربانی کرے یا والد صاحب کا کہنا مانے؟

جواب

قربانی واجب  ہونے کے لیے قربانی کے دنوں میں صاحبِ نصاب ہونا ضروری ہے یعنی جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے سات تولہ سونا، یا ساڑھے باون تولہ چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔ 

قربانی  واجب ہونے کے لیے نصاب کے مال، رقم یا ضرورت سے  زائد سامان پر سال گزرنا شرط نہیں ہے، اور تجارتی مال ہونا بھی شرط نہیں ہے، ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کے سورج غروب ہونے سے پہلے  اگر نصاب کا مالک ہوجائے تو ایسے شخص پر قربانی  واجب ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر بلال قربانی کے ایام میں صاحبِ نصاب ہو تو اس پر اپنی طرف سے قربانی کرنا شرعاً واجب ہے۔ اس معاملہ میں والد صاحب کی اطاعت جائز نہیں اور نہ ہی والد صاحب کے لیے بلال کو قربانی سے روکنا جائز ہے۔ حکمت و بصیرت سے اور والد صاحب کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے  انہیں نرمی سے سمجھا دیا جائے اور قربانی جیسے اہم فریضہ کی حقیقت و فضیلت سے آگاہ کیا جائے۔

قربانی کی فضیلت کے حوالے سے مفتی اعظم پاکستان مفتی ولی حسن ٹونکی رحمہ اللہ کا مضمون جامعہ کی ویب سائٹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:

قربانی کے احکام ومسائل

اور اگر بلال قربانی کے ایام میں صاحبِ نصاب نہیں ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے، اس صورت میں والد صاحب کا کہنا ماننا لازم ہے۔ تاہم اگر قربانی کی اہمیت کے پیشِ نظر والد صاحب کی طرف سے اجازت مل جائے اور بلال قربانی کردے تو قربانی ادا ہوجائے گی اور ثواب بھی ملے گا۔

قربانی کے دنوں میں قربانی نہ کرنے کے حوالہ سے جامعہ کا فتویٰدرج ذیل لنک پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:

کرونا کی وجہ سے قربانی کی رقم صدقہ کرنے کا حکم

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر

(قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفا، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم، وصاحب الثياب الأربعة لو ساوى الرابع نصابا غنى وثلاثة فلا، لأن أحدها للبذلة والآخر للمهنة والثالث للجمع والوفد والأعياد، والمرأة موسرة بالمعجل لو الزوج مليا وبالمؤجل لا، وبدار تسكنها مع الزوج إن قدر على الإسكان. له مال كثير غائب في يد مضاربه أو شريكه ومعه من الحجرين أو متاع البيت ما يضحي به تلزم، وتمام الفروع في البزازية وغيرها" (الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار)، ج:6، ص:312، ط:دار الفكر-بيروت)

تبیین الحقائق میں ہے:

"واليسار لما روينا؛ ولأن العبادة لا تجب إلا على القادر، وهو الغني دون الفقير، ومقداره ما يجب فيه صدقة الفطر والوقت، وهو أيام النحر؛ لأنها مختصة بها على ما بينا فيشترط أن يكون غنيا في أيام النحر، ولو كان فقيرا فأيسر فيها تجب؛ لأنه أدرك، وقتها، وهو غني؛ لأن الموجود في بعض الوقت كالموجود في أوله، وقيل لا تجب عليه؛ لأن الوجوب يتعلق بطلوع الفجر فالفقير ليس من أهله فجعله في هذه الرواية نظير صدقة الفطر" (تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ،ج:6، ص:3، ط:المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں