بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آٹھ رکعات تراویح پڑھنا


سوال

 کیا ہم آٹھ رکعت تراویح پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

تراویح بیس رکعات ادا کرنا سنت مؤکدہ ہے،خود جنا ب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیس رکعات تراویح پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے،اور آپ کے بعد تمام صحابہ کرام بشمول خلفاء راشدین کا بیس رکعات تراویح پڑھنے پر اجماع ثابت ہے اور صحابہ سے لے کر آج تک تمام امت کا بیس رکعا ت تراویح پڑھنے  کا معمول چلا آرہا ہے،لہذا تراویح بیس رکعات ہی پڑھنی ہے،صرف آٹھ رکعات پر اکتفاء کرنا درست نہیں ،اور آٹھ رکعات حقیقت میں تہجد کی نماز ہے ،تراویح کی نماز نہیں ہے۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:تراویح کی رکعتوں کی تعداد

مفصل ومدلل بحث کے لیے دیکھیے:’’رکعات تراویح ‘‘ از مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب رحمہ اللہ 

السنن الکبری للبیھقی میں ہے:

"أنبأ أبو سعد الماليني، ثنا أبو أحمد بن عدي الحافظ، ثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز، ثنا منصور بن أبي مزاحم، ثنا أبو شيبة، عن الحكم، عن مقسم، عن ابن عباس قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعة، والوتر."

(کتاب الصلاۃ ،باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان،ج:2،ص:698،رقم:4615،ط:دار الکتب العلمیۃ)

مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

"حدثنا وكيع عن مالك بن أنس عن يحيى بن سعيد (أن) عمر بن الخطاب أمر رجلا يصلي بهم عشرين ركعة"

"حدثنا وكيع عن نافع بن عمر قال: كان ابن أبي مليكة يصلي بنا في رمضان عشرين ركعة ويقرأ بحمد الملائكة في ركعة."

(کتاب صلاۃ التطوع والامامۃ،کم یصلی فی رمضان رکعۃ،ج:5،ص:155،رقم:7892،7893،ط:دار کنوز اشبیلیا)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وقال ابن حجر: وقول بعض أئمتنا أنه صلى بالناس عشرين ركعة، لعله أخذه مما في مصنف ابن أبي شيبة «أنه عليه الصلاة كان يصلي في رمضان عشرين ركعة سوى الوتر» ، ومما رواه البيهقي «أنه صلى بهم عشرين ركعة بعشر تسليمات ليلتين، ولم يخرج في الثالثة» ، لكن الروايتان ضعيفتان، وفي صحيحي ابن خزيمة وابن حبان أنه صلى بهم ثمان ركعات والوتر، لكن أجمع الصحابة على أن التراويح عشرون ركعة."

(باب قیام شھر رمضان ،ج:3،ص:973،ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وهي عشرون ركعة) حكمته مساواة المكمل للمكمل

(قوله وهي عشرون ركعة) هو قول الجمهور وعليه عمل الناس شرقا وغربا. وعن مالك ست وثلاثون."

(مبحث صلاۃ التراویح،ج:2،ص:45،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما قدرها فعشرون ركعة في عشر تسليمات، في خمس ترويحات كل تسليمتين ترويحة وهذا قول عامة العلماء.

وقال مالك في قول: ستة وثلاثون ركعة، وفي قول ستة وعشرون ركعة، والصحيح قول العامة لما روي أن عمر - رضي الله عنه - جمع أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - في شهر رمضان على أبي بن كعب فصلى بهم في كل ليلة عشرين ركعة، ولم ينكر أحد عليه فيكون إجماعا منهم على ذلك."

(کتاب الصلاۃ ،فصل فی قدر التراویح ،ج:1،ص:288،ط:دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں