بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی رکعتوں کی تعداد


سوال

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ تراویح کی رکعات کی تعداد حقیقت میں 8 رکعت ہے لیکن  عمر رضی الله تعالی عنہ نے انہیں اپنے دور میں 20 رکعت کر دیے ،کیا یہ بات سچ ہے؟ دلیل کےساتھ راہ نمائی فرمائیے ؟

جواب

بیس رکعت تراویح ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہے اور یہی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین روز تراویح کی باقاعدہ امامت بھی فرمائی تھی، لیکن صحابہ کے شوق اور جذبہ کو دیکھتے ہوئے تیسرے یا چوتھے روز امامت کے لیے تشریف نہ لائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے مبارک کے باہر انتظار کرتے رہے اور اس خیال سے کہ نبی اکرم صلی علیہ وسلم سو نہ گئے ہوں بعض صحابہ کھنکارنے لگے تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے مجھے خوف ہوا کہ کہیں تم پر فرض نہ کردی جائیں؛ اگر فرض کردی گئیں تو تم ادا نہیں کرسکو گے؛ لہذا اے لوگو! اپنے گھروں میں ادا کرو۔ (متفق علیہ)

جب کہ آپ علیہ السلام کا ماہِ رمضان میں بذاتِ خود جماعت کے بغیر بیس رکعت تراویح اور وتر ادا کرنے کا معمول تھا، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبریٰ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: كان النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في شهر رمضان في غير جماعة بعشرين ركعةً و الوتر."

( كتاب الصلاة، باب ما روي في عدد ركعات القيام في شهر رمضان، ٢/ ٤٩٦، ط: اداره تالیفات اشرفیه)

نیز اگر امت کسی حدیث کو قبول کرلے اور اس پر سب عمل کریں  تو وہ متواتر کے معنی میں ہوجاتی ہے، اور امت کا کسی حدیث کو قبول کرنا اس کی صحت اور حجت ہونے کی قوی ترین دلیل ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیث اگرچہ خبر واحد ہے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور تمام امت نے اسے قبول کیا ہے ۔

اور بیس رکعت تراویح ادا کرنا صحابہ کرام کا بھی معمول تھا،  یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت بیس رکعت تراویح کا اہتمام مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کروایا تو ان پر کسی نے نکیر نہیں کی، بلکہ تمام صحابہ کرام نے باجماعت تراویح کے اہتمام پر اتفاق کیا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کابیس رکعات پراتفاق یعنی اجماعِ صحابہ اس بات کی شہادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح بیس رکعات ہی پڑھائی ہیں۔

لہذا صحابہ کرام کے اجماع سے لے کر آج تک تمام فقہاءِ کرام اور امتِ مسلمہ کا اجماع ہے، اور تمام فقہاء کے نزدیک تراویح بیس رکعات سنت ہے، اور بلاعذر اس کاتارک گناہ گار ہے، اور بیس رکعت تراویح کا انکارنصوصِِ شرعیہ سے ناواقفیت، جمہور فقہا ءِ کرام کی مخالفت اور گم راہی ہے، اور تراویح کو بیس رکعت نہ ماننا اور اس کے خلاف  پرعمل کرنا اجماعِ امت کے خلاف ہے۔

اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم  میں ہے:

قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تراویح اور اس سلسلہ میں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے، اس کے متعلق سوال کیا تو آپؒ نے فرمایا: تراویح سنتِ مؤکدہ ہے اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے 20رکعات مقررو متعین نہیں کیں اورنہ وہ کسی بدعت کے ایجاد کرنے والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو 20 کا حکم دیاہے، اس کی آپ کے پاس ضرور کوئی اصل تھی اور ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنت جاری کی اور لوگوں کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر جمع کیا، پس انہوں نے تراویح کی جماعت کروائی، اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کثیر تعداد میں موجود تھے، حضرت عثمانؓ،علیؓ، ابن مسعودؓ، عباسؓ،ابن عباسؓ،طلحہؓ،زبیرؓ،معاذؓ،اُبیؓ اوردیگر مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم سب موجود تھے، مگر کسی نے بھی اس کو رد نہیں کیا، بلکہ سب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے موافقت کی اور اس کا حکم دیا۔

(اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم،ج:1، ص:292)

ایضاً

 حکیم الامت حضر ت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ اس امرکوذکرکرتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تراویح کی بیس رکعتیں قراردیں، اس کی حکمت یہ بیان کرتے ہیں: ’’اور یہ اس لیے کہ انہوں نے دیکھاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محسنین کے لیے(صلوٰۃ اللیل) گیارہ رکعتیں پورے سال میں مشروع فرمائی ہیں، پس ان کا فیصلہ یہ ہوا کہ رمضان مبارک میں جب مسلمان تشبہ بالملکوت کے دریا میں غوطہ لگانے کا قصد رکھتا ہے تو اس کا حصہ سال بھر کی رکعتوں کے دوگنا سے کم نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

(حجۃ اللہ البالغہ، ج:2، ص:8، بحوالہ اختلاف امت اورصراط مستقیم، ج:2،ص:294)

مرقاةاالمفاتیح میں ہے:

"لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً".

(كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان، ج:3، ص:382، ط: مکتبہ رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"التراويح سنة مؤكدة؛ لمواظبة الخلفاء الراشدين".

(كتاب الصلاة، مبحث صلاة التراويح، 2، ص:43، ط: ایچ ایم سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں