بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

کوچنیل نامی کیڑے سے کشید کردہ رنگ کا حکم!


کوچنیل نامی کیڑے سے کشید کردہ رنگ کا حکم!

 

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ:
موجودہ ترقی یافتہ دور میں انسان مختلف قسم کے رنگوں کا استعمال کررہا ہے، خاص کرکھانے پینے کی بعض اشیاء، ادویات اور خواتین کے میک اپ کی اشیاء میں مختلف قسم کے رنگوں کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ رنگ مختلف ذرائع سے حاصل ہوتے ہیں، مثلاً: پھل، سبزیاں، پھول، کیڑے مکوڑے اور کیمیکلز ،وغیرہ۔
ان رنگوں میں سے لال رنگ کا استعمال زمانۂ قدیم سے ہے۔ پہلے یہ رنگ مصوری میں ، کپڑے اوردھاگے رنگنے میں استعمال ہوتا تھا اور آج ترقی یافتہ دور میں اسے کھانے پینے کی اشیاء اور خواتین کے میک اپ کے سامان، مثلاً لپ اسٹک وغیرہ میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس لال رنگ کے حصول کا ایک ذریعہ ’’کوچنیل‘‘ نامی ایک مادہ کیڑا ہے، جس کی غذا ’’کیکٹس‘‘ نامی ایک پودہ ہے۔ یہ کیڑا لاطینی امریکہ میں پایا جاتا ہے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں اس کی فارمنگ کی جارہی ہے۔
اس مادہ کیڑے کوچنیل سے لال رنگ حاصل کرنے کے دوطریقے رائج ہیں:
۱…کوچنیل مادہ کیڑے کو کوکیکٹس کے پتے سے احتیاط سے اتار کر مکمل پیس کر سفوف بنا لیا جاتا ہے اور اس سفوف کو پانی یا الکحل میں ملا کر تیار کیا جاتا ہے۔
۲…اسی طرح کبھی الکحل یا پانی میں مکمل کیڑے کو اچھی طرح اُبالا جاتا ہے اور لال رنگ حاصل کیا جاتا ہے۔مذکورہ طریقے کو سمجھنے کے لئے انٹرنیٹ کے درج ذیل ایڈریس پر موجود ویڈیو کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
Youtube video 1: http://www.you tube. com/watch?v=jSgteZSLJ90&feature=related Youtube video 2:http://www.youtube. com/watch?v= 9YzM1Edb6mo
سوال یہ ہے کہ:
۱…کیا کوچنیل کیڑے سے حاصل کردہ مذکورہ رنگ پاک ہے یا نہیں؟
۲…کیا کوچنیل کیڑے سے حاصل کردہ رنگ کا استعمال کھانے پینے میں جائز ہے؟۔
۳…کیا کوچنیل کیڑے سے حاصل کردہ رنگ کا استعمال میک اپ کے سامان مثلاً: لپ اسٹک وغیرہ میں درست ہے یا نہیں؟    
                                  مستفتی:رضوان وارثی، چیئرمین ایچ آرسی، پاکستان

الجواب باسمہٖ تعالیٰ    
’’کوچنیل‘‘(COCHINEAL) جسے اُردو میں’’کــــچنیلا‘‘ یا’’کرم دانہ‘‘اور عربی میں ’’قرمز‘‘ کہاجاتاہے، ایک چھوٹا سا کیڑا (insect)ہے ،جو جسامت میں مکھی کے برابر ہوتا ہے اور خاص کرمیکسیکواور لاطینی امریکہ میں پایا جاتاہے۔یہ کیڑ ا کیکٹس نامی پودے پر پایا جاتا ہے اور اسی سے اپنی خوراک حاصل کرتاہے۔
جس وصف کی بناء پر یہ کیڑا دنیا کی توجہ کا مرکزبنا ہوا ہے اور جو خصوصیت اُسے دوسرے کیڑے مکوڑوںسے ممتاز کرتی ہے وہ اُس کا ذائقہ، لذت ، غذائیت ،خوب صورتی یاشفا بخش ہونا نہیں ہے ،بلکہ اس کے مادہ کے پیٹ میںپائی جانے والی گہری سرخی ہے۔اس کیڑے کا مادہ پورا کا پورا سرخی سے بھرپور ہوتا ہے ،مگر خاص طور پراس کے پیٹ میں ایسے انڈے پائے جاتے ہیں ،جن میں باقی جسم کے مقابلے میںزیادہ مقدار میںگہرا سرخ رنگ ہوتا ہے۔اسی گہرے شوخ رنگ کے حصول کے لئے مختلف خطوںمیں اس کی مصنوعی افزائش بھی کی جاتی ہے ۔تقریباً ستر ہزار کیڑوں سے ایک پاؤنڈ کے برابر لال رنگ حاصل ہوتاہے۔’’پیرو‘‘ اس سلسلے میں بہت آگے ہے، جو سالانہ دو سو ٹن ڈائی بناتاہے۔
 مذکورہ رنگ مختلف اشیاء میں استعمال ہوتا ہے، مگر اس کا خاص استعمال کھانے کی اشیاء کو رنگنے کے لئے ہوتا ہے، تاکہ وہ دل کش ،خوش رنگ اور خوش نما معلوم ہوں ۔خوردنی اشیاء کے علاوہ اس کا استعمال مشروبات،ادویات، کپڑوں اور کاسمیٹکس میں بھی ہوتا ہے۔
’’cochinealقرمز،فرنگی ،کرم دانہ۔‘‘    (اسٹینڈرڈ اردو ڈکشنری، ۱۹۹)
’’cochineal:ایک سرخ ،قرمزی رنگ جو خصوصاً کھانے کی چیزوں کو رنگنے کے لئے استعمال ہوتا ہے،کچنیلا ۲۔میکسیکوکے کیڑے قرمز dectylopius cocusکی مادنیوںکے سوکھے جسم جن سے یہ رنگ حاصل ہوتا ہے۔‘‘
(اوکسفرڈانگلش اردو ڈکشنری،ص:۲۷۲،مترجم:شان الحق حقی،ط:اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس)
"a bright red substance used to give colour to food".
                                       (اوکسفرڈ ایڈوانس لرنرز ڈکشنری ،آٹھواں ایڈیشن)     کوچنیل سے اس رنگ کا حصول چند تدریجی مرحلوں میں ہوتا ہے۔سب سے پہلے اس کیڑے کو مارا جاتا ہے۔مارنے کے مختلف طریقے ہیں: 
۱  …  یا تو اسے پانی میں اُبالاجاتا ہے۔
۲  …  یا لکڑی کے تختے نمابرتن میں ہلاجلاکر مارا جاتا ہے۔
۳  …  یاپھراوون وغیرہ کے ذریعے اسے مصنوعی گرمائش دی جاتی ہے۔
۴  …  یا پھر دھوپ میں ڈال دیا جاتا ہے۔
مارنے کے بعد اُسے نمی سے بچاکر خشک کیا جاتا ہے اور پھر کوٹ کر ، پیس کر اور چھان کر غیر ضروری مواد کو الگ کیا جاتاہے اور مطلوبہ اجزاء کا سفوف بنادیا جاتا ہے ۔اس کے بعد اُسے چند مزید کیمیائی مراحل سے گذارا جاتا ہے۔اس طرح یہ رنگ تیار ہوجاتا ہے۔بازار میں موجود ’’E120 ،کارمائن ،کارمینک ایسڈ،نیچرل ریڈ اورکوچنیل وغیرہ اسی رنگ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ کاسمیٹکس انڈسٹری اس کے لئے ’’C.I.75470‘‘کا کوڈ استعمال کرتی ہے:
‘‘The insects are killed by immersion
 in hot water (after which they are dried) or by exposure to sunlight, steam, or the heat of an oven.’’
     (وکی پیڈیا)     
‘‘Once all of the insects are collected, farmers pour them onto a wooden plank. For five to six minutes, the farmer will shake the beetles in a process that eventually kills the insects while retaining their dark colors. There are other ways to kill the bugs.....
(http://www.businessinsider.com/how-cochineal  -insects-color-your-food-and-drinks-2012-3?op=1)
جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ ’’کوچنیل ‘‘کو مختلف طریقوں سے مارا جاتا ہے۔ آگ سے مارنایاجو طریقہ آگ سے مارنے کے حکم میں ہو ،اس کے ذریعے کوچنیل کو مارنا جائز نہیں ہے ،کیونکہ آگ سے مارنا صرف خاصۂ خداوندی ہے۔اور جب آگ کے علاوہ دوسری ترکیب سے اُسے مارا جاسکتا ہے تو پھر آگ سے مارنا جائز نہیں ہے۔فقہاء نے ریشم کے کیڑو ںکو دھوپ میں مارنے کی اجازت اس بناء پر دی ہے کہ انہیں مارنے کی کوئی اور تدبیر نہیں ہے۔ (بہشتی زیور،نواں حصہ،ص:۱۰۳،طبع:میر محمد کراچی)
یہ وضاحت ضروری ہے کہ جان دارکو’’ آگ میں جلانے کی ممانعت‘‘یا اسے ’’زائد از ضرورت تکلیف دینے کی قباحت‘‘ اسلام کی اس رحمت عامہ اور شفقت تامہ کی بناء پر ہے جس کا اثرحیوانات ،نباتات اور جمادات سب تک پہنچا ہوا ہے اورجس سے ہر مخلوق اپنے اپنے دائرے میں اپنی نوعیت اور مقام و مرتبے کے مطابق فیض یاب ہورہی ہے۔انسان کو بھی ترغیب ہے کہ وہ اپنے اندر اخلاق الہٰی پیدا کرتے ہوئے خدا کی مخلوق کے ساتھ رحم اور شفقت کا معاملہ کرے۔تاہم اگر انسان سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے اورجان دار کو آگ میں جلاتاہے یا اسے غیر ضروری تکلیف دیتا ہے تو اس کا فعل گناہ ہے ،اور اس کا عمل اس کے منصب کے تقاضوں کے منافی ہے، مگر اس سے جان دارکے حکم میں کوئی تبدیلی نہیںآتی ہے۔اگر وہ حلال ہے تو حلال ہی رہتاہے اور اگر حرام ہے تو حرام ہی رہتا ہے۔اس لئے کوچنیل کو آگ میں جلانے کا عمل تو برا ہے، مگر اس سے کوچنیل کی حلت وحرمت پر یاطہارت ونجاست پرکوئی اثر نہیں پڑتاہے۔
علاوہ ازیں: اس فعل کی مرتکب غیر مسلم قومیں ہیں، جنہیں اسلام کے تصورِ حقوق کی وسعت اور ہمہ گیریت سے تو آگاہ کیا جاسکتا ہے اور انہیں حیوانات کے حقوق کے متعلق ان کے نعرے اور دعوے تو یاد دلائے جاسکتے ہیں ،مگر اُنہیںکسی خاص طریقہ کار کا پابند نہیں بنایا جاسکتا۔
حاصل یہ ہے کہ آگ میں مارنے یا نہ مارنے کا سوال مسلمانوںکے نقطۂ نظر سے غیر اہم ہے۔تاہم جس صورت میں’’کوچنیل ‘‘میں الکحل ملایا گیا ہو، اس صورت میں یہ سنجیدہ اور اہمیت کا حامل سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس پروڈکٹ میں کوچنیل ہواور کوچنیل میں الکحل ہو،وہ پاک ہے یا ناپاک ہے ،حلال ہے یا حرام ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے وقت کوچنیل تو پس پردہ چلاجاتا ہے اور الکحل موضوع بحث بن جاتاہے کہ وہ کس ذریعے سے حاصل کیا گیا ہے؟
اگر الکحل انگور یا کھجور سے کشید کیا گیاہو تو تینوں حنفی اماموںکے نزدیک اس کا خوردنی استعمال حرام ہے ،اور اگر کسی اور ذریعہ سے حاصل کیا گیا ہو تو شیخینؒ کے نزدیک اس کا بیرونی استعمال جائز ہے، مگر امام محمدؒ کے نزدیک اس کا بیرونی استعمال بھی ناجائز ہے۔ اکثریت کا قول اور مفتی بہ قول امام محمد ؒکا ہے، اس لئے جس پروڈکٹ میں الکحل مِلا ہواکوچنیل استعمال کیا گیا ہو ،اس کا خارجی استعمال بھی ناجائز ہوگا۔
اگر چہ ضرورت اور تنگی کے موقع پر شیخینؒ کے مذہب کو اختیار کرنے کی گنجائش ہے اور مشایخ نے ایسے موقعوںپر ان کے مذہب پرفتوی بھی دیا ہے، مگر اس سہولت سے فائدہ اٹھانا اس وقت مناسب ہوگاجب لال رنگ ہماری ضرورت ہو اور لال رنگ کی ضرورت الکحل ہو ۔مطلب یہ ہے کہ ایک طرف تواس رنگ کی تیاری میںالکحل کا استعمال ناگزیر ہو،اور دوسری طرف یہ رنگ ہماری ضرورت اور مجبوری ہو، اورہماری مجبوری کو دیکھتے ہوئے شریعت اپنے حکم میںنرمی پیدا کرکے اسے ہمارے لئے مباح کردے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو اس رنگ کا حصول الکحل پر منحصر ہے (جیسا کہ شروع میں گذرا)اور نہ خود یہ رنگ دوا یا غذا کا ناگزیر جزو ہے اور نہ ہم کسی رنگ کے اس قدر محتاج ہیں کہ ہمارا احتیاج شرعی ضرورت کا درجہ اختیار کرلے ۔اگر اس رنگ کی تیاری میں کسی بھی مرحلے میں الکحل کااستعمال نہ ہو تو پھر اس کا بیرونی استعمال تو جائز ہوگا،مگرخوردنی استعمال پھر بھی نا جائز رہے گا،جس کی تفصیل یہ ہے کہ اشیاء کی چند قسمیںہیں: 
۱ :…  جمادات ۔۲ :…  نباتات۔۳ :…  مائعات۔۴ :…  حیوانات
 حیوانا ت پھر دو قسموں میں تقسیم کئے جاتے ہیں:
۱ :…  بحری۔۲ :…  بری۔
بری جانوروں کی پھر تین بڑی بڑی قسمیں ہیں:
۱: …  جن میں بہتا ہوا خون ہو ۔۲ :…  جن میں خون تو ہو لیکن بہنے والا نہ ہو ۔
۳ :… اور جن میں سرے سے خون ہی نہ ہو۔
’’وأما الذی یعیش فی البر فأنواع ثلثۃ:مالیس لہ دم أصلا،وما لیس لہ دم سائل۔۔۔وما لہ دم سائل۔۔۔‘‘۔
               ( ہندیۃ: الباب الثانی فی بیان ما یؤکل من الحیوان ،ص:۲۸۹،ج:۵،ط:کوئٹہ)            کوچنیل ایک کیڑا ہے جس میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا ہے، اس لئے اس کا تعلق اس دوسری قسم سے ہے۔حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
 ’’حشرات کو غیر ذی دم مسفوح مانا گیاہے‘‘۔      (بہشتی زیور ،نواں حصہ،ص:۱۰۶)
کوچنیل کی نوعیت متعین ہونے کے بعد اب اس کے متعلق دو سوالات حل طلب ہیں:
۱ :…  کیا ’’کوچنیل ‘‘پاک ہے؟۲ :…  کیا ’’کوچنیل ‘‘حلال ہے؟
طہارت اور حلت کے عنوان سے دوالگ سوالات اس لئے قائم کئے گئے ہیںکہ دونوں ہم معنیٰ تعبیریں اور مترادف اصطلاحات نہیں ہیں ۔ممکن ہے بلکہ امر واقعہ ہے کہ بعض جانور پاک تو ہوتے ہیں، مگر حلال نہیں ہوتے ہیں،جیسا کہ پانی میں رہنے والے جانوروں کا حال ہے کہ وہ پاک تو ہیں، مگر سب کے سب حلال نہیں ہیں ۔کوچنیل بھی پاک ہے، کیونکہ اس میں بہتا ہوا خون نہیں ہوتا ہے،مگر حرام بھی ہے، کیونکہ اس میں’’ خبث ـ‘‘ کی علت پائی جاتی ہے۔گویا ایک علت سے کوچنیل پاک ہے اور دوسری علت سے حرام ہے ۔پاک ہونے کی وجہ سے اگر یہ کیڑا پانی میں گر جائے یا گر کر مر جائے تو اس سے پانی ناپاک نہیںہوتااور اس کا جسم پر بیرونی استعمال بھی جائز ہے، مگر خبث کی وجہ سے یہ کیڑا حرام ہے اور اس کا کھانا جائز نہیں۔ 
فتاویٰ رحیمیہ میں ایک ایسا فتوی درج ہے جو لگتا ہے کہ کوچینل ہی کے متعلق ہے، صرف نام کی صراحت نہیں ہے:
 سوال:  یہاں دکانوں میں لال شربت ملتا ہے،اس کے اندر جو سرخی اور لالی ہوتی ہے وہ ایک قسم کی مکھی سے کشید کی جاتی ہے۔اس مکھی کو پیس کر یا کسی اور طریقہ سے سرخی کشید کرتے ہیں اور اس کو شربت میں ملاتے ہیںتو اس شربت کا پینا کیسا ہے؟
الجواب:  ’’مکھی اور چیونٹی میں دم سائل نہیں ہے، اس لئے پاک ہے، مگر کھانا حلال نہیں، خارجی استعمال درست ہے،داخلی استعمال درست نہیں،لہٰذا اس کا کوئی جزء شربت میں پڑتا ہوتو اس کا استعمال جائز نہ ہوگا۔‘‘     (کتاب الحظروالإباحۃ،باب ما یجوز أکلہ ومالا یجوز، ص:۱۳۸،ج:۹،ط:دارالإشاعت)
بہشتی زیور میں بھی یہی بات کہی گئی ہے:
’’کیڑے مکوڑے اور خشکی کے جملہ وہ جانور جن میں دم سائل نہ ہو،پاک ہیں، جیسے حشرات الارض بچھو ،تیتے،چھوٹی چھپکلی جس میں دم سائل نہ ہو،چھوٹا سانپ جس میں دم سائل نہ ہو،خارجاً ان کا استعمال ہر طرح درست ہے اور داخلاً سب حرام ہیں،سوائے ٹڈی کے۔‘‘ 
                                       (بہشتی زیور ،نواں حصہ، ص۱۰۴ط:میر محمد کتب خانہ)
عربی فتاویٰ جات میںبھی حشرات کوپاک لکھا ہے اور ان کے کھانے کو حرام کہا گیاہے:
’’واعلم أن کل مالا یفسد ماء لا یفسد غیر الماء وھو الأصح کذا فی المحیط والتحفۃ والأشبہ بالفقہ کذا فی البدائع،لکن یحرم أکل ھذھ الحیوانات المذکورۃ،وما عدی السمک الغیر الطافی لفساد الغزاء وخبثہ متفسخاأو غیرہ وقدمناہ عن التجنیس‘‘۔
                                             (البحرالرائق :کتاب الطہارۃ، ص:۱۶۴ج:۱،ط :مکتبہ رشیدیۃ، کوئٹہ)
(ویکرہ أکل الضبع۔۔۔والحشرات کلھا)والظاھر أن الحشرات کلھا من الخبائث۔ (فتح القدیر:کتاب الذبائح، فصل فیما یحل أکلہ ومالا یحل،ص:۵۱۱،۵۱۳،ج:۹ط:دار الکتب العلمیۃ)
’’وموت ما لیس لہ نفس سائلۃفی الماء لاینجسہ کالبق والذباب والزنابیر والعقارب ونحوھا‘‘۔
                                  (الھندیۃ:الباب الثالث فی المیاہ ،الفصل الثانی ،ص:۲۴ج:۱،ط:کوئٹہ)
’’۔۔۔وما لیس لہ دم سائل کالبق والذباب)لأن النجس ھو الدم المسفوح‘‘۔                     (السعایۃ، کتاب الطھارۃ،ص:۳۵۴،۳۵۶،ج:۱،ط:سہیل اکیڈمی)
’’وکذلک مالیس لہ دم سائل مثل الحیۃ والوزغ وسام أبرص وجمیع حشرات الأرض وھوامّ الأرض من الفارۃ و القراد و القنافذ والضب و الیربوع وابن عرس ونحوھا‘‘۔(بدائع:الذبائح والصیود ،ص:۳۶،ج:۵،ط:مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)
’’فما لا دم لہ أصلا مثل الجراد والزنبور والذباب والعنکبوت والخنفساء والعقرب والببغاء ونحوھا لا یحل أکلہ إلا الجراد خاصۃ‘‘۔   
                                              (ہندیۃ:الباب الثانی فی بیان ما یؤکل من الحیوان ،ص:۲۸۹،ج:۵،کوئٹہ)           
    کیڑے طبعی طور پر مرغوب نہیں ہوتے ہیں، سلیم طبیعتوں کو ان کے کھانے سے گھن آتی ہے۔ جن چیزوں سے ذوقِ سلیم اور طبع مستقیم کوکراہت محسوس ہو ،وہ شرعاً بھی ناجائز ہوتی ہیں۔تنقیح ا لفتاوی الحامدیہ میں ہے:
’’ضبط أھل الفقہ حرمۃ التناول إما بالإسکارکالبنج وإما بالإضرار بالبدن کالتراب والتریاق أو بالإستقذارکالمخاط والبزاق وھذا کلہ فیما کان طاھراً‘‘ ۔                          (ص:۳۶۳،ج:۲،ط:المکتبۃ الحبیبیۃ)
’’ولایحل ذوناب یصید بنابہ ۔۔۔ولاالحشرات)ھی صغار دواب الأرض واحدھا حشرۃ۔۔۔ ثم قال:والخبیث ما تستخبثہ الطباع السلیمۃ۔۔۔وتحتہ فی الرد:قال فی معراج الدرایۃ:أجمع العلماء علی أن المستخبث حرام بالنص وھو قولہ تعالی:ویحرم علیھم الخبائث۔۔۔‘‘۔ 
                                        (رد المحتار، کتاب الذبائح، ص:۳۰۵،۳۰۶،ج:۶،ط:ایچ ایم سعید )
’’وحل غراب الزرع ۔۔۔لا الأبقع۔۔۔والحشرات۔۔۔یعنی ھذہ الأشیاء لاتوکل۔۔۔والحشرات فلأنھا من الخبائث وقد قال تعالٰی۔:ویحرم علیھم الخبائث۔۔۔‘‘۔               (البحرالرائق ،کتاب الذبائح،ص:۱۷۲،ج:۸،ط:رشیدیہ)
یہی مضمون’’ بہشتی زیور‘‘ میں بھی ہے:
’’جاننا چاہئے کہ شریعت مطہرہ میں استعمال کے منع ہونے کی وجہیںچار ہیں: نجاست۔۔۔مضر ہونا ۔۔۔استخباث، یعنی طبیعت سلیمہ کا اس سے گھن کرنا، جیسے کیڑے مکوڑوں میں،اور نشہ لانا‘‘۔                                              (بہشتی زیور ،نواں حصہ، ص:۹۸،میر محمد کتب خانہ)
مذکورہ بالا عبارت سے کچھ پہلے ایک دوسرے مقام پر ہے:
’’۔۔۔اسی طرح سرکہ کو مع کیڑوں کے کھانا یا کسی معجون وغیرہ کو جس میں کیڑے پڑگئے ہوں،مع کیڑوںکے یامٹھائی کومع چیونٹیوںکے کھانا درست نہیںاور کیڑے نکال کر درست ہے۔‘‘
                    ( بہشتی زیور،نواں حصہ،ص:۱۰۴)        فتاویٰ مظاہر العلوم میں ہے:
’’مکھی غیر ذی دم مسفوح ہے، لہٰذا جب سالن میں گر جاتی ہے تو اس کے مرنے سے سالن ناپاک نہیں ہوتا ۔لہذا اس سالن کا کھانا شرعاً جائز قرار پایا ،اور چونکہ مکھی منجملہ خبائث کے ہے اور تمام خبائث کا کھانا حرام ہے ،لہٰذا مکھی کا کھانا اور کھلانا حرام ہوگا۔
                             (کتاب الحظر والإباحۃ،باب الأکل والشرب، ص:۲۹۸،ج:۱،ط:مکتبۃ الشیخ)
اگر چہ کھانے پینے کی اشیاء میں اس رنگ کا استعمال اب عام ہے، مگر اس کی بڑی وجہ اس رنگ کی اصلیت سے لوگوں کی بے خبری اور ناواقفیت ہے۔جن لوگوں کو اس کی حقیقت اور حکم معلوم ہوگیا ہے، انہوںنے احتیاط برتنا بھی شروع کردی ہے۔مغربی دنیا اگر دانستہ اس کا استعمال کررہی ہے تو ان کی طبائع کا اعتبار ہے اور نہ ہی ان کا عمل ہمارے لئے حجت ہے۔ مسلمانوں میں سے بھی جن لوگوں نے لذتِ کام ودہن کو مقصد زندگی بنالیا ہے، ہم دیکھتے ہیںکہ وہ ہرحد کو عبور اور ہررکاوٹ کو پھلانگتے ہیںتو پھر غیروں سے کیا گلہ ؟کس بات کا شکوہ ؟ایسے لوگوں کے متعلق بس یہی کہا جاسکتا ہے:  
    ’’ذَرْھُمْ یَأْ کُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْاوَیُلْہِہِمُ الْأَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ‘‘۔ ( الآیۃ)
ترجمہ:۔’’چھوڑ دے ان کو کھا لیں اور برت لیں اور امید میں لگے رہیں، سو آئندہ معلوم کر لیں گے‘‘۔    
خبث کے علاوہ کوچنیل میں ایک اور وجہ بھی حرمت کی پائی جارہی ہے۔پیچھے گذر چکاہے کہ حشرات میں دم غیر مسفوح ہوتا ہے اور دم غیر مسفوح پاک تو ہے، مگر اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔بہشتی زیور میں ہے:
’’مذبوح جانور کی گردن میں موضع ذبح پر جو خون لگا ہوتا ہے وہ دم مسفوح ہے،بلا دھوئے اور خون چھوٹے طہارت نہیں ہوسکتی۔ہاں جو خون رگوں کے اندر یا جلد وغیرہ میںرہ جاتا ہے وہ غیر مسفوح ہے اور دفعاً للحرج کھانے میں بھی مضائقہ نہیںاور سوائے اس کے اور خون غیر مسفوح پاک تو ضرور ہیں، مگر داخلا ًجائز نہیں،جیسے کوئی کھٹمل کا خون کھانا چاہے۔‘‘ 
                                                    (بہشتی زیور ،نواںحصہ ،ص:۱۰۶،میر محمدکتب خانہ)
’’خبث‘‘ اور’’ دم غیر سائل‘‘ کے علاوہ مذکورہ رنگ میں’’ مضرت‘‘ کا پہلو بھی پایا جا تا ہے۔ایسے واقعات سامنے آئے ہیںجن میں مذکورہ رنگ کے استعمال سے لوگ الرجی اور دمہ کا شکار ہوئے ہیں۔برطانیہ کی(HASCG)نامی تنظیم بچوں کے لئے اس رنگ کے استعمال کو منع کرتی ہے:
"Important E-Numbers to Avoid:
Some countries have displayed a more responsible attitude and, as you will see from the lists below, have banned certain substances.....Any substance marked with * means that it is derived from animals (mostly pigs) and should be avoided if a child has pork allergies.
Colourant E numbers banned in some countries:
..., E120* Cochineal, red colour, ..."
(http://www.safekids.co.uk/enumberstoavoid.html)
"E120 Cochineal, Carminic acid, Carmines 
Red colour; made from insects; rarely used; the HASCG recommends to avoid it, especially hyperactives, rhinitis sufferers, urticaria, asthmatics and aspirin cause of allergic reactions. Typical products includealcoholic beverages, dyed cheeses, puddings, icings, sweets, sauces, fizzy drinks, cakes, soups and pie fillings. Banned in USA."    (http://mbm.net.au/health/100-181.htm)
The World Health Organisation has found that cochineal extract may cause asthma in some people. Others may see an allergic reaction.
(http://www.dailymail.co.uk/femail/article-2120796
/Starbucks-admits-Strawberry-Frappuccino
-contains-crushed-bugs.html)
اگر چہ دمہ اور الرجی کاباعث بننے سے مذکورہ رنگ کا ’’ضرر رساں ‘‘ہونا ثابت ہوتا ہے، مگر ایسے واقعات تعداد میں کم ہیں، اس لئے ان سے صرفِ نظر کیا جاسکتا ہے۔تاہم اگر مضرت کے پہلو سے صر فِ نظر کرلیاجائے توقانون’’ سدّ باب ‘‘ کو نظر انداز کرناممکن نہیں ہے،کیوں کہ کیڑے مکوڑے ایسی مخلوق ہیں جن کی انواع دیگر جان داروںکے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں ۔اس وقت لاکھوں کی تعداد میں کیڑوںکی انواع دریافت ہوچکی ہیں،جن میںسے ہزار بارہ سو کے قریب کیڑوںسے غذائیت بھی حاصل کی جارہی ہے۔’’کوچنیل ‘‘کو جائز کہنے کا مطلب ان سب کو ’’سند حلت‘‘ عطا کرنا ہے،کیونکہ جس بنیاد پر کوچنیل کو جائز کہا جائے گا، وہ بنیاد ان دوسرے کیڑوںمیںبھی پائی جارہی ہے،بلکہ یہ دوسرے کیڑے خوراک کا ذریعہ ہونے کی بناء پر کوچنیل سے زیادہ حلت کا استحقاق رکھتے ہیں۔کوچنیل تو نہ دوا ہے، نہ غذا ہے بلکہ صرف رنگ کے حصول کا ذریعہ ہے ۔
کوچنیل کی حلت کی سب سے مضبوط دلیل یہ ہوسکتی ہے کہ ’’اب اس کا استعمال عام ہے اور اس سے احتراز بہت مشکل ہے‘‘ مگر صرف اس قدر کافی نہیں ہے، ساتھ یہ ثابت کرنابھی ضروری ہے کہ’’جن اشیاء میں یہ رنگ استعمال ہوتا ہے، وہ ہمارے معاشرے کی ضرورت ہیں۔‘‘وجہ یہ ہے کہ جو چیز معاشرے کی ضرورت ہو،اسے حرام کہنے سے لوگ سخت تنگی میں پڑجاتے ہیں،ایسے موقع پر اہل علم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ غور کریں کہ :
۱  …  واقعی ضرورت ایک حقیقی ضرورت ہے؟۔
۲  …  اور اس کا کوئی جائز متبادل موجود ہے یا نہیں؟۔
واقعہ یہ ہے کہ رنگ بہ حیثیت رنگ ہونے کے کوئی شرعی ضرورت نہیں ہے۔شاید ہی کوئی انسان کسی کالے پیلے یا سرخ نیلے کامحتاج ہو۔اور اگر واقعتا کوئی رنگ ہماری ضرورت ہوتو پہلے جائز طریقے سے ضرورت پوری کرنی کوشش کی جائے گی۔کوچنیل کا جائز متبادل موجود ہے۔سرخ رنگ چقندر اور انگور وغیرہ کئی اشیاء سے کشید کیا جاتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کوچنیل میں تیز سرخی ہوتی ہے ۔مگر اس تیزی کا فائدہ کیا ہے؟یہی کہ اس سے پروڈکٹ خوش رنگ اور خوش نما معلوم ہوتا ہے اورانسان کے جمالیاتی ذوق کی تسکین ہوتی ہے۔مگر حسِ لطیف کی تسکین، نظر کی عشرت اور باصرہ کی لذت کوئی شرعی ضرورت ہے؟ یقینا جواب نفی میں ہے۔
اس تفصیل کے بعد آپ کے سوالات کا مختصر جواب یہ ہے کہ:
۱  …  کوچنیل سے حاصل کردہ رنگ پاک ہے۔
۲  …  کھانے پینے میں کوچنیل کا استعمال ناجائز ہے۔
۳  …  میک اپ کے سامان میںکوچنیل کا استعمال جائز ہے۔


 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین