بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مروجہ اسلامی بینک اور ڈیجیٹل تصویر کی حرمت اور حضرت شیخ مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ کا کردار!


مروجہ اسلامی بینک اور ڈیجیٹل تصویر کی حرمت
اور حضرت شیخ مولانا سلیم اللہ خان رحمہ اللہ  کا کردار!

 

یہ مضمون ماہ نامہ ’’الفاروق‘‘ کی خصوصی اشاعت کے لیے مرسلہ عنوان پر لکھا گیا تھا۔ ادارہ ’’الفاروق‘‘ کی اجازت سے ماہ نامہ ’’بینات‘‘ میں شامل کیا جارہا ہے، فجزاہم اللّٰہ خیراً۔        (راقم الحروف)

 

شیخ المشائخ ، استاذ الاساتذہ، سرخیلِ علماء حق، پاسبانِ مسلکِ دیوبند، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیv کے فکری وعملی جانشین، حق گوئی وبے باکی کی نادر مثال، عزم واستقلال کے اعلیٰ نشان، حزم واحتیاط کے کوہِ گراں، خود ارادیت کی پہچان، قوتِ ارادی کی چٹان، علم کے بحرِ مواج، درس کے سیلِ رواں، قافلۂ اہلِ حق کے حدی خواں، وفاق المدارس کے نگہبان، افکارِ سلف کے ترجمان، تمسّک بالدین اور تصلُّب فی الحق کے آسمان، حضرت مولانا سلیم اللہ خان  رحمہٗ اللّٰہ رحمۃً واسعۃً  مؤرخہ ۱۷؍ ربیع الثانی۱۴۳۸ھ مطابق ۱۵؍ جنوری۲۰۱۷ء کو حیاتِ مستعار کی مقدر ساعتیں پوری فرماکر راہیِ آخرت ہوگئے اور اپنے پیچھے سینکڑوں سنہرے کارنامے اور ہزاروں یادیں چھوڑگئے، جو تاقیامت آپؒ کا صدقہ جاریہ اور اہلِ حق کے لیے اُسوۂ حسنہ کے طور پر جاری اور زندہ رہیں گی، ان شاء اللہ! ۔
بالخصوص آپ کی حیاتِ جاوداں کے آخری چند عشرے ایسے تابناک ہیں کہ اس عرصے میں حضرت شیخv کے معاصر اور اکابر اپنی آخرت سدھار گئے تھے، مثلاً: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی، حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری، حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی اور حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی w جیسے جبال العلم تھے، ان اکابر کی رحلت کے بعد قافلۂ اہل حق‘ علماء دیوبند کی سرپرستی، رہنمائی اور نگہبانی کی منقسم ذمہ داریاں آپ کی شخصیت میں یکجا ہوچکی تھیں۔ دفاعِ دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کے جن جن محاذوں پر اکابراجتماعی یا انفرادی کردار چھوڑ گئے تھے، ان کی ساری ذمہ داریاں حضرت شیخ کے عزم واستقلال کے سپرد ہوگئیں تھیں۔ 
وفاق المدارس کی نگہبانی ہو یا مدارس کی حریتِ فکر و عمل کی ترجمانی، احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ ہو یا مسلکِ دیوبند کی فکری اِکائیوں کا تحفُّظ وشیرازہ بندی، سلف بیزاری کی روک تھام ہو یا جدیدیت واباحیت کے سامنے بند باندھنے کی حمیت وجرأت، ان سارے میدانوں میں حضرت شیخ نے اکابر علماء دیوبند کے انفرادی اور اجتماعی کردار کو ایک ’’جماعت‘‘ اور ’’اُمت‘‘ بن کر نبھایا اور الحمد للہ! خوب خوب نبھایا، ایک جماعت نہیں، کئی جماعتوں کے کردار کو اکیلے نبھانے والی اس ہستی کے مختلف گوشہائے زندگی پر مختلف اہلِ علم اور حضرت کے عقیدت کیش اپنے اپنے فرائض سے سبکدوش ہوتے رہیں گے۔ میں اپنی علمی بے بضاعتی اور اظہار مافی الضمیر کے قصور کے پیشگی اعتراف واعتذار کے ساتھ آپ کی زندگی کے ایک گوشے کی ایک جھلک بطورِ نمونہ پیش کرنے کی کوشش کروں گا، یہ وہ گوشہ ہے جہاں اہلِ علم کا علم خاموش تھا، اہلِ قلم کے قلم بھی بے حس وحرکت تھے، دینی حمیت  مروت تلے دبی جارہی تھی، علماء دیوبند کی حق گوئی کا تسلسل خطروں سے دوچار تھا، دینی تصلُّب کی شناخت گرد آلود ہوتی جارہی تھی، جدیدیت واباحیَّت‘ دینی لبادہ اوڑھے چار سو پھیلے جارہی تھی، روایت وقدامت کو فرسودگی قراردیا جارہا تھا اورفکروعمل کی بے راہ روی کو عصری تقاضا کہہ کر رواج دیا جارہا تھا، ایسے ماحول میں اکابر علماء دیوبند کی اس آخری نشانی نے اہلِ علم کو متوجہ کیا، ان کی سرپرستی فرمائی اور نام نہاد اسلامی بینکوں کے غیرشرعی معاملات اور ڈیجیٹل تصویر کا فقہی حکم واضح کرنے کا حکم دیا اور ان اُمور کے بھیانک نتائج کا جائزہ لینے کے لیے پہلے کراچی پھر ملکی سطح پر اہل علم اور اربابِ فتویٰ کی مختلف فقہی مجالس کروائیں اور خود تمام مجالس کی سرپرستی فرمائی۔ میں ان مجلسوں کے حوالے سے حضرت کے کردار کے چند گوشوں سے نقاب کشائی کی کوشش کروں گا۔
اہلِ علم جانتے ہیں کہ روایتی بینکنگ کی اسلام کاری اور جدید ذرائع ابلاغ میں منظر بندی کا عمل اور اس کے فنی طریقے تقریباً نصف صدی سے علمی حلقوں میں زیرِ بحث چلے آرہے ہیں، اس بابت بعض علماء عرب کی تحقیقات وتدقیقات اور ہمارے اکابر کے تأثرات ورجحانات بھی تقریباً محفوظ ومرتب ہیں، اہلِ علم ان سے بخوبی واقف ہیں۔ 
۱۹۹۰ء تک بینکوں کی اسلام کاری اور جدید آلات کے ذریعہ منظر بندی اور تصویر کشی سے متعلق ہمارے اکابر اہل علم اور اربابِ فتویٰ کا موقف انتہائی واضح اور دو ٹوک رہا ہے کہ شروع سے ۱۹۹۰ء تک بینکوں کی اسلام کاری اور آلات کی تبدیلی کی وجہ سے تصویر کشی کے عمل کے جواز کی جو جو سرگرمیاں سرکاری یا نجی طور پر مروج ومتعارف کرائی گئی ہیں، ان میں فقہی احکام اور شرعی تقاضے مکمل طور پر ملحوظ نہیں رکھے گئے تھے، اس لیے اکابر اہلِ فتویٰ نے ان کوششوں سے کبھی اتفاق نہیں کیا، بلکہ بلاتأمل اپنے احتیاطی ردِ عمل سے عوام الناس کو آگاہ فرمادیا تھا، مگر یہی کوشش جب ۱۹۹۰ء کے بعد ملک کے بعض معتبر، متدین اور معروف اہلِ فتویٰ نے نجی طور پر شروع فرمائی اور اس کے لیے مختلف اوقات میں مختلف مجالس بھی منعقد ہوئیں، یہ ایسے اہلِ علم تھے کہ جن کے فتاویٰ پر عوام وخواص کا اعتماد چلا آرہا تھا، اس لیے ان اہل علم کی کوششوں اور محنتوں سے متعلق دیگر اہلِ علم اور عوام الناس اعتماد کرتے ہوئے انتظار کرنے لگے کہ شاید کوئی حقیقی تبدیلی رونما ہو‘ اور ہمارے ان اکابر کو اپنے نیک مقاصد میں ایسی کامیابی ملے، جس کا ثمر پوری پاکستانی قوم کو نصیب ہو، اور اہل علم بھی مسلم قوم کے سامنے ایک بڑے فریضہ کی انجام دہی میں سرخرو ہوں۔ اس انتظار انتظار میں رفتہ رفتہ اسلامی بینک کاری اپنی ابتدائی عبوری وضعی حالت میں فروغ پانے لگی اور پھر ۱۱/۹ کے حادثے کے بعد میڈیائی وار کے مقابلے کے لیے اسلامی چینلز کے اجراء کے تقاضے سامنے آنے لگے، پھر اس ضمن میں ڈیجیٹل تصویر کے فنی اور تیکنیکی امور کی وجہ سے اس کا تصویر ہونا اور نہ ہونا زیرِ بحث آگیا اور اہلِ علم کی دو رائے سامنے لائی گئی۔ ایک رائے ڈیجیٹل تصویر کو تصویر کہنے والوں کی اور دوسری رائے ڈیجیٹل تصویر کو ’’تصویر‘‘ کہتے ہوئے تصویر نہ ماننے والے علماء کرام کی تھی۔
اب اہلِ علم جہاں بھی جائیں وہاں یہ سوال ضروراُٹھتا تھا کہ مروجہ اسلامی بینک اور ڈیجیٹل تصویر کا کیا حکم ہے؟ ہر دارالافتاء میں اس قسم کے سوالات بکثرت آنا شروع ہوگئے تھے۔ عوام بار بار اپنی پریشانیاں لے کر آتے تھے کہ دونوں قسم کے بینک عملاً ایک ہی کام کررہے ہیں، ان کی کارکردگی میں ’’خفیہ شرعی فرق‘‘ ہمیں دکھایا جائے، اس سوال پر ہر دارالافتاء کے اہلِ فتویٰ مستفتی سے زیادہ پریشان ہوجاتے تھے، بعض تو معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اور بعض مجوزین حضرات کے احترام واحتشام کی وجہ سے، ان کی رائے کے خلاف رائے دینے کی ہمت نہیں کرپارہے تھے، اور جب کہ اسلامی بینکوں کی حمایت کرنے میں فقہی اعتبار سے شرح صدر بھی نہیں ہوتا تھا۔ بعض اہلِ فتویٰ ایسے مستفتی کو مجوزین کی طرف محول کردیتے تھے، مگر ایک کے بعد کئی اور آجاتے، گومگو کی اس کیفیت سے نکلنے کے لیے کراچی کی سطح پر مجوزین حضرات کے ساتھ ان کے بعض نمائندوں کی وساطت سے غالباً ۲۰۰۷ء کے اواخر میں کچھ مجالس بھی ہوئیں، جنہیں تعارفی مجالس کا عنوان دیا گیا تھا اور اشکالات وجوابات کے ذریعہ کسی نتیجے تک رسائی پھر بھی نہیں ہوسکی تھی۔
 ان تعارفی مجالس میں دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے نائب رئیس دارالافتاء حضرت مولانا مفتی محمد عبدالمجید دین پوری شہیدv اپنے چند رفقاء کے ہمراہ بنفسِ نفیس شریک ہوئے تھے۔ اسلامی بینک کاری کی اس تعارفی مجلس کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اس کے بعد حضرت مفتی صاحب شہید نور اللہ مرقدہٗ نے مروجہ اسلامی بینک کاری کے فقہی پہلؤوں کا از سرِنو بغور جائزہ لیا اور رفقاء دارالافتاء کے ساتھ مشاورتی سلسلوں کے بعد مروجہ اسلامی بینک کاری کے غیراسلامی ہونے کا واضح فتویٰ دارالافتاء بنوری ٹاؤن سے بلاتأمل جاری فرمانا شروع کردیا۔ بنوری ٹاؤن کے حلقوں میں اور منسلک لوگوں میں یہ رائے پہنچنا شروع ہوچکی تھی، مگر اس رائے کے پرچار کے لیے جوازی فتویٰ جیسا کوئی طریقہ زیرِعمل نہیں آسکا تھا، اس لیے یہ رائے معمولی رفتار سے ہی عام ہورہی تھی۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا، یہاں تک کہ ۸؍ جمادیٰ الاولیٰ ۱۴۲۹ھ مطابق ۱۵؍ مئی۲۰۰۸ء کو جامعہ کے ششماہی امتحانات کے دوران حضرت مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدv نے بلوایا اور مسرت آمیز انداز میں فرمایا کہ: حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب (v) کا فون آیا تھا، ان کا ارشاد ہے کہ اسلامی بینک کاری اور اسلامی چینل وغیرہ کے حوالے سے مشاورت کرنی ہے، آپ فلاں وقت باب الرحمت مسجد دفتر ختم نبوت پرانی نمائش کراچی تشریف لے آئیں۔ حضرت مفتی صاحب نے راقم اثیم کو اپنے ساتھ چلنے کے لیے فرمایا، چنانچہ ہم مقررہ وقت پر وہاں پہنچے اور حضرت شیخv ہم سے پہلے وہاں تشریف فرما تھے، دیگر مدعو اہل علم بھی تقریباً حضرت کی تشریف آوری کے بعد ہی حاضر ہوتے رہے۔ حضرت شیخv سے بالمشافہہ پہلی ملاقات تھی، مگر اس پہلی ملاقات نے عملی زندگی کے کئی اصولوں کا خاموش سبق دے دیا، جن کی تفصیل میں جانے سے شاید میری گزارشات اپنے عنوان سے دور ہوتی چلی جائیں گی، اس لیے اس مجلس کے ایجنڈے سے متعلق حضرت کے ارشاد اپنے ذاکرہ سے صفحۂ قرطاس پر اُتارنے کی کوشش کرتا ہوں۔
حضرتؒ نے فرمایا کہ: مروجہ اسلامی بینک کاری وغیرہ کے حوالے سے عوام وخواص میں زبردست قسم کی تشویش پائی جارہی ہے۔ ہم اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک جہاں بھی جاتے ہیں، لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں کہ اسلامی بینک کاری کے نام سے جو معاملات چل رہے ہیں، یہ صحیح ہیں یا غلط ہیں؟ عوام وخواص کی تشویش کی بنیادی وجہ سودی اور غیرسودی بینکوں کے معاملات کی یکسانیت ہے۔ دوسری طرف بعض اہلِ علم کا جوازی فتویٰ بھی موجود ہے۔ اس صورت حال میں ہم آپ کی رائے اور تحقیق جاننا چاہتے ہیں، چنانچہ وہاں پر موجود اہلِ علم نے اپنی اپنی آراء کااظہار فرمایا اور بنیادی تفصیلی گفتگو حضرت مفتی عبدالمجید صاحبv نے فرمائی، جن سے حضرت شیخv خوب مطمئن اور محظوظ ہوئے، اور ارشاد فرمایا کہ: ہمیں اس سلسلے میں اپنی رائے کا باضابطہ تحریری شکل میں اظہار کردینا چاہیے، تاکہ عوام وخواص میں ہماری خاموشی کی وجہ سے پائی جانے والی تشویش کا ازالہ ہو اور ایک فقہی مسئلہ کی واقعی حقیقت عوام کے سامنے آجائے، اس لیے ہماری مشاورت کا سلسلہ آگے بڑھنا چاہیے اور اس کے لیے اگلا اجلاس ہمارے ہاں جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی میں ہوگا۔ یہ اجلاس قریبی تاریخ اوروقت میں منعقد ہوا، جس میں شہر کے متعدد اہلِ فتویٰ کو مدعو فرمایا گیا تھا، جن میں شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا زرولی خان صاحب، حضرت مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ، حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ، حضرت مولانا منظور احمد مینگل، حضرت مولانا مفتی حبیب اللہ شیخ، حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب وغیرہ شامل تھے۔ اس اجلاس میں حضرت شیخv نے فرمایا کہ: گزشتہ مجلس میں ہم نے آپ حضرات کی آراء سنیں اور سب نے اپنی اپنی تحقیقات بیان فرمائی تھیں، میری رائے میں مفتی عبدالمجید صاحبؒ نے بینک کاری کے موضوع پر وقیع گفتگو فرمائی تھی، ان کی فنی مناسبت اور فقہی ممارست کی بناپر اسلامی بینک کاری کے حوالے سے اجتماعی فتویٰ کا متن تیار کرنے کی بنیادی ذمہ داری اُنہیں سونپی جائے، دیگر اہلِ علم حسبِ موقع معاونت ومشاورت میں شریک رہیں۔ حضرتؒ کے اصرار اور اہلِ مجلس کے اتفاق سے ایسا ہی ہوا اور متفقہ فتویٰ کی ترتیب حضرت مفتی عبدالمجیدv کے سپرد ہوئی، اس کے بعد ابتدائی خاکہ جب تیار ہواتو فتویٰ کا انداز اور تحقیق کا اسلوب وغیرہ جانچنے کے لیے حضرت نے ابتدائی دستی مسودے سمیت حاضر ہونے کا حکم فرمایا، جسے لے کر حسبِ ارشاد حاضر ہوئے، حضرتؒ نے مسودے کی خواندگی فرمائی اور ہر اعتبار سے اطمینان کا اظہار فرمایا اور مفوضہ کام جلد از جلد پورا کرنے کے لیے تاکید فرمائی۔ مسودے کی ترتیب کے دوران حضرت شیخv مستقل رابطے میں رہے اور بدستور سرپرستی فرماتے رہے اور ساری کارگزاری سے آگاہی حاصل فرماتے رہے۔ حضرتؒ کی بدستور سرپرستی، دلچسپی اور توجہ وتصرف ہی کا نتیجہ تھا کہ یہ مسودہ چند ماہ کے اندر اندر سینکڑوں صفحات میں تیار ہوکر اہلِ علم کی تصحیح وتصویب کے لیے تیار ہوگیا، جس پر حضرت شیخ v نے اپنے وقیع تأثرات بھی رقم فرمائے، جس میں سے درج بالا مضمون حضرت کے الفاظ میں ملاحظہ فرماتے جائیں:
’’اسلامی بینک کاری کے حوالے سے پاکستان اور باہر دوسرے ممالک میں تشویش تھی۔ علمائ، اصحابِ فتویٰ، تجارت پیشہ حضرات اور عوام سب ہی ہم سے پوچھتے تھے کہ یہ کیسی اسلامی بینک کاری ہے؟ ہمیں تو سودی کاروبار کرنے والی بینکوں میں اور مروجہ اسلامی بینکوں میں کوئی فرق نظر نہیں آیا؟ ادھر ہمارے ملک کے مختلف دارالافتاء بھی باوجود یہ کہ اس اسلامی بینک کاری کے خلافِ شرع ہونے کا فتویٰ اپنی اپنی جگہ دے رہے تھے، لیکن اجتماعی فتویٰ نہ ہونے کی وجہ سے تشویش موجود تھی، احقر نے علامہ بنوری ٹاؤن کے اصحابِ فتویٰ، جامعہ فاروقیہ کراچی کے مفتیوں، جناب مولانا مفتی حبیب اللہ شیخ، مولانا مفتی احمد ممتاز جامعہ خلفاء راشدین کے مفتی (خلیفہ مجاز حضرت مولانا حکیم محمد اختر مدظلہٗ) سے درخواست کی کہ وہ اس مسئلے کی تحقیق کریں۔
چنانچہ ان تمام اصحابِ فتویٰ کی مشاورت کا اہتمام کیا گیا اور اس سلسلے میں ان حضرات کی مختلف مجلسیں بھی ہوئیں۔ ان حضرات نے اپنا اپنا موقف اپنے دلائل، مشاہدات اور معلومات کی روشنی میں پیش کیا اور حسبِ ضرورت بعض ماہرینِ معاشیات سے مجلس ومشاورت کا سلسلہ بھی قائم رہا۔ اس مشاورتی سلسلے میں یہ بات بھی بطور خاص محسوس کی گئی کہ مروجہ اسلامی بینک کاری کے خلافِ شروع ہونے کا موقف اگرچہ ملک کے جمہور اہلِ فتویٰ کا ہے، مگر اس میں انفرادی فتووں اور تحریروں کے بجائے جامع اور مفصل تحریر بھی سامنے آنا ضروری ہے، چنانچہ یہ ذمہ داری حسبِ مشورہ حضرت مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری صاحب کی نگرانی میں ان کے رفقاء کو سونپی گئی۔ ماشاء اللہ! ان حضرات نے خوب محنت سے یہ تحریر مرتب کی، جس پر احقر حضرت مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری اور ان کے رفقاء ومعاونین کا بالخصوص اور دوسرے اصحابِ فتویٰ کا بالعموم مشکور ہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو حسنِ قبول عطا فرمائے اور ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے اور دوامِ عافیت اور تمامِ عافیت کا ذریعہ بنائے، آمین ثم آمین ۔‘‘ 
         (مروجہ اسلامی بینک کاری، تجزیاتی مطالعہ، ص:۱۸-۱۹،ط: مکتبہ بینات جامعہ بنوری ٹاؤن، کراچی)
جب مسودہ تیار ہوگیا تو اب اس کے لیے ملکی سطح پر اہلِ علم اور اربابِ فتویٰ کا مجوزہ اجتماع منعقد کرانا تھا، اس کے لیے مشاورتی اجلاس ہوا، جو ایک بار پھر دفتر ختم نبوت پرانی نمائش چورنگی میں منعقد ہوا، جس میں مذکورہ بالا علماء کرام مدعو تھے۔ اس اجلاس میں متفقہ فتویٰ کے اظہار واعلان کے لیے اجتماع کا انعقاد اور اس کا لائحہ عمل ہی بنیادی ایجنڈا تھا، مگر ہماری طرف سے یہاں ایک یہ نکتہ اُٹھایا گیا کہ بلاشبہ ہمارے پیشِ نظر محض اپنی رائے کا اظہار ہے، اس میں کسی کا مقابلہ یا معارضہ ہرگز نہیں ہے، اس پر ہمیں کسی سند کی ضرورت بھی نہیں، مگر ہماری رائے یہ ہے کہ ہم اپنی اس فقہی رائے کے اظہار سے قبل مجوزین حضرات سے ایک مجلس کرلیں اور اُنہیںباور کرادیں کہ ہم مروجہ اسلامی بینک کاری کے حوالے سے اپنی فقہی رائے کا اظہار کرنے جارہے ہیں، اس حوالے سے آپ حضرات کی رائے چونکہ پہلے سے مشہور ہوچکی ہے، آپ حضرات یا کوئی اور ہمارے اس فقہی اظہار کو معارضہ ومجادلہ نہ سمجھے، ہماری طرف سے یہ اصرار کیا گیا کہ بہرحال ہمیں یہ باور کرانا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مجوزین حضرات بھی ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں اور قابلِ احترام ہیں، وہ ہمارے فقہی اختلاف کو اپنی بے احترامی پر محمول نہ فرمائیں۔ ہماری یہ رائے ہمارے شرکاء مجلس نے جتنے غور سے سماعت فرمائی تھی‘ اس سے زیادہ سختی کے ساتھ رَد بھی فرمادی گئی اور سب حضرات نے یہی فرمایا کہ: جب وہ حضرات جواز کا فتویٰ جاری فرمارہے تھے، اس وقت انہوںنے کسی سے مشاورت کی زحمت نہیں فرمائی، انہوں نے اپنی رائے کے اظہار میں کسی کی اطلاع ومشاورت کو ضروری نہیں سمجھا تو ہمیں اس غیرضروری التزام کی کیا ضرورت ہے؟ ہر دارالافتاء ان کی طرح اپنی رائے کے اظہار میں آزاد ہے، مجوزین سے مشاورت واطلاع کی کوئی ضرورت اخلاقاً اور اصولاً نہیں ہے۔
حضرتؒ نے بھی شرکاء مجلس کی اس رائے سے اتفاق فرمایا اور اپنے بزرگانہ مقام پر جاکر یہاں تک فرمایا کہ: بھئی! (حضرت کے بیان کو اپنی تعبیر کے ساتھ عرض کررہا ہوں، اگرچہ حضرت کے الفاظ مجھے اچھی طرح یاد ہیں، وہ کلمات نقل کرنا میرے لیے شاید مناسب نہ ہوں، ان کے ارشاد کا مفہوم یہ تھا)ان لوگوںکے ساتھ مجلس اور مشاورت کا کوئی فائدہ نہیں، بلکہ اُلٹا نقصان ہوگا، اس لیے ان کو اپنے ارادے سے آگاہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، مگر ہم نے مکرر اصرار کے بعد اس ارادہ کی تکمیل کے لیے حضرتؒ اور شرکاء مجلس کو آمادہ کرلیا اور حضرتؒ بھی اپنی عادتِ حسنہ کے تحت اجتماعی رائے کے موافق ہوگئے اور مزید کرم نوازی فرمائی کہ اچھا پھر مجوزین حضرات کے بڑوں سے میرا تعلق اور رابطہ زیادہ ہے،پھر ان سے ملاقات کا وقت، تاریخ اور آپ حضرات کو اطلاع دینے کی خدمت میں اپنے ذمہ لے لیتا ہوں، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اگلے دن حضرت کا فون آیا کہ میری دارالعلوم والے حضرات سے بات ہوچکی ہے، میں نے ان حضرات کے سامنے اپنا ارادۂ ملاقات رکھا تو انہوںنے ارشاد فرمایا ہے کہ حضرت! (مولانا سلیم اللہ خان صاحب) آپ تشریف نہ لائیں، ہم آپ کے پاس حاضر ہوجاتے ہیں، اس لیے مجوزین حضرات کے بڑوں کے ساتھ مجوزہ ملاقات اب دارالعلوم کی بجائے ہمارے ہاں جامعہ فاروقیہ میں ہوگی، آپ حضرات فلاں دن عصر کی نماز ہمارے ہاں پڑھ لیں، اور عصر کے بعد مجوزہ مجلس ہوگی، لیکن جس دن ملاقات ہونی تھی‘ اسی دن صبح حضرتؒ کا فون آیا کہ آپ حضرات عصر سے ذرا پہلے آجائیں، کچھ مشاورت بھی کرنی ہے، حسبِ ارشاد جب قبل از عصر حاضر ہوئے تو حضرت مولانا زرولی خان صاحب، حضرت مفتی احمد ممتاز صاحب، حضرت مفتی حبیب اللہ شیخ صاحب اور جامعہ فاروقیہ کے کچھ حضرات بھی تشریف فرما تھے۔ حضرتؒ نے شرکاء مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایاکہ: آپ حضرات کو قدرے پہلے زحمت اس لیے دی ہے کہ آج عصر کے بعد مجھے ملتان جانے کے لیے ائیرپورٹ جانا ہے اور مجھے اس کی یاددہانی آج ہی کرائی گئی ہے، جبکہ میرے ذہن میں روانگی کا وقت آئندہ کل تھا، اس لیے میں نے مجوزہ مجلس کو مختصر وقت میں نمٹانے کے لیے یہ تدبیر سوچی ہے کہ ہم اپنا مدعا تحریری شکل میں مختصراً حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی خدمت میں پیش کردیں، اس کے بعد میں اجازت لے لوں گا اور آپ حضرات چائے وغیرہ نوش فرماکر تشریف لے جائیں گے، اس کے بعد حضرت شیخv نے اپنے دستِ مبارک سے تحریر فرمودہ ایک ڈیڑھ ورقی تحریر نکالی اور پڑھنا چاہا ہی تھا کہ اپنی دلکش مسکراہٹ سے محظوظ فرماتے ہوئے گویا ہوئے کہ اس تحریر کا طرزِ تخاطب شاید آپ حضرات کو عجیب لگے، مگر بات یہ ہے کہ دارالعلوم والے حضرات سے میری پرانی بے تکلفی ہے، ان حضرات کا بچپن سے ہمارے گھروں میں آناجانا رہا ہے، اس لیے میری اس گفتگو اور اس کے انداز کو عجیب محسو س فرمانے کی بجائے اسی پرانی بے تکلفی پر محمول فرمائیں، یہ میرا اور ان کا معاملہ ہے۔ اس کے بعد حضرت نے وہ تحریر سامعین کو سنائی، اس کے بعد نمازِ عصر ادا کی اور حسبِ مشورہ حضرتؒ کے ہمراہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زیدمجدہم کے ساتھ (۱۲/ ۶/ ۱۴۲۹ھ کو بعد نمازِ عصر)مجوزہ اطلاعی مجلس منعقد ہوئی، حضرت شیخ v نے حضرت عثمانی زید مجدہم کو اپنے اتفاقی روانگی کا پروگرام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ہم جس مقصد کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہ رہے تھے‘ اس کا مدعا فقط اپنے (اوپر بیان کردہ) ارادے کی اطلاع تھی، اس اطلاع کے لیے میں نے یہ تحریر تیار کی ہے، جو آپ کی خدمت میں سناکر اجازت چاہوں گا، اس کے بعد حضرت نے مندرجہ ذیل تحریر پڑھ کر سنائی:

 


تحریر سنانے کے بعد حضرت شیخv نے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی زیدمجدہم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ: آپ اس تحریر پر اپنے ہاں جاکر غور فرمالیجیے گا۔ حضرت شیخ نے اپنی روانگی کی اچانک تبدیلی کی اطلاع کا عذر دہراتے ہوئے شرکاء مجلس سے اجازت لی اور اُٹھنے لگے تو حضرت عثمانی زیدمجدہم نے فرمایا کہ: حضرت! میں کچھ عرض کروں؟ تو حضرت شیخv نے فرمایا کہ: یہ مجلس بحث ومباحثہ کی تو ہے نہیں، ہمارا مدعا صرف اتنا تھا جو آپ کے سامنے رکھا گیا ہے۔ اس پر آپ اپنے ہاں جاکر غور فرمالیجیے گا۔ اگر پھر بھی کوئی بات کرنی ہو تو یہ حضرات (شرکاء مجلس) بیٹھے ہوئے ہیں، آپ لوگ آپس میں بات چیت بھی کرلیں اور چائے وغیرہ بھی نوش فرمائیں، چنانچہ حضرت شیخv تشریف لے گئے اور حضرت عثمانی زیدمجدہم نے جو کچھ اس موقع پر ارشاد فرمانا تھا وہ شرکاء مجلس کے سامنے پیش فرمایا اور میری یادداشت کے مطابق ان کے ارشاد کا حاصل یہ تھا کہ ’’ رِبا کو جب اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے تو سود سے بچنا اور متبادل کو اختیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے، سود کی حرمت کی طرح اس کا متبادل بھی ممکن ہے، ورنہ ’’تکلیف مالایطاق‘‘ لازم آئے گی، ہم اسی متبادل کی کوشش کررہے ہیں،نیز اس تحریر کا ظاہری تأثر یہ ہے کہ موجودہ اسلامی بینکوں کا موجد اور بانی میں ہوں، جبکہ واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر مجلسِ تحقیقِ مسائلِ حاضرہ نے کام شروع کیا تھا، جس میں حضرت مفتی اعظم مفتی محمد شفیع صاحب، حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری ، حضرت مفتی رشید احمد اور حضرت مفتی ولی حسن صاحبw جیسے اکابر شامل تھے، ہم نے ان بزرگوں کی فکر وعمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔‘‘ الغرض اس مجلس میں حضرت عثمانی زید مجدہم کی پوری بات سنی گئی تھی اور وہ اپنا مدعا بیان فرماگئے تھے، البتہ شرکاء مجلس کی طرف سے ان کی تقریر پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں فرمایا گیا تھا، جس کی بنیادی وجہ وہی ہے کہ یہ مباحثہ کی نہیں، بلکہ جذبۂ خیرسگالی اور اظہارِ اپنائیت کے تحت اپنے اس فتویٰ کے اعلان کی اطلاع کے لیے زحمت دی گئی تھی، جس کا اظہار اگلے کچھ عرصے میں کرنا تھا۔
یہاں بعض غیر محتاط کرم فرماؤں نے شعوری یا لاشعوری طور پر اس مجلس کی حکایت اس انداز سے فرمائی کہ گویا یہ مجلس جذبۂ خیرسگالی اور اظہارِ اپنائیت کی بجائے خدانخواستہ حضرت عثمانی زیدمجدہم کی توہین وتنقیص کے لیے منعقد کی گئی تھی اور اس ’’خبرِبد‘‘ کو آناً فاناً دور دور تک پھیلادیا گیا تھا، ان مخلصین نے یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ اگر واقعۃً یہ گستاخی ہے اور ایسا ہوا ہے تو پھر یہ گستاخی چند لوگوں کے سامنے ہوئی تھی، اسے ہر خاص وعام مجلس تک پہنچانا ادب واحترام کے کونسے تقاضے پورا کرنے کے لیے ناگزیر تھا اور یہ عقیدت کی کون سی قسم تھی؟ یہ تو بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی کو گالی پڑے اور کوئی گالی پڑنے والے کی ہمدردی میں اس گالی کا پرچار کرنے لگ جائے۔ بہرحال یہ سب کچھ بہت ہی نامناسب عمل تھا، ہمارے خیال میں تو یہ عقیدت وہمدردی کے نام پر گستاخی کا ارتکاب بنتا ہے۔
خیر!۔۔۔۔۔۔ یہ خبر جب عام ہوگئی تو اگلے ایک دو روز میں حضرت شیخv ملتان سے واپس تشریف لائے تو اُنہیں مذکورہ مجلس کی روئیداد کو اُلٹ پھیرکے ساتھ پھیلانے کا علم ہوچکا تھااور حضرت عثمانی زیدمجدہم کی طرف سے ایک ’’پرشکوہ‘‘ خط بھی موصول ہوچکا تھا، چنانچہ انہوں نے مجلس کے ایجنڈے جیسے نیک جذبات کے ساتھ اظہارِ اپنائیت اور حضرت عثمانی زیدمجدہم اور ان کے رفقاء کی دلجوئی کے لیے دارالعلوم جانے کا فیصلہ فرمایا اور دارالعلوم تشریف لے گئے۔ دارالعلوم جانے کا کیا مقصد تھا اور وہاں ان اکابر کے ساتھ کیا باتیں ہوئیں، یہاں ایک بار پھر ’’نارسا راوی‘‘ نے ’’رنگ میں بھنگ ڈالنے‘‘ کی کوشش کی۔
میری معلومات کے مطابق یہاں ’’راوی‘‘ یا کسی ’’حاشیہ بردار‘‘ نے دو بے احتیاطیاں کیں، جس کی وجہ سے بزرگوں کی یہ محبت بھری محفل‘ خیرسگالی کی ملاقات، اپنائیت کے اظہار کی مجلس، اسی طرح کے بدمزہ نتائج کا باعث ثابت ہوئی، جس طرح مؤرخہ ۱۲؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۲۹ھ مطابق ۱۷؍ جون ۲۰۰۵ء کو جامعہ فاروقیہ میں منعقد ہونے والی نیک ملاقات کو بدی بنایا اور بتایا گیا تھا۔ ’’راوی‘‘ نے ایک بے احتیاطی یہ فرمائی کہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحبv کو دارالعلوم کے اکابر کی طرف سے جب اسٹیٹ بینک اور اسلامی بینکوں کے باہمی انتظامی واختیاراتی تعلق کی بابت بریفنگ دی گئی تو حضرت اس بات پر متعجب ہوئے کہ واقعۃً اسٹیٹ بینک نے اسلامی بینکوں کے لیے عام بینکوں سے جداگانہ ایسے قوانین بنارکھے ہیںجن کی رو سے نہ صرف یہ کہ اسلامی بینک‘ اسٹیٹ بینک کے سودی احکامات کی تعمیل سے مستثنیٰ ہیں، بلکہ اسلامی بینکوں کو سودی معاملات کی بجائے آزادانہ تجارت کے ذریعہ نفع اندوزی کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔ 
اس بات پر میں زیادہ جزم کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا، اس لیے کہ یہ بات ہم تک غیرمصدقہ اور غیرمطبوعہ تحریر کے ذریعہ پہنچی تھی جو کسی بزرگ نے دورانِ درس طلبہ کے استفسار کے جواب میں فرمائی تھی، وہ ادارے کے ترجمان رسالے میں طباعت کے لیے جاتے جاتے رُک گئی تھی۔لیکن اتنی بات کہنے میں حرج شاید نہ ہو کہ اگر یہ بات بجا ہو تو اس بات کا وزن مسلم ہے اور اس پر حضرت شیخv کا تعجب بھی بجا کہلاسکتا ہے، کیونکہ حضرتؒ کے زیرسرپرستی تیار ہونے والے متفقہ فتویٰ میں مروجہ اسلامی بینکوں کے غیراسلامی ہونے کی بنیادی وجوہ میں سے ایک وجہ اس بات کی حقیقت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے، کیونکہ متفقہ فتویٰ میں یہ کہا گیا تھا کہ کسی ملک میں کوئی بھی بینک‘ اسٹیٹ بینک کے وضعی قوانین کے التزام کے واضح اقرار کے بغیر قائم نہیں ہوسکتا اور اسٹیٹ بینک کے قوانین میں بینک ایک دوسرے کو یا اسٹیٹ بینک کو نفع بخش پروگرام کے تحت لین دین کے پابند ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ اسٹیٹ بینک کے منافع بخش پروگراموں میں شرکت یا اس قانون کے تحت دیگر کنونشنل (روایتی)بینکوں کے ساتھ لین دین کے معاملات کو سود سے پاک قرار نہیں دیاجاسکتا۔ اس حوالے سے یہ بدیہی امر بھی ملحوظ رکھنے کا بتایا گیا تھا کہ اسٹیٹ بینک جیسے کل کی اصلاح کے بغیر اس کے ذیلی ادارے اور جزو کی اصلاح کا دعویٰ صحت کے معیارات کو نہیں پہنچ سکتا۔
بایں وجہ مروجہ اسلامی بینکوں کے لیے اسٹیٹ بینک کے جداگانہ استثنائی قوانین کی موجودگی پر اگر حضرت شیخ کی طرح کسی اور بزرگ اور طالب علم کو بھی تعجب ہو تو اس پر تعجب نہیں کیاجاسکتا۔ اگر اسٹیٹ بینک اور اسلامی بینکوں کے مابین انتظامات واختیارات کی پالیسی کے بارے میں اکابر کی مجلس میں وہی بات ہوئی ہو،جس کو ہم نے اپنے تئیں واضح تعبیر کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی ہے، تو پھر اس پالیسی کی حقیقت کو اتنا واضح ہونا چاہیے تھا جتنا خود بینکوں کا اپنا وجود ہے، مگر واقعہ یہ ہے کہ اس دو ٹوک پالیسی کا اظہار وبیان مجوزین حضرات کی طرف سے کسی مستند ذریعہ سے سامنے نہیں آسکا، بلکہ اس حقیقت تک رسائی کی ہر طالب علمانہ جستجو ہر در سے خالی ہاتھ لوٹتی رہی۔
قصہ یہ ہوا کہ اس پالیسی کی زبانی گردش اور اس پر مستزاد ہمارے بعض اکابر کا یہ ’’گلہ‘‘ کہ عدم جواز کا فتویٰ دینے والے حضرات کو اسلامی بینکوں سے معلومات کی فراہمی کی شکایت پر ہم سے رجوع کرلینا چاہیے تھا، ہم صرف ایک فون کال کے فاصلے پر تھے، اپنے ان گلہ مند اکابر کے اس گِلے کو گَلے سے لگاتے ہوئے شرفِ ملاقات کا بہانہ بناکر مانعین میں سے حضرت مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب مدظلہم اپنے چند رفقاء کے ہمراہ دارالعلوم کراچی تشریف لے گئے، وہاں آمد ورفت کی تفصیلات تو وہ خود یا ان کے کوئی شریکِ سعادت ہی بتاسکتے ہیں، مجھے اس ملاقات کی برکات وثمرات میں سے جو حصہ ملا‘ میں اس کی طرف آتا ہوں۔ مذکورہ ملاقات کی برکت سے حضرت مفتی احمد ممتاز صاحب مدظلہم کو ’’میزان بینک‘‘ کے ہیڈ آفس میں چند ذمہ داروں سے ملاقات کا شرف حاصل ہونے کی ترتیب بن گئی۔ حضرت مفتی احمد ممتاز صاحب مدظلہم نے اس منافع بخش ملاقات میں ہمیں بھی شریک فرمایا اور دارالافتاء سے مولانا مفتی شعیب عالم صاحب مدظلہٗ اور راقم اثیم کا شریکِ ملاقات ہونا طے پایا۔ یہ ملاقات میل جول، تعارف وانس کے لیے بہت اچھی ثابت ہوئی، اس ملاقات کے میزبانوں میں ’’منصوری‘‘ صاحب اور ایک ہماری جامعہ کے فاضل مولانا بلال قاضی صاحب سلمہٗ کی ملنساری کے لیے بطور خاص ممنون رہے، مگر افسوس! کہ اس ملاقات کے مزعومہ ’’نفع‘‘ سے ہم محروم ہی رہے۔ 
اس ملاقات کا بنیادی مقصد صرف اتنا تھا کہ مروجہ اسلامی بینکوں کے لیے اسٹیٹ بینک نے جو جداگانہ قوانین بنائے ہیں، جن کی رو سے اسلامی بینک کسی بھی بینک یا ادارے کے ساتھ ہر قسم کے سودی لین دین سے مستثنیٰ رہیں گے اور یہ کہ اسلامی بینکوں کو سودی معاملات کے ذریعہ نفع اندوزی کی بجائے اسلامی تجارت کے ذریعہ نفع اندوزی کی اجازت دی گئی ہے۔اس مقصد کو پانے کے لیے کئی گھنٹوں پر مشتمل بات چیت ہوتی رہی اور وہ حضرات مطلوبہ دستاویزات دینے کے لیے کئی شرائط بار بار دہراتے رہے، جن میں ایک ارشاد یہ تھا کہ: 
’’یہ دستاویزات یہیں پر دیکھی جاسکتی ہیں، باہر نہیں لے جاسکتے۔ اگر باہر لے جانے کی صورت بن پڑے تو پھر ان دستاویزات کے مندرجات کا حوالہ نہیں دے سکتے۔ اگر حوالہ دینا چاہیں تو اس سے قبل ہم سے مشاورت اور مذاکرہ کرلیا جائے۔‘‘ 
ظاہر ہے کہ اس طرح کی شرائط سے ہماری امید افزا ملاقات کو مایوسی کا شکار ہی ہونا تھا، ملاقات کا دلچسپ آغاز بے رغبتی پر ختم ہونے جارہا تھا، تو لے دے کربے رغبتی کے ساتھ ایک فارم نکال کر مطالعہ کے لیے ہمیں دے دیا گیا اور ہم نے مذکورہ شرائط کا پاس رکھتے ہوئے وہ لے لیا، جس کے مندرجات میں ہماری جستجو کا کوئی واضح جواب تو نہیں تھا، البتہ اس میں کچھ ’’نفع‘‘ کی باتیں بہرحال موجود تھیں، جن کا حاصل یہ تھا : اسٹیٹ بینک کی ریکوائرمنٹ ہے کہ ہر اسلامی بینک کا ایک شریعہ ایڈوائزر ہو اور اس ایڈوائزر کی ’’کوالیفکیشن‘‘ یہ ہوگی کہ اس کے عالمیہ نمبرات اتنے ہوں اور تخصص فی الافتاء کیا اور ’’معتمد ‘‘ادارے کی سفارش واعتماد کا حامل ہو۔
اس صورت حال کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اسلامی بینکوں کے لیے اسٹیٹ بینک کی جس پالیسی پر حضرت شیخv کے استفہامِ تعجبی کو اسلامی بینکوں کی خرابی کے خاتمے کا ’’اقرار‘‘ قراردیا گیا تھا، وہ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ اس کی ذمہ داری کسی ’’مروی عنہ بزرگ‘‘ کی بجائے اس ’’غیر محتاط راوی‘‘ پر عائد ہوتی ہے، جس نے یہ ’’بے پَر ‘‘کی اُڑائی تھی۔ 
ہمارا یہ سوال اب بھی باقی ہے۔ جو صاحبِ علم اور ماہرِ بینک کاری ہم پر کرم نوازی فرمائے، ہم اس کے ممنون ہوں گے۔ ہمارے علم کے مطابق تاحال اسٹیٹ بینک نے ایسی کوئی اسٹیٹ منٹ نہیںدی، بلکہ اس کے برعکس حال ہی میں بعض ذرائع ابلاغ کے مطابق اسٹیٹ بینک نے اپنے ایک سرکولر (۲؍ نومبر ۲۰۱۷ء کے سرکلر آئی۔بی۔ڈی ۔ ایس۔ ڈی(۱۵) ۲۵۷۲۳) کے ذریعہ اسلامی بینکوں کو پابند بنایا ہے کہ وہ سودی بینکوں کو چھ سو ارب روپے سود پر دیں، جسے غیرحقیقی/ مصنوعی کاروبار کے ذریعہ سودمند بنایا جائے۔ نیز ’’تورق‘‘ بھی تین ماہ تک کرلیا جائے جو کاروبار کی مصنوعی کارروائی ہونے کی وجہ سے ایساحرام ہے کہ جسے فقہ اکیڈمی جدہ نے بھی حرام قرار دیا ہے۔
ان احوال کے تناظر میں اسلامی بینکوں کا اسٹیٹ بینک کی سودی پالیسیوں سے آزاد اور مستثنیٰ ہونے کا دعویٰ محض ’’خوش فہمی‘‘، ’’خود فریبی‘‘ یا ’’دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے‘‘ کے مترادف ہے، پھر بھی اگر کوئی صاحبِ بصیرت مذکورہ استثناء کا ثبوت رکھتا ہو تو وہ ہماری لاعلمی کے ازالے میں ضرور مددگار بنے۔
جامعہ دارالعلوم کراچی میں حضرت شیخv کی وہاں کے اکابر کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے ’’نارسا راوی‘‘ نے دوسری بے احتیاطی کرکے اپنائیت کے ماحول کو آلودہ کرنے کی جو غلطی فرمائی‘ وہ یہ تھی کہ مذکورہ ملاقات کو دلجوئی، ہمدردی اور آپس کے ادب واحترام کی بہترین شکل قرار دینے کی بجائے یہ تأثر عام کیا گیا کہ جامعہ فاروقیہ میں منعقد ہونے والی اطلاعی مجلس میں خدانخواستہ حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہٗ سے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زیدمجدہم کی جو گستاخی ہوگئی تھی، اس پر حضرت شیخ معذرت ومعافی مانگنے آئے تھے، اس تأثر کو اُبھارنے میں کسی بزرگ کی اچھائی، برائی یا ہمدردی سے زیادہ یہ سوچ کارفرما معلوم ہوتی ہے کہ جامعہ فاروقیہ میں جس اقدام سے آگاہی کے لیے خیرسگالی کی اطلاعی مجلس منعقد کی گئی ہے‘ وہ غلط تھی اور اس مجلس کے اگلے عزائم غلط تھے، اس مجلس کے اگلے عزائم کا وزن ہلکا کرنے کے لیے بزرگوں کو مدِمقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی، حالانکہ آنے والے فتوی کو قبول یا رد کرنا بینکوں سے وابستہ افراد کا آزادانہ حق تھا اور ہے، وہ حق تو ان سے کسی نے نہیں چھینا تھا اور اس حق کے اظہار کا ابھی تک موقع بھی نہیں آیا تھا، اس سے قبل اس طرح کی مہم چلانا اور اس کو بھی ایک دوسرے بزرگ کی عزت بے عزتی کے عنوان سے یہ انتہائی سنگین غلطی تھی، جس کے غلط کار کو اس وقت سے تاحال شاید اس کا احساس نہ ہو، مگر اس کا شدید احساس ہم نے حضرت شیخv کی زبانی اس وقت سنا‘ جب اس ملاقات کے چند دنوں بعد حضرتؒ کے ہاں جانا ہوا تو حضرتؒ نے اس نامناسب روایت وحکایت پر شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمانے لگے کہ: اس دن کی ملاقات میں میرے سفرِ ملتان کی وجہ سے جلدی کو حضرت مولانا محمد تقی عثمانی نے شاید محسوس بھی فرمایا تھا‘ جس کا بذریعہ خط مجھے علم ہوا، جس کا مجھے بھی شدید قلق ہوا کہ ہم نے نیک جذبے کے تحت ملاقات طے کی کہ ہمارا فتوی کا اختلاف کہیں ہمارے درمیان غلط فہمیوں کا باعث نہ بنے اور ہمارا عزت واحترام کا تعلق متأثر نہ ہو ، مگر یہاں ہمارے بے تکلفانہ رویے سے اگر انہیں رنج ہوا ہے تو ہم اس پر بھی ان کی دلجوئی کرلیں، ہم اس لیے دارالعلوم چلے گئے تھے۔ لیکن اب صورت حال ایسی بنادی گئی ہے کہ میرے وہاں جانے کو بعض لوگوںنے یہ عنوان دیا کہ ’’سلیم اللہ‘‘مولانا تقی عثمانی وغیرہ سے معافی مانگنے آیا تھا۔ بھئی!معافی تو زیادتی یا غلطی کی ہوتی ہے، غلط فہمی کا ازالہ ہوتا ہے، ہم نے بینکوں کے خلاف فتویٰ دے کر پھر از راہِ ہمدردی وخیرسگالی اس کی پیشگی اطلاع کرکے کونسی غلطی اورزیادتی کی تھی، جس پر ہم معافی مانگتے، معافی کی اس میں کیا بات ہے؟! کیا ’’سلیم اللہ‘‘اس پر کسی سے معافی مانگے گا؟
حضرت شیخv کے خیرخواہانہ ومشفقانہ جذبات کو اس قدر ٹھیس پہنچانے کے پیچھے وہی نامناسب جذبہ کارفرما معلوم ہوتا ہے جو بینکوں سے متعلق مخالف فتویٰ کو غیر مؤثر بنانے کے لیے بزرگوں کے باہمی رشتۂ ادب واحترام کو ریشہ ریشہ کرنے سے نہیں شرماتا۔
ہم اس نامناسب حربے کو کسی ایک بزرگ کی عقیدت وہمدردی کے نام پر مذموم مقصد کی تکمیل اور باادب ماحول کی تخریب کے مترادف سمجھتے ہیں، مذکورہ دونوں ملاقاتوں کے نتائج بہت نامناسب بتائے گئے ہیں، جس پر ہمیں بھی شدید افسوس ہے، بلکہ اعترافِ قصور ہے کہ پہلی ملاقات کے پیچھے ہمارا بے حد اصرار شامل تھا۔ اگر ہم اس موقع پر دارالعلوم کے اکابر کے ساتھ اپنی عقیدت کو حضرت شیخ کی بصیرت کے سامنے نچھاور کردیتے تو کم از کم اب تک کی یہ نوبت تو نہ آتی، اور فقہی اختلاف کو ذاتی اختلاف بناکر عدم جواز کے فتوی کو قبل از وقت ہلکا دکھانے والوں کے ابتدائی عزائم تو ناکام ہی رہتے۔ مگر ہمارا طفلانہ اصراراور غیرضروری اخلاص اس صورتِ حال کی بنیاد بنا، جس پر ہمیں افسوس ہے۔ ہم حضرت شیخv کے لیے ہمیشہ کی طرح رفع درجات کی دعا کرتے ہیں اور دوسرے فریق کے بزرگوں سے معافی کے خواستگار ہیں۔ یہ صورتِ حال ہمارے لیے انتہائی تکلیف دہ رہی اور اب بھی اس تکلیف سے مکمل آزاد نہیں ہوسکے، گو کہ رفتہ رفتہ یہ حقیقت وا ہونے لگی ہے کہ مذکورہ تکلیف دہ صورت حال میں کئی خلافِ واقعہ امور بھی شامل فرمائے گئے ہیں، جن کا متعلقہ بزرگوں کی باہمی گفت وشنید کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ واضح قرائن بتاتے ہیں کہ یہ پروپیگنڈہ ایک قسم کی دفاعی مہم کا حصہ تھا، بینکوں سے وابستہ بعض حضرات نے اپنے بینک کاری سفر کے مخالفانہ فتوے کو قبل از وقت متنازع بنانے کے لیے اور اس فتوی کو محض مخالفت وعناد کا شاخسانہ قرار دینے کے لیے ’’باہمی توہین وتوقیر‘‘ کا مسئلہ بناکر پیش کیا تھا۔
مگر الحمد للہ! پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے سالارِ قافلہ حضرت شیخv کے عزم واستقلال پر اس پروپیگنڈے کا کوئی اثر نہیں پڑا، بلکہ ان کی اس کرامت کا ظہور بھی ہوا، جسے اولِ وہلہ میں ہمارا طفلانہ اصرار سمجھنے سے قاصر تھا۔ حضرتؒ نے بڑے ہی حوصلہ اور اعتماد سے اس پروپیگنڈہ مہم کی اذیتوں کو سہا اور اپنے ہم نوا اہلِ علم کو اعتماد ووثوق کے ساتھ اپنی رائے کے اظہار کی تلقین وتاکید فرماتے رہے، اور متفقہ فتویٰ کے اعلان واظہار کے لیے ملکی سطح کا مشاورتی اجلاس طلب فرمایا۔ بیرونِ شہر سے تشریف لانے والے اہلِ فتویٰ کے طعام وقیام کے سارے انتظامات آپ کے زیرِاہتمام جامعہ فاروقیہ کراچی نے انجام دیئے۔ اجلاس سے ایک دن قبل متفقہ فتوی کا ابتدائی مسودہ مدعو حضرات کی خدمت میں پیش کیا گیا، جسے انہوں نے جامعہ فاروقیہ میں قیام کے دوران مطالعہ فرمایا اور اگلے دن ۲۸؍ اگست ۲۰۰۸ء ملکی سطح کا یہ فقہی اجلاس حضرت شیخ نور اللہ مرقدہٗ کے زیرِ صدارت منعقد ہوا اور اس اجلاس میں بعض شرکاء نے متفقہ فتویٰ سے متعلق اپنے بعض ملاحظات سے نوازا جو نوٹ کیے گئے اور فتویٰ کی حتمی ترتیب میں ان ملاحظات کو بھی مسودے کا حصہ بنایا گیا، اس اجلاس میں شرکاء کے دستخطوں کے ساتھ جو اعلامیہ جاری ہوا اس کا متن یہ تھا:
’’گزشتہ چند سالوں سے اسلامی شرعی اصطلاحات کے حوالے سے رائج ہونے والی بینک کاری کے معاملات کا قرآن وسنت کی روشنی میں ایک عرصے سے جائزہ لیا جارہا تھا اور ان بینکوں کے کاغذات، فارم اور اُصولوں پر غوروخوض کے ساتھ ساتھ اکابر فقہاء کی تحریروں سے بھی استفادہ کیا جاتا رہا تھا۔
بالآخر اس سلسلے میں حتمی فیصلے کے لیے ملک کے چاروں صوبوں کے اہل فتویٰ علمائے کرام کا ایک اجلاس مورخہ۲۸؍اگست۲۰۰۸ء مطابق ۲۵؍ شعبان المعظم ۱۴۲۹ھ بروز جمعرات حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان دامت برکاتہم کی زیرِ صدارت جامعہ فاروقیہ کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں شریک مفتیانِ عظام نے متفقہ طور پر یہ فتویٰ دیا کہ اسلام کی طرف منسوب مروّجہ بینک کاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے۔ لہٰذا ان بینکوں کے ساتھ اسلامی یا شرعی سمجھ کر جو معاملات کیے جاتے ہیں، وہ ناجائز اور حرام ہیں اور ان کا حکم دیگر سودی بینکوں کی طرح ہے۔
اس اجلاس کے شرکاء نے اس بات پر بھی اتفاق کا اظہار کیا کہ جدیدیت کی رو میں بہہ کر تصویر کی حرمت کا حکم نہیں بدلا جاسکتا ہے۔ جان دار کی تصویر کی جتنی اور جو شکلیں اب تک متعارف ہوئی ہیں، عرف وعادت، لغت اور شرعی نصوص کی رو سے وہ سب تصویر کے حکم میں ہیں۔ آلاتِ صنعت وحرفت کے بدلنے سے تصویر کے شرعی احکام نہیں بدلتے۔ اس لیے جو حکم شریعت میں تصویر کا منقول ہے، تصویر کی تمام شکلیں اس حکم کے تحت داخل ہیں۔ اس لیے تصویر کی اباحت اور جواز کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کسی قسم کے ٹی وی چینل کا اِجرا یا علمائے کرام کا ٹی وی پر آنا اور اُسے تبلیغ دین کی ضرورت کہنا اورسمجھنا شریعت کی خلاف ورزی ہے اور جدیدیت واباحیت کی ناجائز پیروی ہے۔
مسلمانوں پر واجب اور لازم ہے کہ دیگر حرام اور خلافِ شرع اُمور کی طرح ان سے بھی بچنے کا بھر پور اہتمام فرمائیں۔‘‘                  (مروجہ اسلامی بینک کاری،ص:۳۴۵)
دستخط کرنے والے مفتیانِ عظام
حضرت شیخ الحدیث مولاناسلیم اللہ خان صاحب، جامعہ فاروقیہ، کراچی
مفتی حمید اللہ جان صاحب، جامعہ اشرفیہ لاہور،پنجاب
مولانا سعید احمد جلال پوری صاحب، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ،کراچی
مفتی محمد انعام الحق صاحب، دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی
مولانا مفتی عبدالمجید دین پوری صاحب، جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی
مولانا مفتی غلام قادر صاحب ،دار العلوم حقانیہ، اکوڑہ خٹک ،سرحد
مفتی محمد مدنی صاحب، معہدالخلیل الاسلامی، بہادر آباد،کراچی
مولانا ڈاکٹر منظور احمد مینگل صاحب، جامعہ فاروقیہ ، کراچی
مفتی رفیق احمد بالاکوٹی صاحب،دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی
مفتی شعیب عالم صاحب،دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن، کراچی
مولانا مفتی عبدالقیوم دین پوری صاحب، دار الافتاء عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت،کراچی
مفتی احمد خان صاحب، جامعہ عمر کوٹ، سندھ
مفتی قاضی سلیم اللہ صاحب، دارالہدیٰ ٹھیڑی، خیرپور، سندھ
مولانا مفتی احتشام الحق آسیا آبادی ، جامعہ رشیدیہ آسیا آباد ،تربت مکران، بلوچستان
مفتی امداد اللہ صاحب، جامعہ دھورو، نارو، سندھ
مولانا مفتی روزی خان صاحب، دار الافتاء ربانیہ کوئٹہ ، بلوچستان
مفتی عاصم عبداللہ صاحب، جامعہ حمادیہ ، کراچی
مفتی سمیع اللہ صاحب، جامعہ فاروقیہ، کراچی
مولانا کلیم اللہ صاحب، جامعہ دھورو، نارو، سندھ
مفتی امان اللہ صاحب، جامعہ خلفاء راشدینؓ، کراچی
مفتی عبدالغفار صاحب، جامعہ اشرفیہ، سکھر ، سندھ
مولانا مفتی حامد حسن صاحب، دار العلوم کبیر والا،پنجاب
مولانا مفتی عبداللہ صاحب، جامعہ خیر المدارس ملتان ،پنجاب
مفتی حبیب اللہ شیخ صاحب، جامعہ اسلامیہ کلفٹن ،کراچی
مفتی احمد خان صاحب، جامعہ فاروقیہ ، کراچی
مفتی نذیر احمد شاہ صاحب، جامعہ فاروق اعظم، فیصل آباد
مفتی سعید اللہ صاحب، جامعہ عربیہ تعلیم الاسلام ،کوئٹہ
مولانا مفتی احمد ممتاز صاحب ، جامعہ خلفائے راشدینؓ، کراچی
مولانا گل حسن بولانی صاحب، جامعہ رحیمیہ سر کی روڈ کوئٹہ ،بلوچستان
مولانا مفتی زرولی خان صاحب، جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال ،کراچی
مولانا مفتی سعد الدین صاحب،جامعہ حلیمیہ، لکی مروت ،سرحد
مفتی عبدالسلام چاٹگامی صاحب ، جامعہ معین الاسلام ، ہاٹہزاری، بنگلہ دیش

(مروجہ اسلامی بینک کاری، ص:۳۴۵-۳۴۶، ط: مکتبہ بینات، کراچی)
اس فتوے کے تین اُمور قابل لحاظ ہیں: ایک یہ کہ مروجہ اسلامی بینک قطعاً اسلامی یا غیرسودی نہیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ تصویر سازی کی نئی صنعت وشکل (ڈیجیٹل تصویر) کو تصویر محرَّم کے حکم سے خارج قراردینا جدیدیت واباحیت کا شاخسانہ ہے۔ اسلامی ٹی وی چینل کے خواب کی تکمیل کے لیے تصویر کی حرمت بتانے والی نصوص کو نظر انداز کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ تیسرا یہ کہ فتویٰ اور رائے کسی ایک ادارے یا چند افراد کا زاویۂ فکر اور نتیجۂ خیال نہیں، بلکہ یہ ملک بھر کے تمام نامی گرامی دارالافتاؤں سے وابستہ کثیر تعداد اہلِ فتویٰ کی رائے ہے، بلکہ اس رائے کو بنگلہ دیش کے سب سے بڑے دینی ادارے دارالعلوم ہاٹہزاری کے اہل فتویٰ کی تائید بھی حاصل ہے اور ان حضرات نے ہمارے متفقہ فتویٰ سے اتفاق کا اظہار اپنے ہاں ملکی سطح کے مشاورتی اجتماعات کے بعد ہی فرمایا ہے، جبکہ جوازی فتویٰ سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم ’’فتویٰ‘‘ کے بیان سے آگے بڑھ کر بالواسطہ یا بلاواسطہ بینکوں کے معاملات میں شریک ودخیل بھی ہوچکے ہیں ، اس کے لیے ’’قانع اہل البیت‘‘ کے شہادتی اُصول کے تحت ان کا فتویٰ علمی واصولی لحاظ سے قابلِ التفات نہیں تھا، مگر بینکوں کی تشہیری مہم کے لیے مختص فنڈز اور دیگر چیریٹی فنڈز کی مدد سے اس کی اشاعت علماء بنگلہ دیش کے بقول علمی فتنہ بنتی جارہی تھی، جس کی روک تھام محدود وسائل والے علماء کے لیے ناممکن تھی۔ بعض‘ مجوزین اہلِ علم کے بارِ مروت تلے دبے جارہے تھے، ایسے ماحول میں صرف حضرت شیخv ہی کی شخصیت تھی جس نے تمام ماحولیاتی رکاوٹوں سے بالاتر ہوکر اسلام کے نام پر سودی سیلاب کے سامنے بند باندھنے کا فریضہ انجام دیا اور اہل فتویٰ کو یہ حوصلہ دیا کہ وہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے سلسلے میں ’’لایخافون فی اللّٰہ لومۃ لائم‘‘ کی خاطر بے نیازی کا روایتی تسلسل برقرار رکھنے کا اعزاز پائیں ۔ الحمد للہ! حضرت کی برکت سے علماء دیوبند ایک دینی معاملے میں اباحیت کے چھینٹوں اور مداہنت کی کدورتوں سے اپنا دامن بچانے میں سرخرو ہوئے، فللّٰہ الحمد۔ 
یہ فتویٰ کتنا مؤثر یا کتنا مفید ثابت ہوا، اس کے اثروافادہ کا اندازہ بعض مجوزین حضرات کے سرپٹ

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین