بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

مدرسہ کا آغاز وارتقاء ۔۔۔جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی  کا تعلیمی منہج اور کردار۔۔۔۔۔ ایک تحقیقی مطالعہ (دوسری قسط)

مدرسہ کا آغاز وارتقاء ۔۔۔جامعہ علومِ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
 کا تعلیمی منہج اور کردار۔۔۔۔۔ ایک تحقیقی مطالعہ

 

(دوسری قسط)

 

جامعہ کے چار ادوار

اہتمام کے اعتبار سے جامعہ کے چار ادوارہیں:
پہلا دور: ۔۔۔۔۔۱۳۷۴ھ ۱۹۵۴ء -تا- ۳ذو القعدۃ ۱۳۹۷ھ مطابق ۱۷اکتوبر ۱۹۷۷ء، کل عرصہ اکیس سال۔ 
بانی مہتمم:حضرت مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ
نائب مہتمم: ۱:- جناب میرعالم خان لغاری، ۲:- مولانا اسماعیل بھامجی، ۳:- مفتی احمد الرحمٰن w۔
 ناظم تعلیمات: ۱:-جناب مولانا حامد ، ۲:-مولانا فضل محمد سواتی، ۳:-مولانامحمد ادریس میرٹھی، ۴:-مولانابدیع الزمان w۔
دوسرا دور:۔۔۔۔۔ ذو القعدہ ۱۳۹۷ھ مطابق اکتوبر ۱۹۷۷ء تا رجب ۱۴۱۱ھ مطابق جنوری ۱۹۹۱ء ۔ کل عرصہ ۱۴سال۔ مہتمم:مفتی احمد الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ ، نائب مہتمم: مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار رحمۃ اللہ علیہ ۔ ناظم تعلیمات: ڈاکٹر مولانا عبدالرزاق اسکندر مدظلہ العالی۔
تیسرا دور:۔۔۔۔۔ رجب ۱۴۱۱ھ مطابق جنوری ۱۹۹۱ء -تا- رجب ۱۴۱۸ھ مطابق نومبر ۱۹۹۷ء۔ کل عرصہ سات سال ۔ 
مہتمم: مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رحمۃ اللہ علیہ ۔ نائب مہتمم: مولاناسید محمد بن مولانا محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ ۔
 ناظم تعلیمات: ۱:- مولانا مصباح اللہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ ، ۲:- مولانا عبدالقیوم چترالی رحمۃ اللہ علیہ ۔
چوتھا دور:۔۔۔۔۔ رجب ۱۴۱۸ھ مطابق نومبر۱۹۹۷ء جاری۔ کل عرصہ (تاحال): ۲۲سال ۔
مہتمم: ڈاکٹر مولانا عبدالرزاق اسکندر دامت برکاتہم العالیہ (اس وقت بھی اس منصبِ جلیل پر فائز ہیں)
نائب مہتمم: ۱:- مولانا سید محمد بنوری رحمۃ اللہ علیہ ۱۴۱۹ھ مطابق۱۹۹۸ ء ، ۲:-مولانا سید سلیمان یوسف بنوری I (اس وقت بھی اس منصبِ جلیل پر فائز ہیں)
ناظم تعلیمات: ۱:- مولاناعبدالقیوم چترالی رحمۃ اللہ علیہ ، ۲:-مولانا عطاء الرحمن شہید رحمۃ اللہ علیہ ، ۳:-مولانا امداداللہ صاحب I۔ (اس وقت بھی ناظم تعلیمات ہیں) (۱)

شعبہائے جامعہ، اضافہ، وسعت

تاریخ تأسیس سے جامعہ میں متعدد شعبے قائم ہیں ، بعض شعبوں کا بعد کے ادوار میں اضافہ کیاگیا۔ اجمالی فہرست حسب ذیل ہے:
۱:-شعبہ حفظ وناظرہ قرآن مجید        ۲:-درسِ نظامی    ۳:-تخصصات
۴:-شعبہ عربی(صفوفِ عربیہ)        ۵:-شعبہ بنات    ۶:-بنوری ایجوکیشن سسٹم
۷:-الدراسات(تعلیم بالغاں)    ۸:-ماہنامہ بینات    ۹:-دارالافتاء 
۱۰:-مجلسِ دعوت وتحقیقِ اسلامی        ۱۱:-دارالتصنیف     ۱۲:-تدوینِ فتاویٰ
۱۳:-کتب خانہ            ۱۴:-ڈسپنسری    ۱۵:-علامہ بنوریؒ ٹرسٹ
شعبہائے جامعہ کا مختصر تعارف حسب ذیل ہے:

شعبہ حفظ وناظرہ قرآن مجید

یہ شعبہ ابتداء ہی سے قائم ہے، اس مرحلے میں تجوید کے ساتھ ناظرہ قرآن مجید اول تا آخر پڑھایا جاتا ہے، علاوہ ازیں بنیادی دینی تعلیمات سے بھی بچوں کو روشناس کرایا جاتا ہے۔ اس شعبہ میں تقریباً تمام بچے غیر رہائشی ہوتے ہیں۔ اب تک ناظرہ قرآن مکمل کرنے والے بچوں کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے۔ بعض بچے ناظرہ قرآن پڑھنے ہی پراکتفاء کرتے ہیں، جبکہ اکثر بچے دوسرے مرحلہ میں ترقی کرلیتے ہیں، اور ناظرہ قرآن مکمل کرنے کے بعد حفظ القرآن شروع کرتے ہیں۔ حفظ القرآن مکمل کرنے والے بچوں کی تعداد بھی لاکھ سے متجاوز ہے۔اس وقت جامعہ سمیت تمام شاخوں میں اس شعبہ میں پڑھنے والے بچوں /بچیوں کی تعدادتین ہزار پانچ سو(۳۵۰۰) ہے، جن کو ۲۵۰اساتذہ کرام تعلیم دیتے ہیں۔ (۲)

درسِ نظامی

شعبہ درسِ نظامی تمام دینی مدارس کا بنیادی و محوری شعبہ ہے، جس میں ابتدائی علوم(علومِ آلیہ) سے لے کر متوسط کتابوں تک اور پھر علومِ عالیہ یعنی قرآن وحدیث کی تعلیم دی جاتی ہے۔ درسِ نظامی کوتین حصوں میں تقسیم کیاگیا ہے:۱:- القسم الابتدائي، ۲:- القسم الثانوي، ۳:-القسم العالي۔

القسم الابتدائي(اعدادیات)

اس شعبہ میں عموماً وہ طلبہ داخلہ لیتے ہیں جنہوں نے اسکول کی تعلیم حاصل نہ کی ہو، آغاز کے وقت اعدادیہ کی تعلیم کا عرصہ دوسال پر محیط تھا، بعد میں تین سالہ نصاب مرتب کیاگیا، جس میں اردو، انگریزی،فارسی کی کتابیں اور فقہی مسائل پر مشتمل ابتدائی کتابیں پڑھائی جاتی تھیں، نیز خوش نویسی اور کتابت بھی سکھائی جاتی تھی، جامعہ سمیت اکثر مدارس میں اس شعبہ کے نصاب میں تبدیلی آئی ہے۔ 

القسم الثانوي والعالي

درسِ نظامی کاوہ حصہ ہے، جو آٹھ سالہ نصاب پر مشتمل ہے، جس میں علومِ آلیہ وعالیہ پڑھائے جاتے ہیں۔ قرآن وسنت کو سمجھنے کے لیے جن علوم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ تمام علوم چار مراحل میں پڑھائے جاتے ہیں: ۱:- الثانویۃ العامۃ (میٹرک) ، ۲:- الثانویۃ الخاصۃ (ایف اے) ، ۳:-العالیۃ (بی اے)، ۴:-اور العالمیۃ (ایم اے)۔
درسِ نظامی کے تمام مراحل میں ذریعۂ تدریس اردو ہے۔

صفوفِ عربیہ

درسِ نظامی کی ایک شاخ صفوفِ عربیہ ہے، جس کا آغاز ۱۹۹۰ء میں کیاگیا تھا، صفوفِ عربیہ میں ذریعۂ تدریس عربی ہے۔ اس شعبے میں درجہ اولیٰ تا درجہ رابعہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں،اس وقت تقریباً اسی (۸۰) طلباء اس شعبے میں زیرِ تعلیم ہیں، درجہ رابعہ کے بعد یہی طلبہ شعبہ اردو میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ (۳)
درسِ نظامی صرف ونحو، علوم عربیۃ (معانی، بیان، بدیع) منطق وفلسفہ، فقہ، اصول فقہ، تفسیر، اُصولِ تفسیر، حدیث واُصولِ حدیث پر مشتمل ہے۔ حضرت بنوریؒ نے درسِ نظامی میں حسب ذیل میں چند علوم کو نمایاں جگہ دی:

(الف)تجویدو قراء ت

علم تجوید اور مشق کو صلبِ نصاب میں شامل کیا، اور ابتدائی تین سالوں میں اس کی تدریس لازم قراردی۔ جو طلباء درمیان میں بطور خاص دورہ میں داخل ہوتے ہیں، ان کے لیے آخری پارہ کا حفظ اور تجوید کو لازم کردیا ۔(۴) 

(ب) سیرت وتاریخ

آپ نے ابتداء ہی سے سیرت کی کتابوں کو نصاب کا حصہ بنایا۔ چنانچہ درجہ اولیٰ میں’’ رحمتِ عالم(a)‘‘، تصنیف سید سلیمان ندوی، درجہ ثانیہ میں ’’تاریخ خلفاء راشدینؓ    ‘‘ اور درجہ ثالثہ میں ’’نور الیقین فی سیرۃ سیدالمرسلین‘‘ تصنیف:محمد بن عفیفی الخضری کو نصاب میں شامل کیا۔ علاوہ ازیں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ یہ تھا کہ علوم کو اصل مصادر سے پڑھاجائے، جو متقدمین کی تصانیف ہیں اور جن کی طرزِ تحریر اور اسلوبِ بیان سہل اور تعبیر نہایت حسین اور عبارت نہایت سلیس وشگفتہ ہے، اس کے برعکس متاخرین کی کتابیں مغلق اور تفصیلات سے پُر ہیں(۵)۔ اُصولِ بزدوی، الاختیاراور شرح ابن عقیل کوداخل نصاب کیا گیا۔ وفاق المدارس کے نصاب کی وجہ سے بعض کتب کو پھر سے تبدیل کیاگیا ہے۔

بنوریؒ ایجوکیشن سسٹم

جامعہ کے تعلیمی نظام میں اس شعبے کا قیام ایک بڑی اہم تبدیلی ہے۔ یہ شعبہ درحقیقت اعدادیات کی متبادل توسیعی شکل ہے،جس کے دورانیہ ،نظام اور نصاب میں تبدیلی کرکے یہ شعبہ قائم کیا گیا ہے۔ شعبے کا قیام ۲۰۱۲ء کو عمل میں آیا جس کے مطابق پانچ سالوں میں نان میٹرکولیٹ بچوں کو پانچویں جماعت سے لے کر میٹرک تک کا نصاب پڑھایا جاتا ہے، جس میں درجہ اولیٰ کا نصاب اس طرح سمویا گیا ہے کہ بچہ میٹرک کے ساتھ ساتھ اولیٰ بھی پڑھ لیتا ہے، اور اگلے سال درجہ ثانیہ میں ترقی کرلیتا ہے۔ یہ شعبہ ’’بنوریؒ ایجوکیشن سسٹم‘‘ کے نام سے کراچی بورڈ سے رجسٹرڈ ہے، کئی ایک مدارس میں یہ نظام اپنایا گیا ہے، اس کا تصور کوئی نیا نہیں ہے، مدارس کے اربابِ حل وعقد اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ درسِ نظامی کا آغاز جن کتابوں سے ہوتا ہے، اس کے لیے کم ازکم میٹرک کی سطح تک تعلیمی قابلیت اور ذہنی مستویٰ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابتداء میں جب حفظ القرآن کا بہت زیادہ رواج نہیں تھا، تو عموماً میٹرک کرنے والے طلباء کو درجہ اولیٰ میں داخلہ دیا جاتا تھا۔ جب ایسے طلباء کی تعداد بڑھنے لگی، جنہوں نے ابھی میٹرک نہ کیا ہو، اور مدرسہ کے نظام میں آنا چاہتے ہوں، تو ان کی بنیادی استعداد بنانے کے لیے اعدادیات کا سلسلہ شروع کیاگیا، جو مؤثر تھا، تاہم جب ایسے بچوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہوگئی تو ضرورت محسوس کی گئی کہ ایسے بچوں کو باقاعدہ اسکول کا نصاب پڑھایا جائے اور مدرسہ کے نظام میں رہتے ہوئے میٹرک کرایا جائے، وقت بچانے اور استعداد بڑھانے کے لیے درجہ اولیٰ کا نصاب بھی پڑھایا جائے۔ گویا یہ پرانی سوچ کی جدید صورت ہے، جو حالات کی وجہ سے اختیار کرنی پڑی۔ جامعہ کے نظام میں بھی اس شعبہ کا قیام ایک خوش آئند قدم ہے، تاہم اگروفاق المدارس کی سطح پر تمام مدارس کے لیے یہ نظام لازم قراردیا جائے، تو یہ ایک مؤثر اور خوشگوار تبدیلی ہوگی۔ اس شعبہ میں اس وقت ۳۵۰ بچے زیرِ تعلیم ہیں، جن کو پچیس اساتذہ کرام پڑھاتے ہیں، اب تک ۶۰ بچوں نے کراچی بورڈ سے نمایاں نمبروں کے ساتھ میٹرک مکمل کیا ہے، اور درجہ ثانیہ میں ترقی کرگئے ہیں، جو دینی علوم میں بھی نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ (۶)

تخصصات ( Specialization )  

جامعہ میں تعلیم کی ابتداء تکمیل سے ہوئی، حضرت بنوریؒ نے علوم میں مہارت کے لیے تخصصات کا سلسلہ شروع فرمایا، جو مدارس کے نظام میں مثبت تبدیلی تھی، آپ کا ارادہ تھا کہ تمام علوم میں تخصصات کے شعبے قائم کیے جائیں، تاہم اب تک حسب ذیل تین تخصصات شروع کیے گئے ہیں:

تخصص فی الحدیث 

اس شعبے کے پہلے رئیس مولانا محمد ادریس میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ تھے، جن کی نگرانی میں وقیع علمی مقالے لکھے گئے، جن میں مولانا حبیب اللہ مختار شہیدؒ کا مقالہ بعنوان ’’السنۃ النبویۃ والقرآن الکریم‘‘ اور مولانا محمد امین اورکزئیؒ کا مقالہ بعنوان ’’مسانیدالإمام أبي حنیفۃ ومرویاتہ من المرفوعات والآثار‘‘ قابلِ ذکر ہیں اور مطبوع ہیں۔ بعد ازاں! مولانا عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ اور اب ڈاکٹر عبدالحلیم چشتی مدظلہ العالی نگرانی کی ذمہ داری سرانجام دے رہے ہیں۔ (۷)

تخصص فی الفقہ الاسلامی 

دوسرے نمبر پر تخصص فی الفقہ الاسلامی کا آغاز کیا گیا۔ اس شعبہ کی اہمیت بہت زیادہ ہے، اب تک سینکڑوں مفتیانِ کرام تخصص فی الفقہ الاسلامی کی تکمیل کرچکے ہیں، اور متعدد وقیع فتاویٰ جات، نیز فقہی مقالے مکمل ہوچکے ہیں۔ مفتی عبدالسلام چاٹگامی دامت برکاتہم، رئیس دارالافتاء جامعہ کا مقالہ بعنوان ’’بیع الحقوق فی التجارات الرائجۃ الیوم وتحقیقہا‘‘ قابلِ ذکر ہے۔(۸) مفتی ولی حسن ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ اس شعبے کے پہلے رئیس تھے، ان کے بعد مفتی نظام الدین شامزی رحمۃ اللہ علیہ اس منصب پر فائز رہے۔ اس وقت مفتی رفیق احمد بالاکوٹی زید مجدہٗ اشراف کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ تخصص کا دورانیہ دوسال ہوتا ہے۔

تخصص فی الدعوۃ والارشاد 

دینِ اسلام کی تعلیمات کی طرف اُمت کو دعوت دینے، ادیان کا تقابلی مطالعہ کرنے اور باطل فرقوں کے نظریات کا تنقیدی جائزہ لے کر مثبت انداز میں جواب دینے کی غرض سے اس تخصص کا آغاز حضرت بنوریؒ کے دور میں کیا گیا۔ ابتداء میں اس شعبے کے رئیس مولانا محمد اسحاق صدیقی سندیلوی رحمۃ اللہ علیہ تھے، ان کے زیرِ نگرانی متعدد تحقیقی مقالے لکھے گئے، مفتی رضاء الحق صاحب( سابق مدرسِ جامعہ ومفتی وشیخ الحدیث دارالعلوم زکریا، جو ہانسبرگ، ساؤتھ افریقہ) نے اسی شعبہ سے اپنا تخصص مکمل کیا، اور ’’اسلام اور عیسائیت ‘‘کے عنوان سے مقالہ لکھا ہے۔ (۹) جس کی طباعت کا انتظام کیا جارہا ہے۔ بعد میں مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ اور مفتی محمد ولی درویش رحمۃ اللہ علیہ بالترتیب اس شعبے کے نگران رہے۔
حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ دیگرکئی مضامین میں بھی تخصص کرانے کاارادہ رکھتے تھے، مثلاً:۱:- تخصص فی علوم القرآن ومشکلاتہ ، ۲:- تخصص فی علم الکلام والتوحید و الفلسفۃ، ۳:- تخصص فی الادب واللغۃ، ۴:- تخصص فی التاریخ الاسلامی، ۵:-تخصص فی العلوم العصریۃ من الاقتصاد والمعیشۃ والسیاسۃ والاجتماع وعلوم الطبیعۃ الحدیثۃ۔ (۱۰)تاہم :

ما     کل      مایتمنی      المرء      یدرکہ

تجری      الریاح      بمالاتشتھی      السفن

آپ کی حیات میں یہ شعبے شروع نہ ہوسکے، کیا ہی اچھا ہوگا اگر ان تخصصات کا بھی آغاز کردیا جائے۔

شعبہ بنات(بچیوں کی تعلیم)

تیسرے دور میں،شعبہ بنات کا آغاز کیا گیا، وفاق المدارس کا ۴سالہ مجوزہ نصاب برائے بنات پڑھایا جاتا تھا، تاہم بعد میں شعبہ بنات کو وفاق المدارس سے الگ کیا گیا، اب شعبہ بنات میں پڑھنے والی بچیوں کا جامعہ کے تحت امتحان منعقد ہوتا ہے۔ (۱۱)

دراسات(تعلیم بالغان) 

چوتھے دور میں تعلیم بالغان کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے، جس میں بڑی عمر کے لوگ، تجارت پیشہ، ملازمت پیشہ بالخصوص جامعہ کے قرب وجوار میں رہنے والے اور دکانوں میں کام کرنے والے افراد کو اس شعبے میں اور بنیادی دینی معلومات واحکام پر مشتمل نصاب پڑھایاجاتا ہے، جامعہ کا غیر تدریسی عملہ بالخصوص خدام ، ڈرائیورز، چوکیدار وغیرہ کے لیے اس میں شرکت لازمی ہوتی ہے۔(۱۲) یہ وہی شعبہ ہے، جس کو مدنظر رکھ کرحضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے تین سالہ نصاب کی تجویز دی تھی، مفتی احمد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: ’’انگریزی دان طبقے کے لیے ایک آسان اور مختصر نصاب الگ ہو۔‘‘ (۱۳)

تعلیم وتربیت کورس 

حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں اسکولوں کی گرمیوں کی تعطیلات کے دوران اسکول کے بچو ںکو دو مہینے کے لیے داخلہ دیا جاتا تھا، جس کے لیے عارضی طور پر ایک اضافی استاذ کا تقرر کیا جاتا تھا۔ (۱۴)اس عرصے میں ان کو ناظرہ قرآن وغیرہ پڑھایا جاتا تھا۔ اس سلسلے کو ۱۹۹۸ء میں جامعہ کے اساتذہ کی نگرانی میں باقاعدہ شکل دینے کا آغاز کیاگیا۔ صالح مسجد، صدر میں مولانا عطاء الرحمٰن شہید رحمۃ اللہ علیہ کے زیر نگرانی مسجد انتظامیہ کے تعاون سے اس کورس کااہتمام کیا جانے لگا اور رفتہ رفتہ چارکتابیں مرتب کی گئیں: ۴۰ روزہ تعلیم وتربیت کورس بگنرز، پرائمرز، جونیئرز اور سینئرز۔ اب جامعہ میں کامل الحفظ طلباء کے لیے اس کورس کی تکمیل لازمی ہو تی ہے، نیزجامعہ کی زیرِ نگرانی ملک اور بیرونِ ملک متعدد مساجد، مدارس اور مکاتب میں اس کورس کے انعقاد کا اہتمام کیا جاتا ہے۔صرف کراچی شہر میں ۵۰ سے زیادہ مقامات(مدارس، مساجد، مکانات) میں اس کورس کا کامیاب انعقاد ہوتا ہے۔ اب تک ہزاروں کی تعدادمیں عصری تعلیم گاہوں کے بچے مستفید ہوئے ہیں، کئی ایک بچے اس کورس کے باعث مدارس کی طرف رُخ کرجاتے ہیں اور حافظ ، عالم اور مفتی کی سطح تک تعلیم حاصل کرلیتے ہیں۔(۱۵)

دارالافتاء 

دینی مدارس میں دارالافتاء ایک اہم شعبہ ہوتا ہے، بطور شعبہ جس کا آغاز دارالعلوم دیوبند سے ہوا۔ دارالافتاء میں عوام الناس کے دینی مسائل کا شرعی حل زبانی طور پر بتایا جاتا ہے اور تحریری فتاویٰ بھی جاری کیے جاتے ہیں۔جامعہ کی تأسیس کے بعد حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ تدریس کے ساتھ ساتھ خود فتویٰ تحریر فرماتے تھے، ۱۳۸۱ھ مطابق ۱۹۶۱ء سے دارالافتاء کے نام سے مستقل شعبہ قائم کیا گیا، جس کے پہلے رئیس مفتی ولی حسن ٹونکی رحمۃ اللہ علیہ (مفتی اعظم پاکستان) مقرر ہوئے۔(۱۶) اس وقت ’’لجنۃ الافتاء‘‘ کے نام سے سہ رکنی کمیٹی نگرانی کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ مفتی ابوبکر سعید الرحمن، مفتی انعام الحق قاسمی اور مفتی شفیق عارف ’’لجنۃ الافتاء‘‘ کے اراکین ہیں۔ دس مفتیانِ کرام دارالافتاء میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔جامعہ کے دارالافتاء پر مسلمانوں کو اپنے شرعی مسائل کے حل کے لیے مکمل اعتمادہے ۔اب تک تقریباً تین لاکھ سے زیادہ فتاویٰ جاری کیے گئے ہیں۔ دارالافتاء میں ان غیر مسلموں کو کلمہ بھی پڑھایا جاتا ہے جو خود بخود برضا و رغبت آتے ہیں، اور مسلمان ہونے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے نو مسلم لوگوں کو سندِاسلام بھی دی جاتی ہے، جو ملکی اداروں میں معتبر مانی جاتی ہے، اب تک تقریباً ساڑھے چھ ہزار لوگ دارالافتاء میں اسلام قبول کرچکے ہیں۔ یہ شعبہ درحقیقت گھر بیٹھے عوام کو تعلیم دینے کا ایک ذریعہ ہے۔ (۱۷)

تدوین فتاویٰ 

دارالافتاء سے جاری ہونے والے فتاویٰ کی ترتیب وتدوین کے لیے یہ مستقل شعبہ قائم کیاگیا، مفتی انعام الحق قاسمی کی نگرانی میں متخصصین علماء کی ایک جماعت اس شعبہ میں مصروفِ کار ہے، عقائد وعبادات پر مشتمل ۱۰ جلدوں کا کام تقریباً مکمل ہے۔ مستقبل قریب میں یہ ضخیم فتاویٰ منظر عام پر آنے کی امید ہے۔ إفتاء کے میدان میں یہ ایک بیش بہا اضافہ ہوگا۔ (۱۸)

دارالتصنیف:(شعبہ تصنیف وتالیف)

دارالتصنیف میں ایسے موضوعات پر کتب تصنیف کی جاتی ہیں، علمی دنیا میں جن کی ضرورت ہے، عظیم علمی شخصیات کی تصنیفات اردو سے عربی اور عربی سے اردو میں ترجمہ بھی اس شعبہ میں کیا جاتا ہے، اب تک کئی تالیفات وتراجم شائع ہو چکے ہیں۔ کچھ کتابیں زیرِ تکمیل ہیں، فہرست ملاحظہ ہو:
۱:-کشف النقاب عما یقولہ الترمذي: وفي الباب،  ۲:- لب اللباب فیما یقول الترمذي: وفي الباب ، ۳:- نثر الأزھار علی شرح معاني الآثارکے نام سے شرح معاني الآثارللإمام الطحاوي ؒ، ۴:- تعلیم وتربیت کورس(چارحصے) ، ۵:- تعلیم الصرف، ۶:-تمرین الصرف، ۷:- تعلیم النحو، ۸:- تدریب النحو، ۹:- تعلیم الفقہ، ۱۰:- تعلیم التاریخ، ۱۱:- اصولِ تفسیر وعلوم قرآن ،ترجمہ یتیمۃ البیان فی مشکلات القرآن، ۱۲:- منتخب مباحث علم حدیث، ترجمہ عواف المنن، ۱۳:- الاتحاف حواشی آثارالسنن۔ مؤخرالذکر بڑی نایاب کتاب ہے، حضرت انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حواشی تحریر فرمائے ہیں۔ (۱۹)

کتب خانہ (لائبریری)

کتب خانہ کسی بھی علمی ادارے کی اہم ضرورت ہوتا ہے، تاریخ میں کئی مشہور لائبریریوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے آغاز ہی سے ایک ایسے کتب خانے کی بنیاد رکھی تھی، جس میں نادر علمی کتب کا عظیم ذخیرہ جمع کیاگیا تھا۔ کتابیں جمع کرنے کے حوالے سے آپ کا ذوق بے مثال تھا، اس مقصد کے لیے آپ نے اسلامی ممالک کے اسفار کیے، اہلِ علم سے خط وکتابت کا سلسلہ جاری رکھا، اپنے وقت کے عظیم محققِ مخطوطات اور نادر کتابوں کے بارے میں اہم معلومات رکھنے والی شخصیت شیخ زاہد الکوثریؒ(نائب شیخ الاسلام سلطنت عثمانیہ، ترکی) کے ذریعے متعدد کتابیں حاصل کیں، آپ کے نام شیخ کوثریؒ کے ۴۵خطوط اس کا بین ثبوت ہیں، مکتوب نمبر:۴۱ بنام حضرت بنوریؒ کا حسب ذیل اقتباس ملاحظہ ہو:
’’۔۔۔۔ النکت، التأنیب ،الترحیب، الامتاع، اللمحات ، الحاوي، الفرق بین الفرق، علامہ باقلانیؒ کی الإنصاف ، العقیدۃ النظامیۃ اور ان جیسی میرے پاس دستیاب کتابیں آپ کے اشارے کی منتظر ہیں، جب حکم فرمائیں میری جانب سے ہدیۃً پیش ہوں گی۔ البتہ نصب الرأیۃ  کا حساب ادلے بدلے کا ہوگا۔‘‘ (۲۰)
غرض حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی زندگی میں جامعہ کی لائبریری کو بیش بہا نادر کتابوں سے بھردیا تھا، جس میں وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا رہا، حال ہی میں جامعہ کی لائبریری کو وسعت دی گئی۔ نئی ترتیب کے ساتھ جامعہ میں اس وقت پانچ لائبریریاں ہیں، یعنی:قدیم مکتبہ (جو دفتر اہتمام کے بالمقابل ہے، جوحضرت بنوریؒ کے وقت سے قائم ہے)۔ کتب خانہ دارالتصنیف (اب اس کو گوشۂ بنوریؒ کا نام دیاگیا ہے، جس میں بانی جامعہ کی ذاتی کتابیں اور ان سے متعلق کتابیں جمع کی جارہی ہیں)۔ کتب خانہ مجلسِ دعوت وتحقیقِ اسلامی ۔ مکتبۂ شامزیؒ(مفتی نظام الدین شامزیؒ کے صاحبزادگان نے جامعہ کو وقف کیا ہے)۔ ڈاکٹر یوسف مرحوم (میرپور خاص) کا وقف کردہ کتب خانہ، اس کے ساتھ مولانا اصلح الحسینی رحمۃ اللہ علیہ (تلمیذ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ ) کا مختصر کتابی ذخیرہ بھی جامعہ کو وقف کیا گیا ہے۔ ان تمام کتابوں کی یکجا فہرست بنائی جائے تو مجلدات سے قطع نظر محض چھوٹی بڑی کتابوں کے عنوانات ایک لاکھ سے زائد ہیں۔ جامعہ کے کتب خانوں کے لیے ایک سوفٹ ویر بنایا گیا ہے اور کتابوں کے ڈیجٹلائزیشن کے منصبوبے پر کام ہو رہا ہے۔ (۲۱)

ماہنامہ بینات

جامعہ کے دورِ اول ہی میں حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے ماہنامہ بینات کا اردو زبان میں اجراء کیا،تاکہ اس کے ذریعے اسلامی ثقافت اور دینی مسائل کی اشاعت ہو، پہلا شمارہ جمادی الاولیٰ ۱۳۸۲ھ مطابق ۱۹۶۲ء میں جاری ہوا، جس کے مرتب مولانا عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ علیہ اور ناظم مولانا محمد احمد برادر مولانا حبیب اللہ مختارؒ، حال مقیم مکہ المکرمہ تھے۔ ایک ماہ بعد حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ سرپرست اور مولانا ادریس میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ مدیر مسئول مقرر ہوئے۔ حضرت بنوریؒ ‘فکر ونظر، شذرہ ، افکار وسوانح کے ناموں سے اداریہ لکھتے تھے، اور رجب ۱۳۸۴ھ سے بصائرو عبر کے نام سے لکھنا شروع کیا۔ رسالے کی ادارت، نیابت اور معاونت میں حسب ذیل شخصیات کے نام بھی شامل رہے ہیں۔ مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ ، مولانا سعید احمد جلال پوری شہید رحمۃ اللہ علیہ ۔اس وقت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق مد ظلہ العالی مدیر مسئول ہیں، مولانا سید سلیمان یوسف بنوری I نائب مدیر، مولانا اعجاز مصطفیI مدیر معاون اور مولانا فضلِ حق یوسفی مد ظلہ العالی ناظم ہیں۔ ماہنامہ بینات میں چھپنے والے بعض مضامین کو الگ کتابی شکل میں مکتبہ بینات سے شائع کیا گیا، جن میں حضرت بنوریؒ کے قلم سے لکھے گئے اداریے ’’بصائرو عبر‘‘ نمایاں ہے۔ بینات میں چھپنے والے فقہی مضامین اور فتاویٰ مستقل کتاب کی شکل میں چار جلدوں میں فتاویٰ بینات کے نام سے چھپ گئے ہیں۔ حسب ذیل شخصیات پرخصوصی نمبر بھی شائع کیے گئے ہیں: ۱:-مولانا محمد یوسف بنوریؒ، ۲:- مولانا مفتی احمد الرحمنؒ،۳:- مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیدؒ، ۴:-مفتی نظام الدین شامزی شہیدؒ، ۵:- مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ، ۶:- مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ، ۷:- مولانا عطاء الرحمن شہیدؒ، ۸:- مفتی عبدالمجید دین پوری شہیدؒ۔
کچھ عرصہ تک بینات کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی ایک مختصر پرچہ شائع ہوتا رہا۔ نیز البینات :کے نام سے سہ ماہی عربی مجلہ بھی شائع ہوتا ہے جس کی ذمہ داری مولانا عبدالرؤوف غزنوی، استاذ الحدیث جامعہ نبھا رہے ہیں۔ (۲۲) ماہنامہ بینات نہایت وقیع علمی وتحقیقی رسالہ ہے، جس کے قاری ملک اور بیرونِ ملک کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ حضرت بنوریؒ، مفتی ولی حسن ٹونکیؒ، مولانامحمد یوسف لدھیانویؒ اور ان جیسے دیگر محقق علماء کے مضامین اور مقالہ جات بینات میں چھپتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مجلہ میں چھپنے والے مقالات اس معیار کے ہوتے ہیں کہ پاکستان کی جدید جامعات (یونیورسٹیز)میں انہیں ترقی کے لیے قبول کیا جاتا رہا ہے۔(۲۳)حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل کے سلیکشن بورڈ کی تشکیل کردہ جنرلز کمیٹی کے اجلاس،(۲۳جنوری ۲۰۱۹ء ) زیرِ صدارت ڈاکٹر قبلہ ایاز، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد میں فیصلہ کیا گیاکہ ہائر ایجوکیشن (ایچ ای سی) کے منظور شدہ جرائد کے ساتھ مزید ۴۸ جرائد میں چھپنے والے تحقیقی مضامین سے کونسل کے شعبہ ریسرچ کے افسران کی ترقی کے لیے مطلوبہ شرط یعنی ملکی وبین الاقوامی شہرت کے حامل جرائد میں شائع شدہ ۱۰ تحقیقی مقالات پوری ہوگی، ان ۴۸جراید میں مجلہ بینات بھی شامل ہے۔ (۲۴)
جامعہ کے شعبہ جات میں دواہم شعبے اور بھی ہیں، ایک شفاخانہ( ڈسپنسری): جس میں جامعہ کے طلباء، اساتذہ اور دیگر عملے کے لیے علاج ومعالجے کا معقول انتظام ہے، ایک جنرل فزیشن اور ایک ڈینٹل سرجن روزانہ کے حساب سے علاج کرتے ہیں، جبکہ بوقتِ ضرورت باہر کے ہسپتالوں سے علاج کرایا جاتا ہے، علاج اور تمام دوائیوں کا انتظام جامعہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ دوسرا شعبہ:علامہ بنوری ٹرسٹ ہے، یہ شعبہ مساجد ومدارس کے الحاق اور رجسٹریشن میں تعاون کرتا ہے۔ اب تک ہزاروں مساجد ومدارس کا الحاق ہو چکا ہے۔ یہ شعبہ جامعہ کی وقف پراپرٹی کا انتظام وانصرام بھی کرتا ہے، نیز مساجد ومدارس کے حوالے سے پیش آمدہ نزاعات میں تصفیہ کی ذمہ داری بھی اسی شعبے کے حوالے ہے، جس کی نگرانی اساتذۂ حدیث پرمشتمل سہ رکنی کمیٹی کرتی ہے۔ (۲۵)

شاخہائے جامعہ

جامعۃ العلوم الاسلامیہ چونکہ شہر کے وسط میں قائم ہے۔ تأسیس کے وقت موجود رقبہ اور عمارت کافی وسیع تھے، لیکن جب کام پھیل گیا تو موجودہ جگہ اور عمارت تنگ دامنی کی شکایت کرنے لگی، جامعہ کی کل گیارہ شاخیں ہیں، جن میں تقریباً۶۲۳۸طلباء وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ شاخوں کے نام یہ ہیں:
۱:-مدرسہ تعلیم الاسلام ،گلشن عمرؓ، سہراب گوٹھ، کراچی ، ۱۹۷۵ء     ۲:-مدرسہ عربیہ اسلامیہ، غازی ٹاؤن، ملیر، کراچی، ۱۹۸۵ء 
۳:-مدرسہ رحمانیہ، بلال کالونی ،ملز ایریا، کراچی، ۱۹۹۱ء     ۴:-مدرسہ خلفاء راشدینؓ، پرانا گولیمار، کراچی، ۱۹۹۰ء 
۵:-مدرسہ دارالعلوم عثمانیہ ،بہار کالونی، کراچی، ۱۹۹۹ء     ۶:-مدرسہ رشیدیہ، پی آئی بی کالونی، کراچی، ۱۹۹۶ء 
۷:-مدرسہ حفصہؓ(بنات)، شاہ فیصل کالونی، کراچی        ۸:-مدرسہ بدرالعلوم، شاہ نواز بھٹو کالونی، کراچی، ۱۹۹۶ء 
۹:-مدرسہ تعلیم القرآن، ولی محمد گوٹھ ملیر، کراچی، ۱۹۹۷ء     ۱۰:-مدرسہ تعلیم الاسلام، نزد اسلامیہ کالج، کراچی، ۲۰۰۰ء 
۱۱:-مدرسہ عربیہ اسلامیہ ،چلیا ، ٹھٹھہ، سندھ، ۱۹۸۸ء 

حواشی و حوالہ جات 

۱:- بشکریہ جناب مولانا امداداللہ، ناظم تعلیمات واستاذالحدیث جامعہ
۲:- بشکریہ جناب قاری محمد زبیر، نگران شعبہ حفظ وناظرہ
۳:- بشکریہ جناب مولانا لطف الرحمن مسئول صفوفِ عربیہ
۴:- مفتی احمد الرحمن، (جامعہ کادورجید، ماہنامہ بینات)، اشاعت خاص(۱۹۷۸ء )،ص :۲۴۱
۵:- مفتی احمد الرحمن، (ماہنامہ بینات)، اشاعت خاص(۱۹۷۸ء ) ،ص :۲۴۹
۶:- جناب مولانا سعد شمیم، نگران، بنوری ایجوکیشن سسٹم نے یہ معلومات فراہم کی ہیں، فجزاہ اللہ خیراً
۷:- ماہنامہ بینات اشاعت خاص (۱۹۷۸ء)،ص: ۲۶۰
۸:- مفتی رفیق احمد بالاکوٹی زید مجدہٗ 
۹:- ماہنامہ بینات ،اشاعت خاص(۱۹۷۸ء )، ص :۲۴۲-۲۶۰،۲۶۱
۱۰:- ماہنامہ بینات، اشاعت خاص(۱۹۷۸ء ) ،ص: ۲۰
۱۱:- بشکریہ جناب مولانا عبیدالرحمن چترالی، نگران شعبہ بنات، فجزاہ اللہ احسن الجزاء 
۱۲:- بشکریہ جناب مولانا اکرام اللہ، ناظم دفتر
۱۳:- ماہنامہ بینات، اشاعت خاص(۱۹۷۸ء )، ص:۲۴۹ 
۱۴:- ماہنامہ بینات، اشاعت خاص(۱۹۷۸ء )، ص:۲۴۲ 
۱۵:- بشکریہ جناب مولانا لطف الرحمن، مدرس جامعۃ العلوم الاسلامیہ، بنوری ٹاؤن
۱۶:- ماہنامہ بینات، اشاعت خاص(۱۹۷۸ء )، ص:۲۵۱ 
۱۷:- ماہنامہ بینات، اشاعت خاص(۱۹۷۸ء )،ص:۲۴۲، نیزجناب مفتی شعیب عالم صاحب، رفیق دارالافتاء نے بھی بعض معلومات فراہم فرمائیں، فجزاہ اللہ احسن الجزاء 
۱۸:- بشکریہ جناب مولانا عبدالرحمٰن خالد، رفیق شعبہ تدوین فتاویٰ
۱۹:- بشکریہ جناب مولانا سید سلیمان یوسف بنوری، نگران دارالتصنیف، ونائب مہتمم جامعہ، فجزاہ اللہ أحسن الجزاء 
۲۰:- مولاناسید سلیمان یوسف بنوری، مکاتیب علامہ محمد زاہد کوثری رحمۃ اللہ علیہ بنام مولاناسید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ ، ماہنامہ بینات کراچی (جمادی الاخریٰ ۱۴۴۰ھ مارچ ۲۰۱۹ء) جلد:۸۲، شمارہ:۶، صفحات:۲۱-۲۸
۲۱:- جناب مولانا یاسر عبداللہ، فاضل ومتخصص جامعہ ومسئول کتب خانہ نے یہ معلومات فراہم کی ہیں، فجزاہ اللہ أحسن الجزاء 
۲۲:- جناب مولانا محمد اعجاز مصطفی، مدیر معاون ماہنامہ بینات نے یہ معلومات فراہم کی ہیں، فجزاہ اللہ أحسن الجزاء 
۲۳:- چشتی، علی اصغر، ڈاکٹرتاریخ ادب وحدیث(اسلام آباد، پورب اکادمی، ۲۰۱۷ء )ص ۳۶۶
۲۴:- آفس آرڈر نمبر: ایف ۶/۹۷، ایڈمن سی آئی آئی/۱۱۴، بتاریخ ۲۵فروری ۲۰۱۹ء 
۲۵:- جناب مولانا اکرام اللہ، ناظم دفتر نے یہ معلومات فراہم کی ہیں، فجزاہ اللہ أحسن الجزاء                                                                                                                                                                                                 (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین