بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

علامہ زیلعی  ؒ کی کتاب ’’نصب الرأیۃ‘‘  تعارف اور منہجِ تخریج

علامہ زیلعی  ؒ کی کتاب ’’نصب الرأیۃ‘‘ 

 

تعارف اور منہجِ تخریج


اس وقت احادیث کی تخریج پر مشتمل سب سے مشہور کتاب ’’نصب الرأيۃ لأحاديث الہدايۃ‘‘ ہے۔ یہ مشہور حنفی فقیہ ومحدث علامہ جمال الدین ابو محمد عبد اللہ بن یوسف زَیلعی (المتوفی: ۷۶۲ھ) کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں علامہ زیلعی  ؒ نے مشہور حنفی فقیہ علامہ علی بن ابوبکر مَرغِینانی  ؒ(المتوفی: ۵۹۳ھ) کی فقہ حنفی میں تصنیف کردہ مشہور کتاب ’’الہدايۃ‘‘ میں استشہاد کردہ احادیث کی تخریج کی ہے۔

علامہ زیلعی  ؒ  کا مختصر تعارف

آپ کا نام نسب یوں ہے: حافظ متقن جمال الدین ابو محمد عبد اللہ بن یوسف زَیلَعِی حنفی (المتوفی: ۷۶۲ھ)، آپ کو زَیلَعِی ’’زَیلَع‘‘ شہر کی نسبت سے کہا جاتا ہے، جو کہ حبشہ کے ساحلی علاقہ میں واقع ہے، اس میں ایک بندرگاہ بھی ہے، آج کل یہ صومالیہ کا حصہ ہے۔ علامہ زیلعی  ؒ نے ایک علمی ماحول میں پرورش پائی، پہلے فقہ کا علم حاصل کیا اور اس میں مہارت حاصل کی، پھر حدیث کی طلب میں لگے اور خوب اہتمام سے علمِ حدیث حاصل کیا اور اپنے وقت کے کبار شیوخ سے حدیث کا سماع کیا اور فاضل ہوئے اور حدیث کے جمع وتالیف میں لگے۔(۱) 

آپ کے مشہور شیوخ 
 

آپ کے مشہور شیوخ میں ’’کنز الدقائق‘‘ کے شارح علامہ فخر زیلعی ؒ اور قاضی علاء الدین ترکمانی  ؒ ہیں۔

علامہ زیلعی  ؒ اور علامہ عراقی  ؒ کا تخریجِ حدیث کے لیے اجتماعی مطالعہ 

آپ نے کتبِ حدیث کے مطالعہ کو لازم پکڑا، یہاں تک فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الہدایۃ‘‘ اور تفسیرِ کشاف کی احادیث کی انتہائی استیعاب کے ساتھ تخریج کی۔ مزے کی بات یہ ہے علامہ زیلعی  ؒ اور علامہ عراقی ؒ نے جن کتابوں کی احادیث کی تخریج کی ہے، اس کے لیے دونوں مل کر کتبِ احادیث کا مطالعہ کیا کرتے تھے، علامہ زمخشری کی تفسیر ’’الکشاف‘‘ کی احادیث کی تخریج پر مشتمل ایک اور کتاب ’’تخريج أحاديث الکشاف‘‘ بھی تصنیف کی۔ علامہ زیلعی ؒ ۷۶۲ھ کو قاہرہ (مصر) میں فوت ہوئے اور وہیں پر دفن ہوئے۔(۲)  رحمہ اللہ رحمۃً واسعۃً۔

عمدہ ترین کتابِ تخریج
 

’’نصب الرأيۃ‘‘ کتبِ تخریج میں عمدہ ترین کتاب ہے، اگر اسے عمدہ ترین نہ شمار کیا جائے تو بھی یہ طرقِ حدیث اور کثیر کتبِ حدیث میں ان کے مقام کی نشاندہی پر مشتمل ہونے کے اعتبار سے اَنفع ہے، اس کے ساتھ ہی حدیث کی سند کے رجال سے متعلق ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال بھی شافی وکافی طور پر بیان کیا ہے کہ میرے علم کے مطابق ان سے پہلے کسی نے ایسے بیان نہیں کیا ہے۔

علامہ زیلعی  ؒ کا حدیث اور علومِ حدیث میں تبحُّر

علامہ زیلعی ؒ کے اس منہج اور علوم سے بعد میں آنے والے اصحابِ کتبِ تخریج خاص طور پر حافظ ابن حجرؒ نے استفادہ کیا ہے۔ شیخ کی کتاب ’’نصب الرأيۃ‘‘ حدیث اور علومِ حدیث میں ان کے تبحُّر اور مصادرِ کثیرہ کے بارے میں وسعتِ اطلاع پر دلالت کرتی ہے۔ علامہ سید محمد بن جعفر کتانی  ؒ نے ’’الرسالۃ المستطرفۃ‘‘ میں اس کتاب کے بارے میں فرمایا کہ: یہ انتہائی مفید تخریج ہے، ان کے بعد آنے والے ہدایہ کے شراح نے اس سے مدد لی ہے، بلکہ حافظ ابن حجرؒ نے بھی اپنی تخریج کردہ کتب میں علامہ زیلعی ؒ کی تخریج سے بکثرت مدد لی ہے۔ (۳)  یہ علامہ زیلعی  ؒ کا فنِ حدیث اور اسماء الرجال میں تبحُّر اور فروعِ حدیث میں ان کی وسعتِ نظری کے کمال کی دلیل و گواہی ہے۔ (۴) 

علامہ زیلعی  ؒ کا طریقۂ تخریج

علامہ زیلعی ؒ کا ’’ نصب الرأيۃ‘‘ میں تخریج کا طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے صاحبِ ہدایہ کی ذکر کردہ حدیث کی عبارت ذکر کرتے ہیں، پھر اس کے بعد تمام طرق و مواضع کے استقصاء کے ساتھ اصحابِ کتبِ حدیث وغیرہ میں سے جس جس نے اس کی تخریج کی ہے، اس کو بیان کرتے ہیں، پھر ان احادیث کو ذکر کرتے ہیں جو صاحبِ ہدایہ کی ذکر کردہ حدیث کے معنی کے لیے شاہد اور مؤید ہوتی ہیں اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ ان احادیث کی تخریج کس کس محدث نے کی ہے، بطور تائید وشاہد ذکر کرنے والی احادیث کے لیے ’’أحادیث الباب‘‘ کا رمز اختیار کرتے ہیں، پھر اگر وہ مسئلہ ائمہ مجتہدین کے درمیان اختلافی ہو تو حنفیہ کے برخلاف موقف اختیار کرنے والے ائمہ نے جن احادیث سے استشہاد کیا ہے انہیں بھی ذکر کرتے ہیں، ان احادیث کے لیے ’’أحادیث الخصم‘‘ کا رمز وعنوان اختیار کرتے ہیں اور یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ کن کن محدثین نے وہ روایت نقل کی ہے۔ علامہ زیلعی  ؒ یہ سارا عمل نہایت صاف اور بے داغ طریقہ اور کمالِ انصاف سے انجام دیتے ہیں، کسی بھی طرح کا مذہبی تعصب وغیرہ انہیں حق بات سے دائیں بائیں نہیں کرسکا۔

 ’’نصب الرأيۃ‘‘ طبعات

یہ کتاب دو دفعہ طبع ہوچکی ہے، ان میں سے پہلی طباعت اس صدی کے اوائل میں ہندوستان میں ہوئی، لیکن یہ طباعت اسانید اور متن دونوں میں اغلاط سے بھری ہوئی ہے، اس میں بعض جگہ ایسی تصحیف اور سقط واقع ہوئے ہیں کہ اس طباعت پر اعتماد ممکن نہیں رہا۔ دوسری طباعت قاہرہ میں مجلسِ علمی پاکستان کی تصحیح اور اشراف کے ساتھ سنہ ۱۳۷۵ھ مطابق ۱۹۳۸ء کو دار المامون سے ہوئی، یہ چار جلدوں میں ایک عمدہ اور محقق طبع ہے۔(۵) 

تخریج میں ترتیب ِفقہی کی رعایت

اس کتاب کی احادیث کی تخریج کی ترتیب کتبِ فقہیہ کے ابواب کی ترتیب پر رکھی گئی ہے۔ کتاب کی ابتدا ’’کتاب الطہارۃ‘‘ کی احادیث کی تخریج سے ہوتی ہے اور ابوابِ فقہیہ کی ترتیب سے آخر تک گئی ہے۔ علامہ زیلعی  ؒنے ابواب کی ترتیب میں اصل کتاب عینی ہدایہ کے مصنف کی ترتیب کی پیروی کی ہے، اسی وجہ سے اس کی مراجعت انتہائی آسان ہے، اس لیے کہ مراجعت کرنے والا اگر اس حدیث کا موضوع اور باب معلوم کرے تو وہ اس باب میں مطلوبہ حدیث کی تخریج دیکھ سکتا ہے۔
علامہ زیلعی  ؒ کے طریقۂ تخریج کے ذیل میں یہ بات گزر چکی ہے کہ اس کتاب کو تخریجِ احادیثِ احکام کے سلسلہ میں ایک ضخیم انسائیکلوپیڈیا جانا جاتا ہے، خواہ ان احادیث سے حنفیہ نے استدلال کیا ہے یا ان کے علاوہ دیگر اصحابِ مذاہبِ متبوعہ نے استدلال کیا ہے۔ یہ ایک عظیم خصوصیت ہے جس کی وجہ سے یہ جلیل القدر کتاب دیگر کتابوں سے ممتاز ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری طرف سے اور تمام مسلمانوں کی طر ف سے اس کتاب کے مصنف علامہ زیلعی  ؒ کو بہترین جزا عطا فرمائے، آمین۔

کتاب میں سے تخریج کی ایک مثال

اس کتاب میں سے تخریج کا ایک نمونہ ومثال ملاحظہ کیجیے! یہ مثال اس حدیث کی تخریج سے متعلق ہے جس میں کپڑے پر منی لگ جائے تو پاک کرنے کی کیفیت بیان کی گئی ہے:
ذیل میں آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ علامہ زیلعی ؒ نے منی کے نجس ہونے یا پاک ہونے کے اختلافی مسئلہ کے بارے میں ہدایہ میں وارد احادیث کی تخریج کرتے ہوئے اپنے منہج کے مطابق سب سے پہلے ’’الحدیث الثالث‘‘ کے عنوان سے صاحبِ ہدایہ کی نجاستِ منی سے متعلق ذکر کردہ نصِ حدیث کو بیان کیا، پھر اس پر غریب ہونے کا حکم لگایا، اس کے بعد یہ بتایا کہ امام دار قطنی  ؒنے اپنی سنن میں اور امام بزارؒ نے اپنی مسند میں اس حدیث کو سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور ان دونوں کی سند کے ساتھ اس حدیث کو ذکر کیا، اس کے بعد ابن الجوزیؒ کا اس حدیث اور اس کے طرق پر مفصل کلام نقل کیاہے، ملاحظہ کیجیے: 

ہدایہ میں ذکر کردہ نصِ حدیث

’’الحديث الثالث : روي عن النبي ـ صلی اللہ عليہ و سلم ـ أنہ قال لعائشۃ رضي اللہ عنہا في المني : ’’ فاغسليہ إن کان رطبا، وافرکيہ إن کان يابسا۔‘‘

ترجمہ: ’’تیسری حدیث: نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے منی کے بارے میں فرمایا کہ: اگر منی تر ہو تو اسے دھو لو اور خشک ہوگئی ہو تو اسے کھرچ لو۔‘‘
علامہ زیلعی  ؒ نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کو غریب قرار دیا اور فرمایا: ’’قلت : غريب۔‘‘
اس کے بعد علامہ زیلعی ؒنے یہ بتایا کہ اسی طرح کی روایت امام دار قطنی  ؒنے اپنی سنن میں اور امام بزارؒ نے اپنی مسند میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے نقل کی ہے، ملاحظہ کیجیے: 
’’وروی الدارقطني في ’’سننہ‘‘ من حديث عبد اللہ بن الزبير: ثنا بشر بن بکر، ثنا الأوزاعي، عن يحيی بن سعيد، عن عمرۃ، عن عائشۃؓ قالت: ’’کنت أفرک المني من ثوب رسول اللہ ـ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ـ إذا کان يابسا، وأغسلہ إذا کان رطبا‘‘. انتہی . ورواہ البزار في ’’مسندہٖ‘‘ وقال : لايعلم أسندہ عن عائشۃ إلا عبد اللہ بن الزبير ہٰذا، ورواہ غيرہ عن عمرۃ مرسلا، انتہی۔ ‘‘
’’حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کپڑے سے منی کو کھرچ دیا کرتی تھی اگر وہ تر ہوتی اور اسے دھو دیا کرتی اگر وہ خشک ہوا کرتی تھی۔ اسے امام بزارؒ نے بھی اپنی مسند میں روایت کیا ہے اور یہ فرمایا کہ وہ نہیں جانتے کہ اس روایت کے راوی عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ  کے علاوہ کسی اور نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے مسنداً نقل کیا ہو۔ امام بزارؒ کے علاوہ بعض محدثین نے اسے حضرت عمرہ ؒ سے مرسلا ً    نقل کیا ہے۔ ‘‘
اس کے بعد اس حدیث پر ’’التحقیق‘‘ سے علامہ ابن الجوزیؒ کا کلام نقل کیا ہے:
’’ قال ابن الجوزي في ’’التحقيق‘‘ : والحنفيۃ يحتجون علی نجاسۃ المني بحديث رووہ عن النبي صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم أنہٗ قال لعائشۃؓ : ’’ اغسليہ إن کان رطبا وافرکيہ إن کان يابسا ‘‘. قال : وہٰذا حديث لا يعرف، وإنما روي نحوہ من کلام عائشۃؓ، ثم ذکر حديث الدارقطني المذکور، واللہ أعلم۔‘‘
’’ابن الجوزیؒ نے ’’التحقیق‘‘ میں فرمایا کہ حنفیہ منی کی نجاست پر اس حدیث سے حجت پکڑتے ہیں جسے وہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے نقل کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے فرمایا کہ: اگر منی تر ہو تو اسے دھو لو اور خشک ہوگئی ہو تو اسے کھرچ لو۔ یہ حدیث غیر معروف ہے، ہاں! البتہ اس طرح کی بات حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کے کلام کے طور پر مروی ہے، اس کے بعد دار قطنی  ؒ کی مذکورہ بالا روایت ذکر کی، واللہ اعلم۔‘‘
حدیث کا ایک محمل اور اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:
’’ومن الناس من حمل فرک الثوب علی غير الثوب الذي يصلی فيہ وہٰذا ينتقص بما وقع في ’’مسلم‘‘ : کنت أفرکہ من ثوب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم فيصلي فيہ. وعند أبي داود: ثم يصلي فيہ. والفاء ترفع احتمال غسلہ بعد الفرک، وحملہ بعض المالکيۃ علی الفرک بالماء، وہٰذا ينتقص بما في ’’مسلم‘‘ أيضا: لقد رأيتني وإني لأحکہ من ثوب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم بظفري، واللہ أعلم۔‘‘
’’بعض لوگوں نے حدیث میں وارد کپڑے پر لگی منی کے کھرچنے کو نماز کے علاوہ پہنے جانے والے کپڑے یعنی سونے والے کپڑے پر محمول کیا ہے، ان کا یہ محمول کرنا صحیح مسلم میں وارد روایت سے ٹوٹ جاتا ہے کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے فرمایا کہ: میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کپڑے سے منی کو کھرچتی تھی اور آپ اس میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ ابو داود کی روایت میں فرمایا کہ پھر اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے، اس حدیث میں وارد ’’فیصلي‘‘ کا حرفِ فاء کھرچنے کے بعد دھونے کے احتمال کو ختم کرتا ہے، کیوں کہ حرفِ فاء کا تقاضا ہے کہ کھرچنے کے بعد نماز سے پہلے کسی اور عمل کا فاصلہ نہ ہو۔ بعض مالکیہ نے ان روایات کو پانی کے ساتھ کھرچنے پر محمول کیا ہے، جب کہ یہ بھی صحیح مسلم کی دوسری روایت سے ٹوٹ جاتا ہے کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے کپڑے سے منی کو اپنے ناخن سے کھرچتی تھی۔‘‘
اس کے بعد علامہ زیلعی  ؒنے أحادیث الباب، حدیث آخر، اور الآثار کے عنوان سے مذکورہ بالا حدیث (حنفیہ کے مستدل) کے مؤیدات اور شواہد کو ذکر کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں: 
’’ - أحاديث الباب : روی البخاري ومسلم من حديث عائشۃؓ أنہا کانت تغسل المني من ثوب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم، فيخرج، فيصلي وأنا أنظر إلی بقع الماء في ثوبہ، انتہی. قال البيہقي: وہٰذا لا منافاۃ بينہ وبين قولہا : کنت أفرک من ثوبہ ثم يصلي فيہ کما لا منافاۃ بين غسلہ قدميہ ومسحہ علی الخفين، انتہی. وقال ابن الجوزي: ليس في ہٰذا الحديث حجۃ لأن غسلہ کان للاستقذار لا للنجاسۃ۔‘‘
 - حديث آخر إنما يغسل الثوب من خمس : سيأتي قريباً ۔
 - الآثار : روی ابن أبي شيبۃ في ’’مصنفہٖ‘‘ حدثنا حسين بن علي عن جعفر بن برقان عن خالد بن أبي عزۃ قال : سأل رجل عمر بن الخطاب فقال : إني احتلمت علی طنفسۃ، فقال : ’’إن کان رطباً فاغسلہ وإن کان يابساً فاحککہ وإن خفي عليک فارششہ بالماء۔ انتہی۔
‘‘
’’احادیثِ باب: امام بخاری ؒاور امام مسلمؒ نے حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  سے نقل کیا ہے کہ وہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے کپڑے پہ لگی ہوئی منی کو دھویا کرتی تھیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اسی کپڑے میں نماز کے لیے نکلتے اور نماز پڑھتے، جب کہ میں آپ کے کپڑے پر پانی کے دھونے کے نشان کو دیکھا کرتی تھی۔ امام بیہقی ؒ نے فرمایا کہ: اس حدیث میں اور سابقہ روایات میں حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کے فرمان: ’’میں آپ کے کپڑے سے منی کو کھرچتی، پھر آپ اس میں نماز پڑھا کرتے‘‘ میں کوئی منافات نہیں، جیسا کہ وضو میں بغیر موزوں کے پاؤں دھونے اور موزوں پر مسح کرنے والی روایات میں کوئی منافات نہیں، کیوں کہ دونوں الگ الگ حال پر محمول ہیں کہ جب منی تر ہوتی تو دھولیا کرتیں اور جب خشک ہوتی تو اسے اپنے ناخن سے یا کسی اور چیز سے کھرچ کر صاف کیا کرتی تھیں۔ ابن الجوزیؒ نے (اپنے فقہی مسلک کی رعایت کرتے ہوئے اس حدیث کا محمل بیان کرتے ہوئے) کہا کہ یہ حدیث منی کی نجاست پر استدلال کرنے والوں کے لیے کوئی حجت نہیں، کیوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کا دھونامیل کچیل دور کرنے کے لیےتھا، نہ کہ منی کے نجس ہونے کی وجہ سے۔ 
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کا مقصد اگر صرف میل کچیل دور کرنا تھا، نجاست کی وجہ سے نہیں دھویا تو وہ تو کھرچنے سے حاصل ہوجاتا ہے، پھر دھونے کی کیا ضرورت تھی؟جب کھرچنے کی جگہ دھویا تو اس سے معلوم ہوا کہ یہ دھونا نجاست دور کرنے کے لیے تھا، جیساکہ منی خشک ہونے کی وجہ سے یہ مقصد کھرچنے سے بھی حاصل ہوجایا کرتا تھا۔(۶) 
اس کے بعد ’’حدیث آخر‘‘ سے ایک اور حدیث کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ: یہ حدیث آگے آنے والی ہے کہ پانچ چیزوں سے کپڑے کو دھویا جاتا ہے، جن میں سے ایک منی بھی ہے۔ پھر ’’الآثار‘‘ کے عنوان سے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  کا یک اثر نقل کیا کہ ایک آدمی نے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  سے پوچھا کہ: مجھے ایک ’’طنفسۃ‘‘ (چٹائی، قالین، دری) پر احتلام ہواہے؟ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے اس سے فرمایا کہ: اگر منی ابھی تک خشک نہیں ہوئی اور تر ہے تو اسے دھو لو اور اگر خشک ہوگئی ہے تو اسے کھرچ لو اور اگر یہ تم پر مخفی ہو تو اس چٹائی پر پانی کی چھینٹیں مارو۔ ‘‘
چوں کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے، اس لیے ’’أحادیث الخصوم‘‘ کے عنوان سے فریق مخالف کی مستدل احادیث اور ان کے مخرجین اور طرق اور ان پر کلام کو نقل کر رہے ہیں: 
’’- أحاديث الخصوم: روی أحمد في ’’ مسندہٖ ‘‘ حدثنا معاذ بن معاذ أنبأ عکرمۃ بن عمار عن عبد اللہ بن عبيد بن عمير عن عائشۃؓ قالت : کان رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم يسلت المني من ثوبہ بعرق الأذخر، ثم يصلي فيہ، ويحتہ يابساً، ثم يصلي فيہ. انتہی. 
 - حديث آخر: أخرجہ الدارقطني في ’’سننہ‘‘ والطبراني في ’’معجمہ‘‘ عن إسحاق بن يوسف الأزرق عن شريک القاضي عن محمد بن عبد الرحمٰن عن عطاء عن ابن عباسؓ قال : سئل النبي صلی اللہ عليہ وسلم عن المني يصيب الثوب قال : ’’إنما ہو بمنزلۃ المخاط أو البزاق، وقال : إنما يکفيک أن تمسحہ بخرقۃ أو بأذخرۃ۔‘‘ انتہی. قال الدارقطني: لم يرفعہ غير إسحاق الأزرق عن شريک۔ انتہی. قال ابن الجوزي في ’’التحقيق‘‘: وإسحاق إمام مخرج لہ في ’’الصحيحين‘‘ ورفعہ زيادۃ وہي من الثقۃ مقبولۃ ومن وقفہ لم يحفظ. انتہی. ورواہ البيہقي في ’’المعرفۃ‘‘ من طريق الشافعي ثنا سفيان عن عمرو بن دينار وابن جريج کلاہما عن عطاء عن ابن عباسؓ موقوفاً وقال : ہٰذا ہو الصحيح موقوف وقد روي عن شريک عن ابن ليلی عن عطاء مرفوعا ولا يثبت۔ انتہی۔
‘‘
’’سب سے پہلے مسند احمد سے امام احمدؒ کی روایت کو سند کے ساتھ نقل کیا کہ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا   فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اذخر (ایک خاص قسم کی گھاس) کی ٹہنی سے منی کو اپنے کپڑے سے سونت کر صاف فرماتے، پھر اسی کپڑے میں نماز پڑھا کرتے تھے، اور اگر منی خشک ہو تو اسے کھرچتے تھے، پھر اس کپڑے میں نماز ادا کرتے تھے۔ایک اور حدیث امام دار قطنی  ؒنے اپنی سنن میں اور امام طبرانی  ؒنے اپنی معجم میں حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے نقل کی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کپڑے کے بارے میں پوچھا گیا جس پر منی لگ جاتی ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ وہ تو ناک کی ریزش کی طرح ہے یا تھوک کی طرح ہے، آپ کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ کپڑے کے ایک ٹکڑے یا کسی ٹہنی سے اسے پونچھ لیں۔ امام دارقطنی  ؒنے اس روایت پر کلام کرتے ہوئے فرمایا کہ: شریک سے اسحاق الازرق کے علاوہ کسی اور نے مرفوعاً نقل نہیں کیا، یعنی یہ ان کا تفرد ہے۔ ابن الجوزیؒ نے ’’التحقیق‘‘ میں فرمایا کہ: اسحاق الازرق صحیحین کا راوی ہے، ان کا مرفوعاً نقل کرنا زیادتی ہے اور ثقہ راوی کی زیادتی مقبول ہوتی ہے اور جس راوی نے موقوفاً نقل کیا ہے اس نے اس زیادتی کو حفظ نہیں کیا۔ امام بیہقی ؒنے ’’المعرفۃ‘‘ میں امام شافعی ؒکے طریق سے سفیانؒ سے نقل کیا، وہ عمرو بن دینارؒ اور ابن جریج  ؒسے نقل کرتے ہیں، یہ دونوں عطاء ؒکے واسطہ سے حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے موقوفاً نقل کرتے ہیں۔ امام بیہقی  ؒنے فرمایا کہ: یہی صحیح ہے کہ یہ روایت موقوف ہے، جب کہ اسے شریک عن ابن لیلی عن عطاء کے طریق سے مرفوعاً بھی نقل کیا گیا ہے، لیکن یہ مرفوعاً ثابت نہیں۔‘‘
علامہ زیلعی ؒ جیسے جلیل القدر فقیہ ومحدث کے تعارف اور منہجِ تخریج کو علی وجہ البصیرت سمجھنے کے لیے ایک مستقل تصنیف کی ضرورت ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں انتہائی اختصار کے ساتھ علامہ زیلعی  ؒ کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان کے منہجِ تخریج کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے، تاکہ علومِ حدیث کے طلباء اور شائقین کو اس فن سے مناسبت پیدا ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کے محسن تمام اہلِ علم خاص طور پر فقہاء ومحدثین کو اپنی شان کے مطابق جزاء خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے پوری زندگی اور تمام صلاحیتیں لگا کر اسلامی علوم کو نہ صرف محفوظ رکھا، بلکہ نہایت عمدہ انداز میں اگلی نسلوں کو منتقل کیا۔

حوالہ جات 

۱- دیکھیے: أصول التخريج ودراسۃ الأسانيد، ص: ۱۸، البشریٰ، کراچی
۲- دیکھیے: حاشیہ أصول التخريج، ص: ۱
۳-حافظ ابن حجرؒ نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے اور اپنی دو کتابوں ’’الدرايۃ في تخریج أحادیث الہدايۃ‘‘ (ص:۱۰) اور ’’التلخیص الحبیر‘‘ (ص:۹) کے مقدمہ میں ’’ نصب الرأيۃ‘‘ کی تخاریج سے استفادہ کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
۴- الرسالۃ المستطرفۃ، ص: ۱۸۸
۵- اسی نسخہ کا عکس لے کر دار إحیاء التراث العربي اور المکتب الإسلامي بیروتاور دار الحدیث، أزہر قاہرہسے بھی چھاپا گیا ہے۔
۶- یہ جواب بندہ کی طرف سے ہے۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین