بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

بینات

 
 

طلبۂ تخصص کے لیےچند کارآمد نکات و تجربات

طلبۂ تخصص کے لیےچند کارآمد نکات و تجربات


ڈاکٹر احمد معبد عبد الکریم حفظہ اللہ (ولادت:۱۳؍نومبر ۱۹۳۹ء / یکم شوال ۱۳۵۸ھ)، معاصر مصری عالم ومحقق اور علومِ حدیث کے شناور ہیں، علمی حلقوں میں ان کے ’’تدریبُ الراوي للسُّيوطي‘‘ اور ’’فتحُ المغيث شرحُ ألفيۃِ الحديث للسَّخاوي‘‘ کے دروس کی دُھوم ہے۔ متعدد مفید کتابوں کے مؤلف اور کئی نسلوں کے استاذ ومربّی ہیں، عالمِ عربی کی متعدد جامعات میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے ہیں، آج بھی جامعہ ازہر میں ان کے ہفتہ واری درس میں اہلِ علم و طلبہ کرام کا ہجوم اُمڈ آتا ہے اور ازہر کے وسیع برآمدے بھی تنگ دامنی پر شکوہ کناں دکھائی دیتے ہیں۔ شیخ موصوف کی نمایاں کاوشوں میں علامہ ابن سید الناس یعمری  رحمۃ اللہ علیہ  کی ’’النفح الشذي شرح جامع الترمذي‘‘ کی تحقیق (۳جلدیں، دار العاصمۃ، ریاض، ومکتبۃ الامام البخاری، مصر)، ’’الحافظ العراقِي وأثرہٗ في السنّۃ‘‘ (پانچ جلدیں، أضواء السلف، ریاض)، ’’علل الحديث بين القواعد النظريۃ والتطبيق العملي‘‘، باشتراک (مکتبۃ الايمان، قاہرہ)، ’’السنۃ النبويۃ، شبہات وردود ‘‘ ( مشيخۃ الازہر، قاہرہ) ودیگر تالیفات شامل ہیں۔ حال ہی میں شیخ کے ایک عزیز شاگرد ڈاکٹر صلاح الدین شامی حفظہ اللہ نے ان کی اسانیدِحدیث کے متعلق ’’ثَبَتْ‘‘ مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ ’’فیضُ الکریم في ترجمۃ وأسانيد شيخ المحدّثين أحمد معبد عبد الکريم‘‘ (المکتبۃ الخيريۃ، قاہرہ، مصر ۱۴۴۳ھ/ ۲۰۲۲ء) کے دل کش نام سے موسوم اس کتاب کی ابتدا میں لگ بھگ ایک سو سترہ صفحوں میں شیخ نے اپنے علمی سفر کی آپ بیتی قلم بند کی ہے، جس میں طفولت سے مشیخت تک کی علمی سرگزشت، اساتذہ ومشائخ کا عطربیز تذکرہ، اُن کے چنیدہ افادات اور اپنےذاتی تجربات زیبِ قرطاس کیے ہیں۔ ان صفحات کے مطالعہ کے دوران بہت سے قیمتی نکات اور تجربات نگاہ سے گزرے، اور اہلِ علم و طلبۂ علومِ حدیث کے لیے کارآمد محسوس ہوئے، پیشِ نگاہ تحریر میں اُنہیں افادۂ عام کے لیے ’’ریختہ ‘‘کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا جارہا ہے۔ 

قدماء اور معاصرعلماء کی کتابوں میں موازنہ

ڈاکٹر محمد سعاد جلال (استاذِ فقہ واصولِ فقہ حنفی، کلیہ شریعہ، جامع ازہر) شیخ احمد کے ابتدائی اساتذہ میں سے ہیں، ایک بار انہوں نے درس گاہ میں انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: 
’’معاصرین کی بنسبت علماء وائمہ متقدمین کی کتابوں کا زیادہ مطالعہ کیا کرو۔‘‘ (ص:۳۰)
شیخ احمد کے مطابق: اُنہیں محسوس ہوا کہ ہم طلبہ ان کی اس نصیحت سے حیرت زدہ ہیں تو مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: 
’’اگر تم متقدمین کی کتابیں پڑھو گے تو وہ تمہیں علمی اعتبار سے معاصرین کے ہم پلہ کریں گی، اور ان سے مباحثہ کے لائق کر دیں گی، اس کے برخلاف اگر صرف ہم عصر مؤلفین کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہو گے تو علمی اعتبار سے ان سے پیچھے ہی رہو گے۔‘‘ پھر اپنی مثال پیش کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’مثلاً: اگر میں اصولِ فقہ، عقائد، یا تفسیرِ قرآن کریم کے کسی مسئلے کے متعلق(امام)  فخر الدین رازی رحمہ اللہ کی لکھی چند سطریں بھی پڑھوں گا تو زندگی بھر اُن سے فائدہ اٹھاتا رہوں گا، جب کہ اسی مسئلے کے متعلق کسی معاصر عالم کے قلم سے کئی صفحات بھی پڑھ ڈالوں تو متقدمین کے ذکر کردہ اصولوں میں کوئی قابلِ ذکر اضافہ نہیں مل پائے گا۔   (ص:۳۰)
اس زریں نصیحت کو سپردِ قلم کرنے کے بعد شیخ احمد معبد لکھتے ہیں: 
’’میں نے یہ نصیحت‘ فقہِ حنفی کی اس کتاب کے حاشیہ پر لکھ لی تھی جسے ہم شیخ سے پڑھا کرتے تھے، ان کی یہ نصیحت مجھے ہمیشہ یاد رہی، اور اس وقت سے آج تک اپنے علمی سفر میں اسے تھامے ہوئے ہوں، اور میرے حصولِ علم کی بنیادوں میں اس کا گہرا کردار رہا ہے، اپنے طلبہ وطالبات کے سامنے یہ نصیحت بار بار دہراتا رہتا ہوں، اور بہت سے طلبہ کچھ مدت بعد مجھ سے رابطہ کرکے بتاتے رہتے ہیں کہ علمی طور پر اس نصیحت سے انہیں بہت فائدہ ہوا۔‘‘               (ص:۳۱)

ایک منفرد طریقۂ تدریس

شیخ محمود حسن ربیع حفظہ اللہ، شیخ احمد معبد کے ابتدائی اساتذہ میں سے ہیں، علومِ حدیث سے متعلق کئی کتابوں کے محقق ہیں، جن میں حافظ زین الدین عراقی  رحمۃ اللہ علیہ  کی ’’شرحُ الألفیۃ‘‘ اور انہی کی ’’تقریبُ الأسانید‘‘ اور اس کی شرح ’’طرحُ التثریب في شرح التقریب‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ شیخ احمد معبد لکھتے ہیں:
’’وہ ہمیں مطالعہ کا مضمون پڑھاتے تھے، جسے انہوں نے ایک عام تہذیبی موضوع میں تبدیل کر دیا تھا، ہم (ان کے) پیریڈ میں مطالعہ کی (نصابی) کتاب کا کوئی ایک موضوع پڑھتے، پھر وہ ہمیں اُس دور کے کسی تہذیبی مسئلے کے متعلق مفید گفتگو کی جانب متوجہ کردیتے، مثلًا: اُس زمانہ میں ڈاکٹر طہٰ حسین(مصر کے معروف متنازع ادیب) نے جاہلی ادب کے متعلق (مشہورِ زمانہ) بحث چھیڑ رکھی تھی، جو رائے عامہ، تعلیم یافتہ طبقوں اور علمائے ازہر کی توجہات کا مرکز بنی ہوئی تھی، شیخ ہمیں (اس حوالے سے) اخبارات ورسائل میں شائع شدہ مواد اور اس موضوع سے متعلق علمی مجلسوں کی گفتگو سناتے، جن میں وہ شرکت کرتے تھے، دلائل کی روشنی میں اپنا موقف واضح کرتے، اور ہمیں اُبھارتے کہ ہم خود کو چھوٹا جان کر اپنی وسعت کے مطابق ایسی بحثوں کا مقابلہ کرنے سے نہ گھبرائیں (بلکہ حسبِ استعداد اپنا حصہ ڈالیں)، خواہ رسائل وجرائد کے کسی دفتر میں جاکر ہو، یا اس قضیے کے خلاف کچھ جملے پیش کرکے ہی کیوں نہ ہو اور اُن صاحب (ڈاکٹر طہ حسین) کی باتوں میں جو (علمی)غلطیاں اور ادبِ عربی واسلامی مآخذ کے متعلق طعن وتشنیع ہے، انہیں واضح کریں۔ وہ ہم سے مطالبہ کرتے کہ ہم مختصر مضامین تیار کر کے مطالعہ کے سبق میں بیان کریں۔ یوں مطالعہ کا یہ مضمون ہمارے لیے ایک دلچسپ فکری تحریک کی صورت اختیار کرگیا، اس پیریڈ میں ہمیں بے چینی سے شیخ محمود ربیع کی آمد کا انتظار رہتا۔ اسی دوران انہوں نے ہی پہلے پہل ماہانہ دیواری رسالے کا خیال پیش کیا، جسے ہم تیار کرکے معہد کے کسی ہال میں لٹکائیں، تاکہ ہر آنے جانے والا اس کا مطالعہ کر کے مستفید ہو۔‘‘                                                              (ص:۳۲)

علمِ منطق ہر ایک کے بس کا نہیں! 

شیخ سید دَوَاخلی  رحمۃ اللہ علیہ  بھی شیخ احمد معبد کے اساتذہ میں سے ہیں، شیخ احمد ان کے طرزِ تدریس کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: 
’’انہوں نے ہمیں علمِ منطق کے موضوع پر ’’شرحُ الخَبِیْصِي (التہذيب في شرح التہذيب للتفتازاني)‘‘ مکمل پڑھائی تھی، ان کی تشریح کی روشنی میں ہم نے منطق کے مباحث کامل طور پر حاصل کیے، حتیٰ کہ ’’کتابُ الخَبِیْصِي‘‘ کے مندرجات میں سے ہر مسئلے کا جواب ہمارے لیے آسان ہوگیا، کتاب کے مسائل کی بکثرت وضاحت کی وجہ سے اگر کسی مسئلے کی کافی تشریح کے بعد کوئی (غافل) طالبِ علم اُس مسئلے کے بارے میں سوال کرتا تو وہ ناراض ہوکر کہا کرتے تھے: ’’کيف يطلب منّي ’’سَمْکَرِي‘‘ أن اُعَلِّمہ المنطق؟!‘‘ (ویلڈنگ کرنے والا مجھ سے یہ مطالبہ کرتا ہی کیوں ہے کہ میں اُسے علمِ منطق سکھاؤں؟!)۔ اشارہ اس طرف ہوتا تھا کہ علمِ منطق دقیق عقلی علم ہے، اُس کی تشریح کے دوران بیدار مغزی کی ضرورت ہے، ورنہ منطقی مباحث اور ان کی مثالوں کو سمجھنا دشوار ہے۔‘‘        (ص:۳۳)

تفسیرِ قرآن کا اسلوبِ تدریس

ڈاکٹر فتحی عبد المنعم رحمہ اللہ، شیخ احمد کو ’’تفسیرِ نسفی‘‘ (مدارکُ التنزيل وحقائقُ التأويل) پڑھاتے تھے، اُن کے طرزِ تدریس کے تعلق سے شیخ لکھتے ہیں: 
’’ان کی تدریس کا اہم فائدہ یہ تھا کہ وہ قرآنِ کریم کی آیات کو معاصر مسائل کے ساتھ مربوط کرتے اور اُن مسائل کے متعلق قرآنِ کریم کی رہبری فراہم کرتےتھے۔ بعض آیات کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے: ’’ہٰذہ ہي الدبلوماسيۃ التي يتميّز بہا عن الدبلوماسيات المعاصرۃ۔‘‘ (یہ قرآنی ڈپلومیسی (حکمتِ عملی، پالیسی) ہے، جو دورِ حاضر کی ڈپلومیسیوں سے جُدا ہے)۔‘‘                                           (ص:۳۴)

ذہین طلبہ، کامیاب اُستاذ کا راز

شیخ حمزہ بن ابراہیم جبالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے شیخ احمد کو علمِ نحو کی معروف کتاب ’’شرحُ ابنِ عقيل علی ألفيۃ ابن مالک‘‘ پڑھائی تھی، اُن کے علم وفضل اور جذبۂ خیر خواہی کی بناپر طلبہ کو شیخ سے بہت محبت تھی، اتفاق سے ان کا کسی اور شہر کے ادارے میں تبادلہ ہوگیا، تو بعض طلبہ نے اُنہیں نئے عہدے کی مبارک باد پر مشتمل خطوط تحریر کیے، شیخ احمد معبد نے بھی انہیں خط لکھا، جس کے جواب میں انہوں نے طویل خط ارسال کیا، شیخ لکھتے ہیں: 
’’ میری یادداشت کے مطابق اس جواب کے مضمون میں انہوں نے یہ نکتہ بھی لکھا تھا: ’’مجھ سے آپ لوگوں کو اگر علمی فائدہ پہنچا ہے تو اس میں حصولِ علم وفہم کے تئیں آپ لوگوں کی حد درجہ طلب کا دخل ہے؛ کیوں کہ کوئی کسان خواہ کاشت کاری میں کتنا ہی ماہر ہو، سازگار زمین سے ہی اسے اچھی پیداوار حاصل ہوسکتی ہے، آپ لوگ سازگار زمین تھے، جس کی بدولت میری کاشت کاری کی عمدہ پیداوار برآمد ہوئی۔‘‘                          (ص:۳۷،۳۸)
یادش بخیر! امام ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  کے حالات میں لکھا ہے کہ ان کے استاذ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک موقع پر اُن سے کہا تھا: ’’ما انتفعتُ بک أکثرُ مما انتفعتَ بي‘‘ (تم نے مجھ سے اِتنا استفادہ نہیں کیا، جتنا میں نے تم سے فائدہ اٹھایا)۔ سطحی ذہن اس نوعیت کے جملوں سے اُلجھ جاتا ہے، آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  جیسے نادرِ روزگار اُستاذ اپنے شاگرد سے اس قدر استفادہ کریں کہ خود شاگرد کا استفادہ اُس سے کم رہ جائے؟! حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری  رحمۃ اللہ علیہ  نے نہایت دقت رسی سے اس گراں قدر جملے کی کیا خوب عقدہ کشائی فرمائی ہے، پڑھیے اور عَش عَش کر اُٹھیے! حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں:
’’قال شيخنا: وظاہرہٗ مشکلٌ؛ لأنّ أبا عيسی الترمذي وإنْ کان إماماً حافظاً مُتقِناً يُضربُ بہ المثلُ، لکنَّ الإمام البُخاري إمامُ ہٰذا الفن لا يُجاری. قال: فلعلّ الغرض منہ أنّ الحافظ الترمذي أخذ منہ حظاً وافراً من العلم مالم يأخذ منہ غيرُہ، فکما أنّ التلميذ يحتاجُ  إلی شيخٍ محققٍ، کذٰلک يحتاجُ الشيخ  إلی صاحبٍ ذکيٍّ بارعٍ، يتلقّی علمَہ وينشرُہ في العالم۔‘‘ (معارف السنن: ۱/۱۵، ط: مجلس الدعوۃ والتحقیق الاسلامی، بنوری ٹاؤن، کراچی)
’’ہمارے شیخ  رحمۃ اللہ علیہ  کا بیان ہے: اس جملہ کا ظاہری مفہوم مراد لینا دشوار ہے، اس لیے کہ ابوعیسیٰ ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  اگرچہ امام، حافظِ (حدیث) اور ماہرِفن ہیں، (محدثین کے ہاں فنی نقطۂ نظر سے)ان کی مثالیں دی جاتی ہیں، لیکن امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  اس فن کے (بلندپایہ) امام ہیں، ان کے ہم پلہ بھی کوئی نہیں۔ شیخ کا کہنا ہے:شاید اس جملہ کا مقصود یہ ہے کہ حافظ ترمذی  رحمۃ اللہ علیہ  نےامام موصوف سے ان کے علم کا حظِ وافر پایا ہے، کسی اور نے ان سے اس قدر استفادہ نہیں کیا، جیسے شاگرد ایک محقق استاذ کا محتاج ہوتا ہے، اسی طرح استاذ کو بھی کوئی ذہین وباکمال شاگرد درکار ہوتا ہے، جو اس سے علم حاصل کرکے اطرافِ عالم میں اس کی نشر واشاعت کرے۔‘‘

مطالعہ میں توسُّع ناگزیرہے

ڈاکٹر محمد ابوشہبہ (رحمہ اللہ) اگرچہ سیرتِ نبویہ اور مناہجِ محدثین کے مضامین میں شیخ احمد کے اُستاذ رہے ہیں، لیکن اپنے محاضرات کے دوران کسی مناسبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دیگر موضوعات پر بھی رہبری فرماتے تھے، ایک محاضرے کے آخر میں کہنے لگے: 
’’ایک اِنتہائی اہم بات کی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ کلیہ (کالج) کی یہ تعلیم آپ کے مطلوبہ کسی بھی موضوع کے مکمل یا اکثر معلومات کا اس درجہ احاطہ نہیں کر پاتی کہ آپ اس موضوع کے ماہر عالم قرار پائیں، بلکہ اِس مرحلہ میں کسی موضوع کی محض بنیادی رہنمائی حاصل ہوتی ہے، اور آپ کے سامنے نمونے کے طور پر بعض بنیادی مباحث تفصیل سے ذکر کیے جاتے ہیں؛ تاکہ آپ کے لیے حصولِ علم اوربحث وتحقیق کی راہیں ہموار ہوں اور اس موضوع کے عمومی وخصوصی مراجع اور قدیم ومعاصر مآخذ سے شناسائی ہو، لہٰذا کلیہ میں متعین نصابی کتب کے ساتھ ساتھ اپنی وسعت کے مطابق مزید آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کیجیے؛ تاکہ اُس کی مدد سے تحریری سوالات (کے جوابات حاصل) ہوں۔‘‘         (ص: ۴۹،۵۰)
شیخ کے بقول: 
’’طالبِ علمی کے ابتدائی زمانہ میں اُن کی یہ بات ہمارے لیے باعثِ حیرت تھی؛ کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ نصابی کتب کے علاوہ ہمیں مزید مطالعہ کی ضرورت نہیں۔‘‘             (ص:۵۰)
ہمارے ہاں بھی درسِ نظامی، بلکہ تخصص کے طلبۂ علم بھی اس غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں اور بزعمِ خود ان نصابی کتابوں کو ہی حرفِ آخر سمجھنے لگتے ہیں، جب کہ ہمارے اکابر ومشائخ اس نصاب کو صحیح معنوں میں حصولِ علم کی استعداد پیدا کرنے کا ایک ذریعہ قرار دیتے ہیں، اور رسمی طالبِ علمی کے بعد کے مرحلے کو علمی ارتقا کا زمانہ ٹھہراتے ہیں، بلاشبہ شیخ موصوف کی یہ نصیحت ہر طالبِ علم کے لیے اہم ہے۔ 
معروف عرب ادیب استاذ عباس محمود عقّاد کی کتاب ’’اللہُ جلَّ جلالُہ‘‘ شائع ہوئی تو ڈاکٹر محمد ابو شہبہ  رحمۃ اللہ علیہ  کےایک محاضرےکے دوران طلبہ نے ان سے دریافت کیا کہ عقّاد صاحب نے عقیدے کے موضوع پر کتاب کیوں تالیف کی، جبکہ اُنہوں نے قدیم زمانے سے اس موضوع پر اختصاصی مقام کے حامل ادارے ’’جامعہ ازہر‘‘ میں تعلیم حاصل نہیں کی؟!
اِس سوال پر ڈاکٹر صاحب موصوف کے جواب کا حاصل یہ تھا: ’’عقیدہ کی جو بنیادی کتب، ازہری طلبہ پڑھتے ہیں، وہی دیگر طلبہ بھی پڑھتے ہیں، کوئی طالبِ علم‘ ازہری نہ بھی ہو تو اُن کتابوں کے احاطے سے اُس کا فہم وسیع ہوجاتا ہے۔‘‘ مزید براں فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ استاذ عقاد نے اس کتاب کے لکھنے سے قبل جامعہ ازہر (میں شعبہ کلامیات) کے بنیادی مراجع (مثلًا: ’’العقائدُ النسفیّۃ‘‘، ’’المواقف‘‘ اور ’’المقاصد‘‘ وغیرہ) میں سے کسی ایک یا زائد کتابوں کا مطالعہ اور ان سے استفادہ ضرور کیا ہوگا، اگرچہ انہوں نے (اپنی کتاب میں) صراحتًا ان کتب سے نقل نہ کیا ہو، نیز عربی واسلامی ذخیرہ پر اُن کی وسیع نگاہ کاشُہرہ ہے، مزید براں اخباروں اور رسائل میں گوناگوں موضوعات پر لکھنے اور تالیفی مشغلہ کی وجہ سے حسبِ ضرورت مغربی لٹریچر پر بھی اُن کی نظر ہے، وہ ’’الأہرام‘‘ (مصرکامشہورِ زمانہ عربی رسالہ) میں ’’ما یُقالُ عن الإِسلام‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے، اُن کے ذریعے اسلام مخالف نظریات اور اشکالات کے تار وپود بکھیرتے اور منصفانہ علمی جوابات تحریر کیا کرتے تھے۔‘‘ ان کی وفات کے بعد سے آج ۲۰۲۲ء تک حد درجہ ضرورت کے باوجود یہ عنوان موقوف ہے۔ 
بعد ازاں شیخ محمد ابو شہبہ نے فرمایا: 
’’متنوع مطالعے اور گہری تحقیق کے تعلق سے تم طلبہ کو استاذ عقّاد اور اُن جیسے معاصر مفکرین کی پیروی کرنی چاہیے۔‘‘   (ص:۵۰،۵۱) 
شیخ احمد کے مطابق: 
’’ڈاکٹر صاحب نے اِس موقع پر سیرتِ نبویہ کے موضوع کے تعلق سے عبقری شخصیات کے بارے میں استاذ عقّاد کی کتابوں سے ہماری رہبری فرمائی، مثلًا: عبقریّاتُ الخلفاءِ الأربعۃؓ، چاروں خلفاء ؓمیں سے ہر ایک شخصیت پر موصوف کی مستقل کتابیں ہیں۔‘‘  (ص:۵۱)

نصابی وخارجی مطالعہ میں توازن کیونکر ہو؟

شیخ احمد کا کہنا ہے: ’’شیخ موصوف کی رہنمائی کی بدولت ہم طلبہ میں ابتدا سے ہی متنوع مطالعہ کا ولولہ پیدا ہوگیا، لیکن ہم میں سے بعض طلبہ کو اس حوالے سے مزید رہبری کی ضرورت محسوس ہوئی کہ متنوع موضوعات پر وسعتِ مطالعہ کے ساتھ ساتھ امتیازی نمبرات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے نصابی کتب وموضوعات میں مہارت بھی ضروری ہے، ان دونوں پہلؤوں کو یکجا کرنے کی کیا تدبیر ہوسکتی ہے؟ جب طلبہ نے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے یہ عُقدہ ڈاکٹر محمد ابو شہبہ کی خدمت میں پیش کیا تو ان کا جواب کچھ یوں تھا: 
’’اضافی مطالعہ کو نصابی امور پر ترجیح نہیں دی جاسکتی، لیکن اِضافی مطالعہ، نصابی موضوعات میں فوقیت کے لیے مدد دےسکتا ہے، اگر وقت کی تنگی کی بنا پر تفصیلی مطالعہ نہ ہو سکے تو (خارجی) موضوع اور اُس کے منہج سے آگاہی کی غرض سے یہ ممکن ہے کہ طالبِ علم(خارجِ نصاب) کتاب کے مقدمہ کا مطالعہ کر لے، پھر کتاب کے اخیر میں فہرستِ مضامین (جو اکثر چند صفحوں پر مشتمل ہوتی ہے) کو پڑھ لے، جن عنوانات کے مطالعہ کی ضرورت محسوس ہو ان کی نشان دہی کرلے، تاکہ بوقتِ ضرورت ان مقامات تک رسائی ہوسکے، یوں قاری بہت تھوڑے وقت میں کافی کچھ حاصل کرلے گا، اور حسبِ ضرورت اس کتاب میں نظر سے گزرے موضوعات کی مراجعت بھی ممکن ہوگی۔‘‘                              (ص: ۵۱) 

بنیادی مآخذکی اہمیت

ہمارے بعض اساتذہ کہا کرتے تھے: 
’’جو طالبِ علم، مراجعِ اصلیہ(کسی علم وفن کے بنیادی مآخذ) کا توسع کے ساتھ مطالعہ کرے گا اور ان کے دقائق کا فہم حاصل کرلے گا تو وہ امتحان میں آمدہ تحریری سوالات کو حل کرسکے گا، کیوں کہ ان وسیع مآخذ سے ان سوالات (کے جوابات)کا خارج ہونا ناممکن ہے۔‘‘ (ص : ۴۹) 
شیخ محمد علی اَحْمَدَیْنْ  رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ احمد معبد حفظہ اللہ کے کالج کے استاذ تھے، وہ قدیم اساتذہ میں شمار ہوتے تھے اور علمی گہرائی اور طلبہ کو تعلیمی قواعد وضوابط کی پابندی کرانے کے حوالے سے معروف تھے۔ موصوف اکثر اپنے محاضرات میں کہا کرتے تھے: 
’’تم لوگ صرف ظاہری امور اور کالج میں حاضری کا اہتمام کرتے ہو، جب کہ ہماری نسل کے طلبہ زیادہ تر وقت نصابی کتب کے علاوہ مصادرِ اصلیہ (بنیادی فنی مآخذ)سے آگاہی اور اُن سے استفادہ میں صرف کرتے تھے۔‘‘  (ص: ۵۸) 
شیخ احمد معبد کے ایک اور استاذ شیخ عبد الوہاب غُزلان  رحمۃ اللہ علیہ  نے ایک موقع پر فرمایا:
’’جو طالبِ علم، علمی شخصیت کی تعمیر چاہتا ہو تو پہلے مرحلے میں اپنے اختیار کردہ اختصاصی موضوع کا مطالعہ کرے، بعد ازاں اُن دیگر موضوعات کا مطالعہ کرے جو اُس کے سامنے آگاہی کے نئے دَر کھولیں، جن سے علومِ اسلامیہ کے مختلف پہلؤوں کے احاطہ میں مدد ملے۔‘‘ (ص:۶۲،۶۳)
مزید فرمایا: 
’’ میں جن دنوں تفسیر وعلومِ قرآن میں ’’اُستاذ‘‘ کا درجہ حاصل کرنے کےلیے تحقیقی مطالعہ تیار کررہا تھا تو ایسی کتب کا مطالعہ کرتا تھا جن میں مطلوبہ موضوع سے متعلق معلومات ملنے کا خیال ہوتا تھا، اور ایسی کتاب کو اول تا آخر پڑھ ڈالتا تھا، اگر اپنے موضوع سے متعلق کچھ مواد نہ ملتا تب بھی دیگر معلومات کے استفادہ پر مجھے خوشی ہوتی تھی۔‘‘  (ص:۶۳)
ڈاکٹر طہٰ دُسوقی  رحمۃ اللہ علیہ  اصولِ فقہ میں شیخ احمد کے استاذ رہے ہیں، شیخ احمد کا کہنا ہے: 
’’اُنہوں نے بارہا ہمیں خیر خواہانہ تاکید فرمائی کہ جو طالب علم بھی علومِ کتاب وسنت میں سے کسی میں تخصص چاہتا ہو تو اسے اپنے تخصص سے متعلق ہر قدیم ماخذ اور معاصر تالیف سے اجمالی یا تفصیلی طور پر آگاہ ہونا چاہیے۔‘‘   (ص:۶۴) 

متقدم ومتاخر محدّثین کے مابین منہجی تفریق

متقدم ومتاخر علمائے محدثین کے درمیان منہج کے اعتبار سے فرق ہے یا نہیں؟ یہ مسئلہ کچھ عرصہ سے عرب علماء کی دو جماعتوں کے درمیان موضوعِ بحث بنا ہوا ہے اور اِس کے متعلق کافی کچھ لکھا جا چکا ہے، ’’کویت‘‘ میں اس موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی، جس میں ڈاکٹر احمد معبد حفظہ اللہ بھی مدعو تھے، موصوف نے اس موقع پر حاضرین کے سامنے جو تحقیقی مقالہ پیش کیا، اُس کا حاصل انہی کی زبانی کچھ یوں ہے: 
’’بلاشبہ گردشِ روز وشب کی بنا پر ائمہ محدثین وعلمائے حدیث میں متقدمین اور متاخرین کے وجود کا انکار تو نہیں کیا جا سکتا، ہر جماعت کا اپنا مقام ہے اور ان کے علمی کارنامے بھی مخفی نہیں، نیز ہر ایک طبقے کے کاموں پر علمی تحفظات کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، اور کوئی متقدم یا متاخر (محدّث) ایسے تحفظات سے محفوظ نہیں، لیکن دونوں جماعتوں کے درمیان کوئی عمومی اور یقینی زمانی تحدید نہیں پائی جاتی، بلکہ ہر زمانہ (منہجی اعتبار سے) متقدمین ومتاخرین پر مشتمل ہے، لیکن اسے ’’متقدمین اور متاخرین کے مابین منہجی تفریق‘‘ کا عنوان نہیں دیا جا سکتا؛ اس لیے کہ لفظِ ’’منہج‘‘ کا عام مفہوم (یعنی کسی علم کے عمومی قواعد وضوابط) تو تمام محدثین کے نزدیک متفقہ ہیں، البتہ بعض تفصیلات میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس سے زیادہ اختلاف ان عام قواعد وضوابط کی عملی تطبیق میں ہے، اور اس نوعیت کا اختلاف ہر متقدم ومتاخر زمانے اور نسل میں موجود ہے، عمومی طور پر قبولیت یا عدمِ قبولیت کےلیے ایسے مضبوط دلائل کا اعتبار ہوگا جو عام قواعد اور مصطلحات کے موافق ہوں۔‘‘ 
شیخ احمد کے مطابق: 
’’بعد ازاں متقدمین ومتاخرین کے مابین منہجی تفریق کے قائلین میں سے منصف مزاج اہلِ علم نےمیری اس رائے سے اتفاق کیا۔‘‘   (ص :۱۲۱)
متقدمین اور متاخرین کے درمیان کے مناہج کے درمیان تفریق کے حوالے سےچھیڑی گئی معاصر بحث میں شیخ موصوف کی مذکورہ رائے متوازن ہے، یوں ہر دور کے اہلِ علم کے مرتبوں کا لحاظ رکھا جاسکے گا، اور ان کی علمی کاوشوں سے استفادہ کا سلسلہ بھی قائم رہے گا۔
شیخ احمد معبد عبد الکریم حفظہ اللہ کی خود نوشت میں سےمذکورہ چیدہ چیدہ نکات وتجربات سے اس نوعیت کی تحریروں کی اہمیت بھی اُجاگر ہوتی ہے، کسی علم وفن میں مہارت حاصل کرنے کے متمنی طالب ِ علم کو اس فن کے متخصص علماء وماہرینِ فن کی سوانحات اور آپ بیتیوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے؟ اہلِ علم وفن کی سرگزشتوں میں ضمنی طور پر ایسے قیمتی افادات بکھرے ہوتے ہیں، جن سے بہت سے علمی عُقدے حل ہوتے اور اُلجھنیں سُلجھتی ہیں۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین