بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف ہالیجوی  رحمۃ اللہ علیہ ۔۔۔۔۔۔۔ چند اوصاف وملفوظات

حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف ہالیجوی  رحمۃ اللہ علیہ 

چند اوصاف وملفوظات


علماء کرام اور طلباء عظام کا خاص وصف رہاہے کہ وہ اپنے اساتذہ ومشائخ سے محبت کی بنا پر ان کی ایک ایک ادا اور ایک ایک بات محفوظ کرتے رہتے ہیں کہ خود بھی اس پر عمل کریں اور بعد میں آنے والوں کو بھی اپنے اکابر ومشائخ کی زندگیوں سے باخبر کریں، چنانچہ ان کی وفات کے بعد کوئی تو ان کے اوصاف، کوئی سوانح اور کوئی ملفوظات لکھتا ہے، اس عادت کی تائید حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ: ’’اذکروا محاسن موتاکم‘‘۔ بندہ نے بھی اس نیت سے استاذِ محترم حضرت مولانا مفتی عبد الرؤف ہالیجوی  رحمۃ اللہ علیہ  کے کچھ اوصاف وملفوظات لکھے ہیں۔

استاذ جیؒ کے اوصافِ حمیدہ پر ایک طائرانہ نظر

1- تواضع-حضرت استاذ جیؒ بہت متواضع اور منکسر المزاج تھے، آپ کو عجز وانکساری کا وافر حصہ عطا ہوا تھا۔ شہرت نام ونمود سے سخت نفرت تھی۔ اپنے شیخ حضرت مولانا حماد اللہ ہالیجوی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کے نقش قدم پر چلنے والے تھے۔ مقتدا اور مرجع وماویٰ ہونے کا کبھی کوئی تأثر نہیں دیا، مخدوم ومحبوب بننے کی کوئی شعوری کوشش رکھی اور نہ کوئی خواہش رکھی۔

تواضع کا طریقہ سیکھ لو لوگو صراحی سے
کہ فیض جاری بھی ہے اور جھکی جاتی ہے گردن بھی

2- زہد وقناعت-استاذ جی ؒ کی ابتدائی زندگی مصیبتوں اور مشقتوں سے عبارت تھی، عسرت اور تنگی کا زمانہ تھا، فاقوں پر صبر کرتے ہوئے عمر کا اکثر حصہ مالی تنگی کے ساتھ گزارا، لیکن ’’اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا‘‘ کے مصداق اللہ تعالیٰ نے بعد میں وسعت اور فراخی عطا فرمائی، لیکن استاذجیؒ نہ صرف ہرحال میں شکر گزار رہے، بلکہ اپنی مالی وسعت کے دور میں بھی زہد وقناعت کے دامن کو تھامے رکھا اور دنیا کو اپنے لیے قیدخانہ سمجھتے ہوئے سیدھی سادی فقیرانہ اور عیش وعشرت سے خالی زندگی گزاری۔
3- دروس کا اہتمام-  انسان کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ جو کام بھی کرے اور جو کام اس کے ذمہ ہو اس کو پورا کرے اور اہتمام سے کرے، اہتمام اور مواظبت سے اسباق پڑھانا اکابر ومشائخ کا خاص وصف رہا ہے، یہ وصف استاذجی میں بدرجہ اتم موجود تھا، سبق کا ناغہ بالکل نہیں کرتے تھے، الا یہ کہ سخت بیمار ہوں۔
4-کامیاب تدریس-مقبول استاذ ومدرس کی تعریف میں یہ بات بھی داخل ہے کہ وہ مشکل سے مشکل مسئلہ چٹکلوں میں سمجھادے اور طلباء کرام اس کے درس سے اُکتاہٹ محسوس نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے استاذ جی کو تفہیم کی غیر معمولی صلاحیت کے ساتھ ساتھ اندازِ بیان اور اسلوبِ اظہار کی ایسی دلنشیں ودلکش ادا سے نوازا تھا کہ گھنٹوں ان کے درس میں بیٹھے رہنے سے اکتاہٹ بالکل محسوس نہیں ہوتی تھی، اول تا آخر درس پر تازگی اور نشاط ورعنائی چھائی رہتی تھی، چند درسی خصوصیات ملاحظہ ہوں:
1- اسباق کو بہت ہی عام فہم اور دلنشیں انداز میں طلباء کو ذہن نشیں کراتے تھے۔
2- غیرضروری مباحث وتفاصیل سے اجتناب فرماتے تھے۔
3-اسباق کی رفتار میں تناسب اور اعتدال ملحوظ رہتا تھا، کتاب کے اول سے آخر تک یکساں رفتار رہتی تھی۔
4-مشکل عبارتوں کی نہایت معنی خیز اور بامحاورہ تشریح کرتے تھے۔
5-ہرطالب علم کے سوال کا جواب دیا کرتے تھے۔
6-سبق کو سمجھانے کے لیے مثال دینے میں دورِ حاضر کی مثالوں کو مدِنظر رکھتے تھے، دورِ حاضر کی شخصیات کی مثالیں دے کر طلباء کرام میں علم کا جذبہ اُبھارنے کی کوشش کرتے تھے۔

چند علمی افادات

1- فرمایا کہ حدیث میںحضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ مطہرہ  رضی اللہ عنہا  کی فضیلت کو باقی ازواج مطہرات  رضی اللہ عنہن  پر ثرید کے ساتھ مشابہت دی ہے کہ جیسے ثرید باقی تمام کھانوں پر فضیلت رکھتاہے، اسی طرح حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  کو باقی ازواج مطہرات  رضی اللہ عنہن  پر فضیلت حاصل ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ایک بات سمجھیں، وہ یہ ہے کہ انسان کو دو قسم کی غذاؤں کی ضرورت ہوتی ہے: ایک روحانی غذا کی اور ایک جسمانی غذا کی، جسمانی غذاؤں میں ثرید سب پر فائق ہے اور روحانی غذا تعلیم وتعلم ہے تو حدیث مبارکہ میں اس کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ امی جان  رضی اللہ عنہا  کو اللہ تعالیٰ نے تمام ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن سے زیادہ تعلیم وتعلم کا وافر حصہ عطا فرمایا تھا ۔
2-فرمایا کہ حدیث میں ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے درازگوش (گدھے) پر سواری فرمائی تو اس حدیث سے مقصود یہ بتلانا نہیں کہ درازگوش پر سواری مسنون ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ رسول مبارک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ادنیٰ سواری پر بھی سواری کی ہے تو اس کو معیوب نہیں سمجھنا چاہیے، حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں تین قسم کی سواریاں ہوتی تھیں: اعلیٰ یعنی گھوڑا، متوسط یعنی اونٹ، ادنیٰ یعنی درازگوش۔
3-فرمایا کہ یہ جو حدیث ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے زمزم کا پانی کھڑے ہوکر پی لیا تو اس میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ نیچے کیچڑ تھی، اس کی وجہ سے کھڑے ہوکر پانی پی لیا، تو یہ تاویلات ہیں، دراصل بات یہ ہے کہ مطلقاً پانی پینے میں حکم یہ ہے کہ بیٹھ کر پیا جائے ، اس کی حکمت یہ ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے سے پیاس صحیح نہیں بجھتی اور زیادہ پانی پینا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے پیشاب زیادہ آتاہے تو تقاضے کے لیے باربار جانا پسندیدہ نہیں، اس لیے حکم ہے کہ بیٹھ کر پانی پیو، جبکہ زمزم کو کھڑے ہوکر حضرت پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس لیے پیا کہ کھڑے ہو کر پانی زیادہ پیا جاتا ہے، تو زمزم خالص شفا ہی شفا ہے تو اس کو جتنا زیادہ ہوسکے پی لیا جائے۔

ملفوظات

1-جو کوئی کسی گناہ پر قدرت رکھنے کے باوجود اس کو صرف خوفِ خدا کی وجہ سے چھوڑ دے تو ایک سال تک عبادت کی لذت محسوس کرےگا۔
2-دین کے جامہ میں چور نہ بنو (یعنی دین کو لوگوں کے اموال کھانے کا ذریعہ مت بناؤ) اس سے بہتر ہے کہ ایک عام چور بن جاؤ۔
3-اگر آج کل یعنی ٹیکنالوجی کے ترقی کے دور میں بھی کوئی اسلام پر اعتراضات کرے تو یہ اس کے دنیوی علوم سے بھی جاہل ہونے کی دلیل ہے۔
4-ہم میں اور ہمارے اکابر کے درمیان فرق یہ ہے کہ ہمارے اکابر نمازِ عشاء کے بعد فوراً سوجاتے تھے اور پھر رات کے آخری حصہ میں اپنے رب کے ساتھ راز ونیاز کرتے تھے، جبکہ ہم نمازِ عشاء کے بعد فضولیات اور دعوتوں میں لگ جاتے ہیں اور جب رحمتِ خاصہ یعنی رات کے آخری حصہ کا وقت آجاتاہے تو ہم سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔
5-دنیا دار بن کر دنیا کماؤ تو تم معزز رہوگے، لیکن دینداربن کر دنیا نہ کماؤ، یعنی دین کے نام پر دنیا مت کماؤ، ورنہ ذلیل ہو جاؤگے، ذلیل ہو جاؤگے (دومرتبہ یہ آخری جملہ فرمایا)۔
6-میں طلباء کرام کو صرف یہی نصیحت کرتاہوں کہ ہماری پگڑیوں اور مدرسہ کی لاج رکھنا، کیونکہ اگر تم نے معاشرہ میں نامناسب حرکات کیں تو لوگ تمہارے اساتذہ اور مدرسہ کو برا بھلا کہیںگے۔
7-عمل بہت بڑا مبلغ ہے، زبان اتنی بڑی مبلغ نہیں، لہٰذا اعمال اچھے کرو، لوگ تمہیں دیکھ کر سنور جائیںگے۔
8-جس نے تدریس کرنی ہے اس نے تقریبات اور اپنے پرایوں کی دعوتیں چھوڑنی ہوں گی۔
9- آدمی اپنی ضروریات کو کم کرے، اس سے آدمی پریشانیوں سے بچ جاتاہے۔
10-انسان اگر چاہے کہ اللہ میرے گناہ معاف کرے اور رحمت وشفقت کا معاملہ فرمائے تو اپنے ماتحت کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، اگر ماتحت پر سختی کرتاہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنے قوانین چلائیںگے۔
11-بندہ جتنے کم پر اللہ سے راضی ہو، اللہ بھی اس کے تھوڑے سے عمل پر راضی ہوگا۔
12-آٹھ سال صرف پڑھائی کرو، چھٹیوں میں بھی کوئی اور کام نہ کرو، فاضل ہونے کے بعد جس میدان میں بھی جاؤگے تو کامیاب رہوگے، آٹھ سال میں اپنے مقصد یعنی پڑھائی سے نہ نکلو، تبلیغ والے پوری دنیا پر چھا گئے صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنے مقصد چھ نمبر سے نہیں نکلتے، چاہے جو بھی ہوجائے۔
13-مدرس اگر بننا ہو تو اگر آپ کے اندر شرح جامی پڑھانے کی اہلیت ہے تو ہدایہ النحو پڑھاؤ اور اگر ہدایۃ النحو پڑھانے کی اہلیت ہو تو نحو میر پڑھاؤ۔
14-بڑے بننے کے لیے چور جتنا عزم بھی کرو تو بھی بڑے بن جاؤگے کہ جو کچھ ہوناہے، لیکن میں نے یہ کرنا ہے۔ چور جب چوری کرتا ہے تو یہ عزم کرتاہے، جو کچھ ہونا ہے ہو جائے، لیکن میں نے چوری کرنی ہے۔
15-مسجد میں عوام کے سامنے نازک اور باریک مسئلے مت چھیڑا کرو، جو لوگ تمہارے سامنے بیٹھے ہیں ان کے مطابق بات کرو۔
16-علماء کے لیے اس وقت سب سے اہم کام کرنے کا یہ ہے کہ اپنے مدارس کو مضبوط کریں، مدارس مضبوط ہوجائیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

 

 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین