بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی امتیازی شخصیت اور فکری وعملی خصائص

 

جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی امتیازی شخصیت

اور فکری و عملی خصائص

مجلہ صفدر ’’فتنۂ غامدی نمبر، جلد اول، اشاعت: شعبان و رمضان ۱۴۳۶ھ مطابق جون ۲۰۱۵ء وصولی کی اطلاع اور مختصر یا طویل تبصرے کی فرمائش کے ساتھ موصول ہوا۔ اللہ تعالیٰ ادارۂ صفدر کے ذمہ داران کو جزائے خیرعطا فرمائے۔ ’’مجلہ صفدر کا فتنۂ غامدی نمبر‘‘ وصول پاکر کسی حد تک مطالعہ کی کوشش بھی کی، بالخصوص اکابر امت کی تحریرات و تأثرات کا بغور مطالعہ کیا جس سے جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی سوچ و فکر ، دائرہ عمل ، استدلال و طرزِ استدلال، ترجیحات و اہداف اور طرقہائے واردات کے بارے میںخاطر خواہ معلومات حاصل ہوئیں، نیز غامدی صاحب کی امتیازی شخصیت اور فکری و عملی خصائص کے بارے میں معلومات افزا مواد بھی یکجا پایا جو موجودہ فکری طغیانی میں مفید کا وش ہے۔ ’’مجلہ صفدر‘‘ کے ’’غامدی نمبر‘‘ کے مطالعہ سے جناب غامدی صاحب کے جو خصائص و امتیازات ارتجالاً ذہن نشین ہوئے وہ درج ذیل ہیں: ٭:۔۔۔۔۔    غامدی صاحب انتہائی بے باک شخصیت کے مالک ہیں، اپنی فکر و دانش کے پرچار میں کسی چھوٹی بڑی ہستی سے مرعوب و متأثر نہیں ہوتے، وہ جو کچھ جب کبھی جیسا کیسا کہنا چاہیں اپنے سامنے کسی چھوٹی بڑی رکاوٹ کی پرواہ نہیں کرتے، ہر تنگ و پر خطر گھاٹی سے بے خوف و خطر گزرجاتے ہیں۔ یہ طرزِ فکرو عمل آنحضور کی اس حریتِ فکر و عمل کا نتیجہ ہے جس سے سنت و اجتماعیت کے دائروں میں محبوس لوگ آج تک محروم رہے ہیں۔ اس فکری پرواز اور عملی کمال کو تنگ نظر اور دقیانوسیت کا شکار طبقہ بے سند اور بے بنیاد بھی قرار دیتا ہے، یہ ان تنگ نظر لوگوں کی عدم واقفیت کا نتیجہ ہے، ورنہ یہ فکر و عمل اپنی تاریخی حیثیت و سند کی حامل ہے، یہ فکر جس تاریخی و سندی تسلسل کی کڑی ہے، وہ فکر ہر دور میں موجود تھی اور زندہ رہی ہے، گو کہ اُسے موقع بموقع نام تبدیل کرنے کی حاجت رہی ہے، کیوں کہ ناانصاف ، روایتی جمود زدہ طبقہ ہمیشہ اس فکرکا مزاحم بنتا رہا ہے، چنانچہ اس انوکھی فکر کی کاشت کاری کا پہلا عنوان رفض، دوسرا خروج، تیسرا اعتزال، پھر ابتداع، پھر آگے چل کر دینیات و اسلامیات پر گل کاری و دست کاری کرنے والے، دینی و علمی غلامی سے نجات دہندہ جناب سرسید احمد خان صاحب نے یہ کام انجام دیا۔ ان کے بعد حمید الدین فراہی، امین احسن اصلاحی، غلام احمد مودودی جیسی نابغہ روزگار ہستیوں نے یہ فیض عام کیا اور اس کا ایک وافر حصہ، ان کی توجیہاتِ فکرکا عظیم ورثہ‘ غامدی صاحب نے پایا اور اپنی بے باکی و بے لگامی کے امتیازی کمال کی وجہ سے اپنے پیشواؤں پر جزوی فضیلت و برتری کے بجا طور پر حق دار بھی قرار پائے۔ ٭:۔۔۔۔۔    غامدی صاحب کو حریتِ فکر و عمل میں یگانہ روزگار ہونے کا خود بھی احساس و ادراک ہو چکاہے، جس کا اظہار و اقرار گاہے بگاہے فرماتے رہتے ہیں، جسے اہل جمود خودستائی ، خود نمائی، عجب و کبر اور تعلّی و تفوّق جیسے روحانی امراض کے نام سے تشخیص کرتے ہیں، حالانکہ روح، روحانیت یہ غیر مشاہد چیزیں ہیں۔ ٭:۔۔۔۔۔    غامدی صاحب نے اپنی فکر و دانش کی ضیاپاشی سے امتِ مسلمہ کو خود کفالتی دین اور من پسند شریعت کا تحفہ عطا فرمایا ہے، جس کے صلہ کے طور پر امت سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ غامدی صاحب کی خود کاشتہ دینی فصل کو دینی و روحانی غذا کے طور پر کافی قرار دیں اور اس فکر سے ہٹے یا بچے ہوئے اسلاف و اخلاف کی تغلیط وتخطیہ کرتے جائیں، جیسا کہ غامدی صاحب کے باصفا حواری (ہر قسم کے فکری و عملی داغوں سے پاک لوگ) صبح و شام یہی باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں، مگر روایت و قدامت کے خول میں بند لوگ چودہ صدیاں پرانی فکر و عمل پر قانع بن کر جمے ہوئے ہیں، جو غامدیانہ فکر کے ساتھ ایسی ہی کھلی ناانصافی ہے جیسے سنت و اجماع کی رَٹ لگانے والوں کے ساتھ غامدی صاحب کے پیش رو اور پیروکار انصاف کے تقاضے نِبھائے ہوئے ہیں۔ ٭:۔۔۔۔۔    غامدی صاحب کے امت پر احسانات یا ذاتی کمالات میں سے یہ احسان و کمال بھی ہے کہ وہ امت مسلمہ کو کئی مغیبات اور مشکل ودشوار دینی کاموں میں سہولت فراہمی اور خلاصی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں اور اس کے بر خلاف جو امور قدیم روایات اور دقیانوس لوگوں کے دینی مزاج کی رو سے منکرات و لغویات قرار پاتے ہیں اور وہ سماج کا حصہ ہیں انہیں آسان اور ہلکا قرار دے کر معاشرے کی ’’خدمتِ جدیدہ ‘‘کا حق ادا فرما رہے ہیں، مثلاً :عقیدہ ظہورِ مہدی ، فرضیتِ جہاد اور اس کی عملی تطبیق ، خواتین کے چہرے کا پردہ، داڑھی کی شرعی حیثیت، خواتین کی شہادت (گواہی) عقیدۂ آخرت و غیرہ میں ندرت و سہولت کے روا دار ہیں، جبکہ گانا بجانا، موسیقی ومزامیر، بے پردگی وبد کاری، بد عقیدگی اور بے راہ روی کو شخصی و طبعی میلانات کے حوالے کردیتے ہیں۔ ٭:۔۔۔۔۔    غامدی فکر کے مطابق امت مسلمہ اپنے مذہبی پیشواؤں کے عجمی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر حدیث و سنت کے نام سے کلام الناس کو کلام الہٰی کی ہم سری کی مرتکب قرار پائی ہے۔ غامدی صاحب امت مسلمہ کو اس مولویانہ پروپیگنڈے سے نجات دلانے کے لیے غلام احمد پرویز اور اختر کاشمیری سے بڑھ کر محنت فرمارہے ہیں۔ اس حوالے سے وہ حدیثوں کے قابل حجت ہونے اور نہ ہونے کے لیے پہلے اخبار آحاد اور متواترات کی تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں، پھر آحاد پر ردو قدح کرکے ناقابل اعتبار ٹھہراتے ہیں، پھر متواترات کی تعداد اور گنتی میں اتنے بخل سے کام لیتے ہیں کہ چند محدود روایات کے استثناء کے ساتھ بآسانی اپنا دامن جھاڑتے ہوئے لاکھوں کے ذخیرۂ حدیث کو مہمل، بے کار اور لوگوں کی گھڑی ہوئی باتیں قرار دیتے ہیں، یوں امت کی آسانی کا بڑا سامان فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، گو یا کہ غامدی صاحب کی خدمتِ دین کے نتیجے میں سوائے چند روایات کے امت مسلمہ ہر قسم کے بوجھ سے آزادی پانے جارہی ہے، اس پر مستزاد امت مسلمہ کو دین فہمی کے لیے براہ راست قرآن کریم تھمادینے کی خدمت بھی انجام دے رہے ہیں،اب قرآن فہمی میں اگر آپ کو دشواری پیش آئے، تناقضات و تعارضات کا سامنا ہو یا پھر استنباط و استخراج کی نوبت آئے تو پھر کیا کریںگے؟ تو اس کا حل غامدی صاحب نے ہر انسان کی عقل کو ٹھہرادیا ہے، چنانچہ قرآن سے جس نے جو سمجھا وہی منشأ خداوندی ہیــ۔مولویانہ سوچ اسے انکار حدیث سے تعبیر کرتی ہے، مگر حقیقت میں یہ وہی ’’جذبۂ قرآن فہمی‘‘ ہے جو ’’ إن الحکم إلا للّٰہ‘‘ کے علمبرداروں سے لے کر سر سید احمد خان اور غلام احمد پرویز تک اپنا سندی تسلسل رکھتا ہے۔ غامدی صاحب نے امت کے سر سے حدیثوں کا بوجھ ہٹانے کے ساتھ ساتھ مزید کرم یہ بھی فرمایا کہ حدیثوں کو تعارض ، ضعفِ سند اور عدم ثبوت کی وجہ سے ترک کردینے والوں کو ماضی سے شناسائی کے لیے تاریخی روایات کا سہارا لینے کا عملی درس دے رکھا ہے، چنانچہ جو امور ضعیف الاسناد حدیثوں کے محتاج ہوں انہیں رد کر دیں، اور جہاں ضرورت پڑے تو دینی و اجتہادی ضروریات کے تحت سند کا تکلف کیے بغیر تاریخی روایات کا سہارا لے لیا جائے۔ غامدی صاحب کی یہ وہ نادر خدمت اور انوکھا کارنامہ ہے جس نے مسلمانوں کے سر سے دین کا اچھا خاصا بوجھ اتار کے رکھ دیا ہے، ناانصاف لوگ غامدی صاحب کی ان خدمات کا اعتراف کرنے کی بجائے انہیں دین سے آزادی کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔ ٭:۔۔۔۔۔    غامدی صاحب کا امت مسلمہ پر ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ انہوں نے دین پر سند، رجال اور مخصوص شخصیات کی اجارہ داری کو ختم کرنے کی فکر فراہم کی ہے، انہوں نے دین کی تعبیر، تفہیم اور تشریح کو سند و رجال کی جکڑن اورائمہ کی اجارہ داری سے آزاد کراکے گلی کوچے کے کھلنڈر نوجوانوں کو بھی مقام اجتہاد تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ روایت و قدامت کے کنویں میں بند لوگوں کو یہ کارنامہ نظر نہیں آتا اور وہ اُسے دین سے برگشتہ ہونے کے مترادف قرار دیتے ہیں اور جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ دین کے لیے سند اور سند کے لیے رجال اور رجال کے قابل اعتبار ہونے کے لیے مرتبۂ امامت و پیشوائی ضروری ہے۔ قدامت پسند طبقہ کا یہ استدلال انسانی سوچوں پر پہرے داری کے مترادف ہے، اس لیے غامدی صاحب انسانی حقوق کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ غامدی صاحب کو بھی چاہیے کہ وہ کم از کم یہاں پر کسر نفسی کے بجائے کھل کر اپنے اس کمال کا اظہار فرمائیں، یہ ایسے ہی ضروری ہے جیسے وہ عربیت و علمیت اور فہم و ذکاء کا اظہار فرماتے رہتے ہیں۔ ٭:۔۔۔۔۔    غامدی صاحب کا ایک اور انفرادی امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنی بات کے لیے بڑی نسبت کے لوگوں کی اولاد کی زبان و قلم کو بڑی مہارت سے استعمال کرنے کا ہنر رکھتے ہیں، بالخصوص ان بزرگوں کی اولاد کو (دقیانوس حضرات کے بقول) اپنے تزویراتی اہداف کے لیے آلہ کاربناتے ہیں جنہوں نے کفر و شرک ، الحاد و زندقہ اور ابتداع و انحراف کے خلاف کام کرتے ہوئے زندگیاں گزاری ہوں۔ ایسے صاحبزادگان کو اپنے دام تزویر میں لانے سے انہیں بیک وقت دو فائدے حاصل ہوجاتے ہیں، ایک فائدہ یہ حاصل کیا جاتا ہے کہ ایسے صاحبزادگان کے دینی پس منظر کو اپنے ’’بد دین منظرنامہ‘‘ کے لیے ڈھال بنایا جاسکے اور دوسرا فائدہ یہ کہ ایسے صاحبزادگان کے نسبی آباء و اجداد نے غامدی صاحب کے روحانی آباء و اجداد کے خلاف جو کچھ کہا اور لکھا تھا اس کا انتقام لیا جاسکے۔ ظاہر ہے کہ ایسی مہارتوں، کمالات، خصائص وامتیازات کی حامل شخصیت کے ساتھ علماء دین کا رقیبانہ و معاصرانہ تناؤ ایک فطری امر ہے۔ اسی فطری امر کی بجا آوری کا کام ’’ مجلہ صفدر ‘‘ کے کارپرداز احباب دے رہے ہیں۔ مختلف اہل علم کی طویل و مختصر تحریرات اور محقق و مدلل مضامین و مقالات’’ مجلہ صفدر‘‘ کا حصہ ہیں، یہ کاوش اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔امید ہے کہ ’’مجلہ صفدر‘‘ کی یہ کاوش ’’ندین‘‘ کو ’’دین‘‘سے الگ کرنے کا اعزاز پائے گی، ان شاء اللہ! باقی آخر میں مجلہ صفدر کے احباب کی خدمت میں یہ ’’خیر خواہانہ گزارش‘‘ بھی کرتا چلوں کہ اپنے روایتی و فکری ’’تصلب‘‘ کو ’’تعصب‘‘ کی چھینٹوں سے بچائے رکھنا دین کا تقاضہ اور ہمارے اسلاف کا شعار ہے۔

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین