ایک مشہور اور زبان زد مقولہ ہے کہ: ’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہے۔‘‘ دور ِحاضر میں چاہے اسے لطیفے اور مزاح کا رنگ دیا جاتا ہو یا کسی اور تناظر میں ذکر کیا جاتا ہو، مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک حد تک یہ مقولہ درست ہے، خصوصاً اُمتِ مسلمہ کے علماء اور اکابرینِ ملت کے حالات اور ان کی سوانحِ حیات کا مطالعہ کرنے سے مسلمان عفت مآب خواتین کے بارے میں یہ کہاوت پوری طرح صادق نظر آئے گی۔
بڑے بڑے فقہاء ومحدثین اور دیگر مسلمان زعماء کی رجال سازی میں خواتین کا اہم کردار نظر آئے گا، عورت کہیں ماں کے روپ میں، کہیں بہن یا بیٹی کی صورت میں اور کہیں شریکِ حیات کی شکل میں مرد کی شخصیت سازی کرتی پائی جائے گی۔ ماضی کی جن قابلِ قدر ہستیوں پر مسلمان فخر کرتے ہیں، اور غیروں کے سامنے ان کے بلند پایہ کارنامے بیان کرتے ہیں، اگر ان کی تعلیم وتربیت، کردار سازی، حوصلہ افزائی اور شخصیت نکھارنے کے سلسلے میں عورت کی کاوش وکوشش شاملِ حال نہ ہوتی تو شاید اُن میں سے کئی حضرات تاریخ کا ایک گمشدہ باب ہوجاتے، اور ان کے ’’نام لیوا‘‘ تو کجا! نام لینے والے بھی نہ ہوتے۔ ذیل میں ہم مختصر طور پر خواتین کا رجال سازی میں کردار بیان کریں گے۔
1- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے شوہر کی وفات کے بعد اکیلے ہی اپنے بیٹے حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی تربیت پر خصوصی دھیان دیا تھا، اور بڑی توجہ سے ان میں بہادری، شجاعت، تحمُّل وبردباری اور دیگر اعلیٰ صفات پیدا کرنے لیے جد وجہد کی تھی، چنانچہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو ان پر سختی بھی کرنا پڑتی، اور کبھی تادیباً مارنے کی نوبت بھی آجاتی تھی۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کا چچا نوفل یہ دیکھ کر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو ڈانٹتا کہ ’’إنک لتضربينہ ضرب مبغضۃ‘‘ یعنی تم بچے کو بالکل دشمنوں کی طرح مار رہی ہو، لیکن حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ان کو جواب دیتی کہ یہ سب اس کی تربیت کی وجہ سے ہے، اور اشعار کہتیں، ایک مصرعہ حسبِ ذیل ہے:
من قال: إنّي أبغضہٗ فقد کذب
وإنّما أضربہٗ لکي يلب (۱)
ترجمہ: ’’جس نے یہ کہا کہ میں اس سے بغض رکھتی ہوں، اس نے جھوٹ کہا، میں تو اس کو صرف اس وجہ سے مارتی ہوں کہ وہ عقلمند ہو۔‘‘
پھر آنے والے لوگوں نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کی بہترین تربیت اور شخصیت سازی کا نتیجہ دیکھا کہ حضرت زبیربن عوام رضی اللہ عنہ نڈر مجاہد اور اسلام کے ایک سپاہی بن کے پوری زندگی دینِ حق کی سربلندی کے لیے جد وجہد کرتے رہے۔
w- حضرت ربیعۃ الرائے رحمۃ اللہ علیہ ایک بلند پایہ فقیہ اور مشہور محدث ہیں، وہ ابھی شکمِ مادر میں تھے کہ ان کے والد کو جہاد کی غرض سے مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہوکر خراسان جانا پڑا۔ روانگی سے قبل انہوں نے اپنی بیوی کو تیس ہزار دینار دیئے تھے، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آئیں، لیکن پھر ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ ستائیس سال بعد اپنے گھر واپس لوٹے۔ اس دوران حضرت ربیعۃ الرائےؒ کی والدہ نے تنہا ہی ان کی عمدہ تربیت کی، انہیں تعلیم دلائی، جس کے نتیجہ میں وہ اپنے زمانے کے بڑے محدث اور فقیہ بن گئے۔
حضرت ربیعہؒ اور ان کے والد کی پہلی ملاقات کا قصہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ جب ستائیس سال بعد فروخ گھر لوٹے تو اپنے ہاتھ میں موجود نیزے کے ذریعے دروازہ کھٹکھٹایا، حضرت ربیعہؒ باہر نکل آئے، باپ بیٹے نے ایک دوسرے کو کبھی دیکھا نہیں تھا، اس لیے حضرت ربیعہؒ نے جب انہیں اس حال میں دیکھا تو اندیشہ ہوا کہ کہیں حملہ آور نہ ہو، اس لیے کہا: ’’یا عدو اللہ! أتہجم علی منزلي‘‘ یعنی اے اللہ کے دشمن! میرے گھر پر حملہ کرنا چاہتے ہو؟ فروخ کہنے لگا: ’’یا عدو اللہ! أنت رجل دخلت علٰی حرمتي‘‘ ۔۔۔۔ ’’اے اللہ کے دشمن! تم میری عزت وحرمت پر داخل ہوئے ہو۔‘‘
ان دونوں کے درمیاں جھگڑا ہونے لگا، پڑوسی جمع ہوگئے، امام مالکؒ اور دیگر اہلِ علم حضرت ربیعۃ الرائےؒ کی مدد کرنے لگے۔حضرت ربیعہؒ کا کہنا تھا کہ اس کو سلطان کے پاس لےکر جاؤں گا۔ فروخ کہنے لگے کہ: یہ میری بیوی کے ساتھ موجود تھا۔ جب امام مالکؒ نے اس کو سمجھایا کہ اس گھر کے علاوہ کہیں اور چلے جاؤ، تب انہوں نے کہا کہ یہ میرا گھر ہے، میں فروخ ہوں۔ یہ سن کر ان کی بیوی گھر سے نکل آئی اور کہنے لگی کہ: یہ تمہارا بیٹا ہے، جب تم گئے تھے تو میں حاملہ تھی، چنانچہ دونوں باپ بیٹے گلے مل کر رونے لگے۔
کچھ دیر کے بعد حضرت ربیعہؒ مسجد چلے گئے، تو فروخ نے اپنی بیوی سے بوقتِ رخصت دیئے گئے تیس ہزرا دینار کے بارے میں پوچھا، اس نے جواب دیا کہ میں نے وہ ایک جگہ لگادیئے ہیں، عنقریب آپ کو دوں گی۔ پھر فروخ سے کہا کہ مسجد جاکر نماز پڑھ لیں، چنانچہ انہوں نے نماز پڑھی اور پھر وہاں ایک حلقے کے قریب ٹھہرگئے، جہاں امام مالکؒ سمیت کئی اہلِ علم موجود تھے، اور ان کے درمیان ایک نوجوان بیٹھا تھا، چونکہ اس کا چہرہ نیچے کی طرف تھا، اور سرپر ٹوپی اور عمامہ تھا، اس لیے فروخ اس کو پہچان نہ سکے اور اپنے نزدیک بیٹھے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ ابوعبدالرحمٰن فروخ کا بیٹا ربیعہ ہے۔ فروخ بہت خوش ہوئے اور گھر آکر بیوی سے کہنے لگے کہ میں نے تمہارے بیٹے کو ایسی عمدہ حالت میں دیکھا ہے کہ دوسرے کسی فقیہ یا عالم کو نہیں دیکھا، اس پر ان کی بیوی کہنے لگی:
’’أيما أحب إليک ثلاثون ألفَ دينار، أو ہٰذا الذي ہو فيہ من الجاہ؟‘‘
ترجمہ: ’’آپ کو کیا زیادہ پسند ہے؟ تیس ہزار دیناریا بیٹے کی یہ عزت جو اس کو حاصل ہے؟‘‘
’’فروخ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! یہ حالت مجھے زیادہ پسند ہے، تو بیوی نے بتایا کہ وہ تمام دینار بیٹے کی تعلیم وتربیت پر خرچ کردیئے تھے۔‘‘ (۲)
2- مشہور ومعروف محدث، امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ سے کون ناواقف ہوگا، دورانِ طالب علمی ان کے مالی حالات کمزور تھے، اس لیے انہیں کسبِ معاش کی فکر ہوئی، لیکن ان کی ماں نے انہیں فکرِ معاش سے آزاد کرکے پڑھائی اور طلبِ علم کے لیے فارغ کردیا، چنانچہ وہ سوت کات کر اسے فروخت کرتیں، اور اپنے بیٹے سفیان ثوری کی پرورش وکفالت کرتی تھیں، جیساکہ امام وکیعؒ فرماتے ہیں:
’’قالت أم سفيان الثوري لسفيان: يا بني! اطلب العلم وأنا أکفيک من مغزلي۔‘‘(۳)
ترجمہ: ’’حضرت سفیان ثوریؒ کی والدہ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے میرے بیٹے! علم طلب کرو، میں تمہاری اپنے تکلہ (سوت کاتنے کا آلہ) کے ذریعے کفالت کروں گی۔‘‘
بلکہ وہ وقتاً فوقتاً حضرت سفیان ثوریؒ کو تحصیلِ علم سے متعلق نصائح بھی کرتی رہتی تھیں، چنانچہ ایک مرتبہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’یا بني! إذا کتبت عشرۃ أحرف، فانظر ہل تری نفسک زيادۃ في مشيک وحلمک ووقارک، فإن لم يزدک فاعلم أنہ لايضرک ولا ينفعک۔‘‘ (۴)
ترجمہ: ’’اے میرے بیٹے! جب تم دس حروف سیکھ لو تو دیکھو کہ کیا تمہاری چال ڈھال، حلم وبردباری اور وقار میں اضافہ ہوا ہے؟ اگر کچھ زیادتی نہ ہوئی ہو تو جان لو کہ یہ علم نہ تمہیں نقصان پہنچائے گا اور نہ ہی نفع دے گا۔‘‘
ماں کی ایسی عمدہ پرورش اور تربیت کی وجہ سے حضرت سفیان ثوریؒ امیر المؤمنین فی الحدیث اور اپنے عہد کے بےمثال محدث بنے۔
3- حضرت امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ ائمہ اربعہ میں سے ایک ہیں، ان کو علمِ حدیث اور فقہ دونوں میں بلند مقام حاصل تھا، جب انہوں نے اپنی والدہ کےپاس آکر طلبِ علم کے لیے جانے کی اجازت چاہی تو ان کی والدہ نے انہیں عمدہ کپڑے پہنائے، سر پر ٹوپی پہنا کر اس پر عمامہ باندھا، اور پوری طرح تیار کرکے طلبِ علم کے لیے بھیجا۔(۵)
اور یہ تیاری ایک دن کے لیے نہیں تھی، بلکہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ انہیں باقاعدگی سے تیار کرتی تھیں۔ اسی طرح طلبِ علم کے ساتھ ادب واخلاق کی تعلیم حاصل کرنے کی بھی انہیں ترغیب دیتی تھیں، چنانچہ امام مالکؒ فرماتے ہیں:
’’کانت أمي تعممني وتقول لي: اذہب إلٰی ربيعۃ، فتعلم من أدبہٖ قبل علمہٖ۔‘‘ (۶)
ترجمہ: ’’میری والدہ مجھ کو عمامہ باندھتی اورمجھ سے کہتی تھی کہ ربیعہ کے پاس جاکر اس کے علم سے پہلے اس کا ادب سیکھو۔‘‘
4- علامہ ابن حجرؒ کی ہستی سے کون ناآشنا ہوگا۔ ان کی تالیفات، خصوصاً حدیث اور علومِ حدیث میں خدمات سے آج تک اہلِ علم مستفید ہورہے ہیں۔ ان کی تربیت میں بھی ان کی بہن ’’ست الرکب‘‘ کا بڑا دخل تھا۔ حافظ ابن حجرؒ کے بچپن میں ہی ان کے والدین کا انتقال ہوگیا تھا، چنانچہ ان کی بہن نے پہلے خود تعلیم حاصل کی، اور مختلف علوم میں مہارت حاصل کی، اور پھر اپنے چھوٹے بھائی کی شخصیت سازی کی طرف متوجہ ہوئیں، حالانکہ خود بھی کم عمر تھیں، جیساکہ علامہ ابن ِحجرؒ ان کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’وکانت بي برّۃ، رفيقۃ، محسنۃ، جزاہا اللہ تعالي عني خيرًا، فلقد انتفعت بہا وبآدابہا مع صغر سنہا۔‘‘(۷)
ترجمہ: ’’وہ میرے ساتھ نیکی واحسان کرنے والی ساتھی تھیں، (اللہ تعالیٰ میری طرف سے اس کو بہترین بدلہ عطا فرمائے) اس کی کم عمری کے باوجود میں نے اس سے اور اس کے آداب واخلاق سے بہت استفادہ کیا۔‘‘
اسی طرح علامہ ابنِ حجرؒ ان کی بہت تعریف کیا کرتے تھے، اور اس کو اپنی ماں کا درجہ دیتے تھے، جبکہ ان دونوں کی عمروں میں تقریباً تین سال کا ہی فرق تھا، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
’’وکانت قارئۃ کاتبۃ أعجوبۃ في الذکاء، وہي أمي بعد أمي۔‘‘ (۸)
ترجمہ: ’’وہ قاریہ، کاتبہ اور ذہانت میں عجوبۂ روزگار تھی، اور میری حقیقی ماں کے بعد میری ماں تھی۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ گواہ ہے کہ مشاہرینِ ملت اور اُمتِ مسلمہ کے اکابرین کے بلند مقام ومرتبے اور ان کی کامیابی وکامرانی کے پیچھے عفت مآب خواتین کا ہاتھ نظر آئے گا، پہلے خواتین اسلامی تعلیمات سے واقف اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوتی تھیں، ان کو معلوم تھا کہ وہ ایک فرد کی نہیں، بلکہ ایک معاشرے کی تربیت اور شخصیت سازی کر رہی ہیں، اور زمانے نے دیکھا کہ ان اکابرین میں سے ایک ایک فرد امت کا رہنما وپیشوا بنا، لہٰذا خواتین کے رجال سازی میں کردار کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا کہ : ’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہے۔‘‘
۱-الإصابۃ في تمييز الصحابۃؓ لابن حجر، (۲/۴۵۸)، رقم الترجمۃ: ۲۷۹۶، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط:۱۴۱۵ھ
۲- تاريخ بغداد للخطيب، (۸/۴۲۲)، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط:۱۴۱۷ھ
۳-تاريخ جرجان للجرجاني، (ص:۴۹۲)، الناشر: عالم الکتب- بيروت، ط:۱۴۰۷ھ- ۱۹۸۷ء
۴-صفوۃ الصفوۃ لابن الجوزي، (۳/۱۸۹)، الناشر: دار المعرفۃ، بيروت
۵-الديباج المذہب في معرفۃ أعيان المذہب لليعمري، (۱/۹۸)، الناشر: دار التراث للطبع والنشر، القاہرۃ
۶-ترتيب المدارک وتقريب المسالک للقاضي عياض، (۱/۱۳۰)، الناشر: مطبعۃ القضالۃ- المحمديۃ، المغرب
۷-المجمع المؤسس للمعجم المفہرس لابن حجر، (۳/۱۲۲)، الناشر: دار المعرفۃ- بيروت
۸-إنباء الغمر بأبناء العمر لابن حجر، (۳/۳۰۲)، الناشر: دار الکتب العلميۃ- بيروت، ط: ۱۴۰۶ھ- ۱۹۸۶ء