بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں (دوسری قسط)

جاوید احمد غامدی سیاق وسباق کے آئینہ میں        (دوسری قسط)

    غامدی صاحب کے ہاں پوری امت میں صرف دو ہی علماء ان کے ممدوح ہیں، جن کو وہ آسمان کا درجہ دیتے ہیں، باقی تمام علماء امت کو وہ خاک کے برابر قرار دیتے ہیں، چنانچہ وہ اپنی کتاب ’’مقامات،ص:۵۷‘‘ میں خود لکھتے ہیں:      ’’میں نے بھی بہت عالم دیکھے ہیں، بہتوں کو پڑھا اور بہتوں کو سنا، لیکن امین اصلاحی اور ان کے استاد حمید الدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ: غالب نکتہ دان سے کیا نسبت

خاک کو آسمان سے کیا نسبت     ملک وملت کے غدار پرویز مشرف کے دور حکومت میں غامدی صاحب کو بڑی پذیرائی ملی اور وہ اسلامی نظریاتی کونسل تک پہنچ گئے، اس موقع پر روزنامہ نوائے وقت لاہورکے مدیر نے اپنے اداریہ میں غامدی صاحب پر کچھ تبصرہ کیا ہے، وہ ملاحظہ ہو: ’’اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت ایک منافع بخش نوکری ہے،مگر ایسی بھی نہیں کہ اس کے لیے علامہ جاوید غامدی قرآن حکیم اور اسلامیات کی تعلیم کو فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی اور ملائیت سے تعبیر کرنے لگیں۔ علامہ جاوید غامدی کو اپنی لسانی اور علمی صلاحیتوں کو محض سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے ہر روز ٹی وی مباحثوں میں نئی نئی اختراعات کرنے اور حاکموں کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس دین اور علم کی جڑیں نہیں کاٹنی چاہئیں، جس کی وجہ سے انہیں یہ عزت حاصل ہے۔ علامہ صاحب کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ علماء حق کبھی حکومتوں کی حمایت میں اس قدر سرگرم اور پر جوش نہیں ہوا کرتے، خواتین کی جھرمٹ میں بیٹھ کر ٹی وی چینلز کی چکا چوند روشنیوں میں اسلام کی یہ بخیہ گری کم از کم علامہ جاوید غامدی کو زیب نہیں دیتی‘‘۔             (روزنامہ نوائے وقت لاہور کا ادارتی شذرہ، مؤرخہ ۵؍جون ۲۰۰۶ء بحوالہ غامدی مذہب کیا ہے؟ص:۱۷) علامہ غامدی کی ظاہری شکل     جاوید غامدی صاحب سے متعلق مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے بطور جملہ معترضہ ریکارڈ درست رکھنے کے لیے اتنا عرض ہے کہ غامدی صاحب کی ظاہری شکل اور ظاہری نقشہ اس طرح ہے کہ یہ صاحب ڈاڑھی منڈاتے ہیں، ان کے سر کے بال انگریزی ہیں، ان کے پورے بدن پر سر سے لے کر پاؤں تک اسلامی شعار اور زہد وتقویٰ کی کوئی نشانی نظر نہیں آتی ۔ اکثر وبیشتر آزاد منش عورتوں کے جھرمٹ میں نظر آتے ہیں اور ٹی وی چینلوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ ہندوستان کے ایک ملحدو زندیق شخص وحید الدین خان سے غامدی صاحب کے گہرے تعلقات ہیں۔ پاکستان میں جب تک غدار وطن اور غدار دین پرویز مشرف کی حکومت تھی غامدی صاحب ان کے سائے تلے پھلتے پھولتے رہے، جب پرویز کی حکومت ختم ہوگئی غامدی صاحب نے ملائیشیا کا رخ کیا اور وہاں سکونت اختیار کی۔     یہ تو غامدی صاحب کی ظاہری وضع قطع اور ظاہری نقشہ ہے اور اس شخص کا باطنی نقشہ ان شاء اللہ! ان کی زبانی اور ان کی تحریرات اورتصنیفات کے آئینہ میں قارئین آئندہ دیکھ لیں گے۔ میرے پاس تقریباً دس سال سے غامدی صاحب کی تحریک کا ’’منشور‘‘ محفوظ پڑا ہوا ہے، میں اسی سے چند دفعات  سامعین کے سامنے رکھوں گا، اگرچہ آج کل غامدی صاحب کے نظریات اتنے کھل کر علماء اور عوام کے سامنے آگئے ہیں کہ اب اس کے منشور کے مندرجات میں کوئی چیز پوشیدہ نہیں رہی ہے، تاہم منشور کی الگ شان ہوتی ہے اور اس میں پوشیدہ راز بہت ہیں۔ غامدی صاحب سے متعلق بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں ان کے غلط نظریات کواجاگر کیاگیا ہے اور خوب جوابات دیئے گئے ہیں، ان کتابوں میں پروفیسر مولانا محمد رفیق صاحب کی کتاب بہت عمدہ ہے۔ ان کتابوں کے شائع ہونے کے بعد کسی تحریر اور تردید کی ضرورت نہیں ہے، لیکن میرے ذہن میں جو کچھ سوچ اور ارادہ ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اور علماء غامدی صاحب کے سیاق وسباق کو پہچان سکیں کہ اسلام کے خلاف غامدی فتنہ آج کا نہیں، بلکہ دین اسلام کے خلاف شروع دن سے ایک لاوا پھٹ پڑا ہے جو مسلسل بہہ رہا ہے او رغامدی صاحب جیسے لوگ اس میں شامل ہورہے ہیں۔     یہ ایک طویل دورانیہ ہے جو دورِ نبوت سے دین مقدس کے بدخواہوں نے اسلام کے لبادے میں آکر اسلام کے مقدس وجود پر ظالمانہ خنجر چلائے ہیں اور اسلام کے معصوم چہرے پر اپنی باطنی غلاظت پھینکنے کی کوشش کی ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ مقدس دین قیامت تک باقی رہنے کے لیے آیا ہے، کسی بدباطن کی بدخواہی سے یہ ختم نہیں ہوسکتا، البتہ بدخواہ خود ختم ہوگئے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد عالی ہے: ’’ یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہَ بِأَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُوْنَ‘‘ یعنی یہ بدخواہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے دین کے نور کو اپنی زبانوں سے بجھادیں، لیکن اللہ تعالیٰ اپنے دین کے ا س نور کو مکمل کرنے والے ہیں، اگرچہ بدخواہ کافر اس کو پسند نہ کریں۔ گویا شاعر نے اسی طرح کے موقع پر کہا ہے: حاسد حسد کی آگ میں خود ہی جلا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے     ذرا سوچئے کہ نبوت کے جھوٹے دعویدار اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب کا انجام کیا ہوا؟ جو بڑے شوق سے مقفیٰ اور مسجع جملے بنابنا کر اسلام کے خلاف زہر اگلتے رہے۔ کعب بن اشرف یہودی اور عبد اللہ بن ابی بن سلول کا کیا حشر ہوا؟ جو اسلام کے معصوم چہرے پر ہر وقت اپنے نجس لعاب پھینکتے رہے اور اسلام کے روشن چراغ کو بجھانے کے لیے گندی پھونک پھونکتے رہے، کسی نے سچ کہا ہے: نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا     ذرا معتزلہ اور خوارج کے فتنوں پر نظر ڈالیے جنہوں نے صدیوں تک اسلام کو پریشان کررکھا تھا، آخر کیا ہوئے؟ اور کہاں گئے؟ خود ختم ہوگئے اور اسلام زندہ وتابندہ موجود ہے۔ اسلام کے خلاف جہمیہ، مرجئہ، کرامیہ، فلاسفہ ، قرامطہ، سوفسطائیہ، لاادریہ اور باطنیہ نے کتنے طویل عرصہ تک فتنے کھڑے کیے اور سازشیں کیں، آخر کہاں گئے؟ ان کا نام ونشان باقی نہیں ہے۔ غامدی صاحب کا فتنہ تو ان کے فتنوں کے سامنے ایک نومولود بچہ ہے۔ذرا غلام احمد قادیانی کے فتنے کو سوچئے! پوری دنیائے کفر اس کی پشت پر کھڑی تھی اور تحریرات وتقریرات اور تصنیفات کے حوالہ سے علمی میدان میں میرے خیال میں شاید کسی فتنہ کے لیے اتنا بڑا کام نہیں ہوا ہوگا، لیکن ’’جَائَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا‘‘ کا جب ظہور ہوگیا تو حق کے سامنے یہ باطل سسک سسک کرمر گیا اور اس کی باطل عمارت کے پرزے فضاؤں میں اُڑ گئے، اس فتنہ کے مقابلہ میں غامدی صاحب کا فتنہ تو مکڑی کا جالا ہے جو ہوا کے ایک جھونکے کا مقابلہ بھی نہیں کرسکے گا۔     فری میسن کے سربراہ سرسید احمد خان کے فتنے کا ذرا مطالعہ کیجئے، انگریز کی چھتری کے سائے تلے وفادار بلبل کی طرح کیسے چہک رہا تھا، علماء حق کو گالیاں دیتا تھا اور احادیث مقدسہ کو اپنی عقل نارسا کے ترازو پر تول کر انکار کیا کرتا تھا، قرآن عظیم میں تحریف کرتا تھا اور معجزات کا انکار کرتا تھا، کچھ بتادو، کیا اسلام کا کوئی حکم اس کے کہنے سے مٹ گیا یا موقوف ہوگیا؟ البتہ ماؤف ذہن اور مشکوک احساسات کے حاملین منافقین اس کے جال میں پھنس گئے، جن کا مقدر یہی تھا۔ بہرحال سرسیداحمد خان برصغیر میں انگریزوں کی طرف سے دین کے بگاڑنے کے لیے ’’بادشاہ‘‘ مقرر کیاگیا تھا، جب وہ کچھ نہ کرسکا تو غامدی بیچارا کیا کرسکے گا؟! ہاں! تشویش اور نزاعات کا میدان گرم کردے گا۔     غلام احمد پرویز، عبد اللہ چکڑالوی، علامہ عنایت اللہ مشرقی کے فتنوں کو دیکھ لیجئے، ہر ایک نے انتہائی فصیح وبلیغ تحریرات کے ذریعہ اور غضب کی تقریرات کے ذریعہ اسلام کے بلند جھنڈے کو سرنگوں کرنے کی کوشش کی، آخر سب کے سب خود سرنگوں ہوگئے۔ بہائی فرقہ کو دیکھ لیجئے، ذکری فتنہ کو دیکھ لیجئے، بلکہ ان تمام فتنوں سے بڑے فتنے کو بھی یاد کیجئے کہ مغل اعظم اکبر بادشاہ نے دین الٰہی کے نام سے دین اکبری بنایا تھا، کیا اس عظیم فتنہ کے سامنے علماء حق سد سکندری کی طرح کھڑے نہیں ہوئے؟ اور کیا وہ فتنہ اپنے برے انجام پر جاکر ختم نہیں ہوا؟ہاں! البتہ وقتی طور پر کچھ بدبخت سیاہ کار ان فتنوں کا شکار ہوگئے، لیکن میرے خیال میں زیادہ تر ان فتنوں کا شکار وہ لوگ ہوئے جن کا تعلق سرمایہ دار، جاگیر دار اور متکبر طبقات سے تھا جو ایک غریب مولوی کے بتائے ہوئے دین کو غریب سمجھتے تھے اور اس پر چلنے کو عار سمجھتے تھے، چنانچہ ایک حد تک میرا تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لینڈ لارڈ چوہدریوں، وڈیروں، نوابوں، سرداروں اور خوانین کو عموماً اصلی دین نصیب نہیں فرماتا تو وہ اس طرح ماڈرن دین میں آکر پھنس جاتے ہیں۔ غامدی فتنے کے شکار لوگ بھی زیادہ تر یہی فیشن زدہ، روشن خیال اور آزاد منش لوگ ہیں جو دین میں نئی تحقیق نکالنے والے دانشوروں اور چٹکلے چھوڑنے والے فلاسفروں اور عقلی گھوڑے دوڑانے والے اسکالروں کو پسند کرتے ہیں۔ حکایت:     امام مسلمv نے صحیح مسلم کے مقدمہ میں صفحہ:۱۷ پر ایک قصہ لکھا ہے، ا س کا خلاصہ یہ ہے کہ عمرو بن عبید بصری متوفی ۱۴۳ھ مشہور معتزلہ میں سے تھا، بصرہ میں حدیث کا درس بھی دیا کرتا تھا، اس کے نظریات غلط تھے جن کو وہ پھیلایا کرتا تھا۔ بصرہ میں جرح وتعدیل کے امام بڑے محدث ایوب سختیانیv بھی درس حدیث دیا کرتے تھے، ان کے درس کے وسیع حلقہ میں علم حدیث سیکھنے والے مختلف لوگ آکر بیٹھتے تھے، اس درس کے طلباء میں سے ایک طالب علم کچھ عرصہ تک ایوب سختیانیv کے پاس پڑھتا رہا، پھر غائب ہوگیا، شیخ ایوب سختیانیv اس کو پہچان چکے تھے تو ایک دن طلبہ سے پوچھا کہ وہ طالب علم کہاں چلا گیا؟ طلبہ نے جواب دیا کہ وہ تو عمرو بن عبید معتزلی کے درس میں جاکر بیٹھنے لگا ہے۔ شیخ حماد جو اس قصہ کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ: ایک دن میں اپنے شیخ ایوب سختیانیv کے ساتھ سویرے سویرے بازار چلا گیا تو اچانک سامنے سے وہ طالب علم آگیا، شیخ ایوب سختیانیv نے اس کو سلام کیا اور خیر خیریت معلوم کی اور پھر ان سے پوچھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ عمرو بن عبید کے درس میں جاکر بیٹھنے لگے ہو؟ ا س طالب علم نے جواب میں کہا کہ: جی ہاں! استاذ جی! میں ا س لیے ان کے درس میں بیٹھنے لگاہوں کہ وہ ہم سے عجیب عجیب باتیں بیان کرتا رہتا ہے، یعنی نہایت دلچسپ اور عجیب وغریب باتیں بیان کرتا ہے۔ایوب سختیانیv نے فرمایا کہ ہم تو اسی طرح کی عجیب باتوں سے ڈر کردور بھاگتے ہیں۔      اس قصہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ عجیب وغریب باتیں بیان کرنے والوں کو ہر دور میں پسند کیا جاتا ہے، اسی طرح آج کل کے روشن خیال، جدت پسند اور ماڈرن قسم کے لوگ بھی پرانے جدت پسند لوگوں کی طرح چٹکلوں والا ماڈرن دین چاہتے ہیں، اس لیے وہ مسجدوں کے بجائے ہوٹلوں، کلبوں اور ٹی وی لاؤنج  کا رخ کرتے ہیں جہاں ان کو غامدی جیسا روشن خیال مجتہد مل جاتا ہے، جو اپنے غلط اجتہادات سے ان کو چٹکلے بتاتا ہے، نکتہ دانی سکھاتا ہے، لفاظی اور چرب لسانی اور شعبدہ بازی کی جادوگری میں ان کو گھیر لیتا ہے اور تحقیق کے خوشنما اور دبیزپردوں میں گمراہی لپیٹ کر ان کو تھمادیتا ہے، ان کے مال کو بھی لوٹ لیتا ہے اور اسلامی عقیدہ کو بھی بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔یہ بیچارے لوگ اپنے پرانے دین سے بھی بیزار ہوجاتے ہیں اور نئے دین میں بھی ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا،حالانکہ ایک ہوشیار شاعرنے ان کو سمجھانے کے لیے کہا تھا: اپنی مٹی پہ ہی چلنے کا سلیقہ سیکھو

سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے مضمون نگاری کا فتنہ ’’وَالشُّعَرَائُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوُوْنَ أَلَمْ تَرَ أَنَّہُمْ فِیْ کُلِّ وَادٍ یَّہِیْمُوْنَ وَأَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ مَالَایَفْعَلُوْنَ‘‘۔                                              (سورۂ شعرائ:۲۲۴،۲۲۵،۲۲۶) ترجمہ:…’’ اور شاعروں کی اتباع وہی لوگ کرتے ہیںجو گمراہ ہیں، کیا تونے نہیں دیکھا کہ وہ ہرمیدان میں سرمارتے پھرتے ہیں اور یہ کہ وہ کہتے ہیں جو کرتے نہیں‘‘۔     علامہ شبیر احمد عثمانیv ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ شاعری کی باتیں محض تخیلات ہوتی ہیں، تحقیق سے ان کو لگاؤ نہیں ہوتا، اس لیے اس کی باتوں سے بجز گرمیِ محفل یا وقتی جوش اور واہ واہ کے کسی کو مستقل ہدایت نہیں ہوتی، یعنی شاعروں نے جس مضمون کو پکڑ لیا‘ اسی کو بڑھاتے چلے گئے، کسی کی تعریف کی تو آسمان پرچڑھادیا، مذمت کی تو ساری دنیا کے عیب اس میں جمع کردیے، موجود کو معدوم اور معدوم کو موجود ثابت کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ الغرض جھوٹ، مبالغہ اور تخیل کے جس جنگل میں نکل گئے پھر مڑ کر نہیں دیکھا، ان کے شعر پڑھو تو معلوم ہو کہ رستم سے زیادہ بہادر اور شیر سے زیادہ دلیر ہوںگے اور جاکر ملو تو پرلے درجے کے نامرد اور ڈرپوک، کبھی دیکھو تو ہٹے کٹے ہیں اور اشعار پڑھو تو خیال ہو کہ نبضیں ساقط ہوچکی ہیں، قبضِ روح کا انتظار ہے۔‘‘ (تفسیر عثمانی، ص:۵۰۲)     میں نے ان آیات اور ان کی تفسیر کو صرف شعراء کو پیش نظر رکھ کر پیش نہیں کیا، بلکہ میرے پیش نظر بشمولِ شعراء زبان کے وہ سارے پہلوان اور قلم کے وہ سارے شہسوار ہیں جو اپنے زورِ قلم اور الفاظ کی بازیگری اور مضمون نگاری کے بل بوتے پر اسلام جیسے مقدس مذہب پر زور آزمائی کرتے ہیں اور دین اسلام کے احکامات کو تختۂ مشق بناتے رہتے ہیں، جن میں سے اس وقت میرے نزدیک سرفہرست اور موضوعِ بحث جاوید غامدی صاحب ہے جو بیک وقت شاعر بھی ہے، دانشور، مضمون نگار اور صاحب قلم بھی ہے۔شاعر نظم کی صورت میں اور دانشورنثر کی صورت میں الفاظ کی زور آزمائی کرتے ہیں۔ زبان کی لفاظی میں دونوں ایک ہی میدان کے شہسوار ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں دورِ اول کے چند دانشوروں کا نمونہ پیش کروں جنہوں نے زورِ زباں سے شرعی احکامات کا انکار کیا اور بارگاہِ نبوت سے ان کو شعبدہ باز کا لقب ملا اور ڈانٹا گیا۔ مشکوٰۃ شریف میں باب الدیات کی فصل ثالث کی آخری حدیث کی عربی عبارت اور ترجمہ ملاحظہ ہو: ’’وعن سعید بن المسیبؒ أن رسول اللّٰہ a قضی فی الجنین یقتل فی بطن أمہ بغرۃ عبد أو ولیدۃ، فقال الذی قضی علیہ کیف أغرم من لاشرب ولاأکل ولانطق ولا استہل ومثل ذٰلک یطلّ، فقال رسول اللّٰہ a إنما ہذا من إخوان الکُہان‘‘۔                           (رواہ مالک مرسلا ورواہ ابو داؤد عن ابی ہریرۃ qمتصلا) ترجمہ:…’’حضرت سعید بن مسیبv کہتے ہیں کہ رسول کریم a نے پیٹ کے اس بچہ کی دیت جو مارا جائے ایک غرہ یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی مقرر فرمائی۔ جس شخص پر یہ دیت واجب کی گئی تھی اس نے کہا: میں اس شخص کا تاوان کیسے بھروں جس نے نہ کچھ پیا ہو، نہ کھایا ہو، نہ کوئی بات کی ہو اور نہ چلایا ہو، اس قسم کا قتل تو ساقط کیا جاتا ہے۔ آنحضرت a نے فرمایا کہ: پکی بات ہے کہ یہ شخص کاہنوں کا بھائی ہے۔‘‘     ’’الکُہان‘‘ یہ کاہن کی جمع ہے، کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو غیب دانی کا دعویٰ کرتاہے اور مستقبل کی غلط سلط باتوں کو الفاظ کے دبیز پیرایہ میں خوبصورت مسجع صورت میں پیش کرتا ہے، تاکہ لفاظی کی شعبدہ بازی سے لوگوں کے دلوں کو اپنی طرف مائل کردے اور شریعت کے خلاف اپنے باطل نظریات کو رائج کردے۔     ذرا غور کیجئے! اس شخص نے الفاظ کی سجاوٹ اور قافیہ کی بناوٹ کی غرض سے کتنا تکلف کیا کہ ’’أکل‘‘ پر ’’شرب‘‘ کو مقدم کیا، حالانکہ طبعی کلام میں اکل مقدم ہوتا ہے، پھر ’’نطق‘‘ کو ’’استہل‘‘ پر سجع کی غرض سے مقدم کیا، حالانکہ طبعی کلام کا معاملہ اس کے برعکس ہے، پھر آخر میں ’’یطل‘‘ کو سجع کی غرض سے فٹ کیا اور شریعت کے ایک مقرر حکم کو باطل ٹھہرایا اور جاہلیت کے دستور کے مطابق جنین کی دیت کا انکار کیا اور الفاظ کے زور پر فصاحت وبلاغت کا مظاہرہ کیا، تاکہ شریعت کا حکم مسترد ہوجائے۔     غامدی صاحب کا بھی یہی وطیرہ ہے، الفاظ کے ہیر پھیر اور جوڑ توڑ میں کسی مسئلہ میں اتنی گہرائی میں چلاجاتا ہے کہ سطحی نظر میں آدمی مرعوب ہوجاتا ہے۔ میں خود مانتا ہوں کہ غامدی صاحب کے الفاظ کا جوڑ توڑ اور تحقیق کی گہرائی اپنی نظیر آپ ہے، لیکن کاش! اس کے قلم کا رُخ باطل کی طرف ہوتا، کیا یہ اس کی بدبختی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو قوتِ گویائی عطا فرمائی، اس کو صاحب قلم اور دانشور بنایا، جب یہ لکھنے بولنے کے قابل ہوا تو اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف محاذ قائم کیا اور اس کے خلاف لکھناشروع کردیا۔     میں اس سے پوچھتا ہوں کہ تم نے اپنے منشور کی پیشانی پر لکھا ہے:’’ہمارا منشور اعلانِ جنگ ہے دورِ حاضر کے خلاف ‘‘ اب آپ ذرابتائیں کہ دور حاضر میں کیا اس دھرتی پر یہود ونصاریٰ اور ہندو وپارسی نہیں رہتے؟ کیا اس دنیا میں اہل باطل میں سے قادیانی، آغاخانی، ذکری وبہائی، شیعہ روافض اور اہل بدعت نہیں رہتے؟کیا تم نے ان کے خلاف کبھی کوئی مقالہ لکھا ہے؟ اس کے برعکس تم نے دین اسلام کے ایک ایک حکم کے خلاف زہر افشانی کی ہے، کیا دور حاضر صرف اسلام ہے؟ جس کے خلاف تم جنگ کے لیے میدان میں اتر آئے ہو؟ اس دانشوری اور اس پروفیسری اور اس مقالہ نگاری اور اس مضمون نگاری سے تویہ بہتر تھا کہ تم ان پڑھ اور بے علم ہوتے اور صرف دین کے احکام پر عمل کرتے۔ تم نے جو غلط لکھا ہے اس کے بارے میں تم سے پوچھ ہوگی، اگر تم نہ لکھتے تو نہ لکھنے کا تم سے سوال نہ ہوتا۔ اس لکھنے سے تو بہتر تھا کہ تمہارے ہاتھ شل ہوتے، تمہارا قلم ٹوٹ جاتا، تمہاری آنکھیں اندھی ہوجاتیں اور تمہاری زبان گنگ ہوتی، تاکہ اسلام کے خلاف زہر افشانی کے عذاب سے تو بچ جاتے۔ تمہیں دنیا میں تنقید کرنے کے لیے اگر کوئی ملا تو وہ صرف فقہاء کرام، اولیاء عظام، مفسرین کرام اور مجاہدین عظام ملے؟ تم کہتے ہو کہ دیوبند کا دور ختم ہوگیا، فقہاء کا دور نہیں رہا، جہاد کا دور نہیں رہا، دیت کا دور نہیں رہا، حدود وتعزیرات کے نفاذ کا دور نہیں رہا، اگر واقعی ایسا ہے تو تم بتاؤ کہ آج کل کس چیز کا دور ہے؟ کیا تم کوئی نئی شریعت لائے ہو؟ اگر کچھ ہے تو اس کو سامنے لاکر دکھادو یا کوئی نئی نبوت لائے ہو تو اس کو سامنے لاکر بتادو؟ اگر ایسا نہیں ہے تو میں پھر وہی بات دہراتا ہوں کہ کاش! تم اندھے لنگڑے لولے ہوتے، ان پڑھ ہوتے تو غلط لکھنے کا وبال تمہارے سر پر نہ ہوتا، تم دانشور اور صاحب قلم کیا ہوئے کہ آسمانوں پر مچلنے لگے۔ اتنا نہ بڑھا پاکئیِ داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ     فصاحت وبلاغت کی دنیا میں فن ادبِ عربی کے ماہرین میں ابو العلاء المعری ایک قادر الکلام ادیب گزراہے، اس کو اپنی فصاحت پر اتنا ناز تھا کہ سوچنے لگا کہ کیا میں قرآن عظیم کے مقابلہ میں کوئی کلام بناسکتا ہوں یا نہیں؟ اس سوچ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس سے قوتِ گویائی چھین لی اور اس کا سابقہ ولاحقہ سارا کلام ساقط الاعتبار ہوکر رہ گیا، وہ عام سادہ عربی بولنے میں فحش غلطیاں کرنے لگا۔ ابوالعلاء المعری کو جب اللہ تعالیٰ نے قوتِ گویائی اور تحریر وتقریر کا ملکہ دیا تو اس کو چاہیے تھا کہ اس قوت کو دین اسلام کی حمایت میں صرف کرتا اور اعداء دین سے مقابلہ کرکے دفاع اسلام کے لیے کام کرتا،اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اسلام کے خلاف مورچہ سنبھال لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے اس کی استعداد ہی چھین لی۔ غامدی صاحب کو بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی زبانی اور قلمی استعداد کہیں اسلام کے خلاف تو استعمال نہیں ہورہی ہے؟!ان کو غور سے دیکھنا چاہیے کہ ان کے ارد گرد کے حالات اور کیفیات ان کو بھلائی کی طرف لے جارہی ہیں یا تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ مشکوٰۃ شریف کتاب الایمان، ص:۱۳ پر ایک حدیث ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’عن أبی ہریرۃ ؓ قال: قال رسول اللّٰہ a : یوذینی ابن آدم یسب الدہر وأنا الدہر، بیدی الأمر أقلب اللیل والنہار‘‘۔                              (متفق علیہ) ترجمہ:…’’حضرت ابوہریرہ q فرماتے ہیں کہ: آنحضرت a نے فرمایا: انسان مجھے ایذا پہنچاتا ہے، وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے اور زمانے کی الٹ پلٹ میرے ہاتھ میں ہے، دن رات کا لانا میرا کام ہے‘‘۔     مطلب یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، اس کو قوتِ گویائی عطا فرمائی، جوانی دی، زبان دی، طاقت ِگفتاردی، جب وہ بولنے پر آیا تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایذا رسانی کا معاملہ کیا اور زمانہ کو گالی دینے لگا، حالانکہ زمانہ کے پیچھے تمام تصرفات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں تو گویا بالواسطہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کو گالی دینے کا مرتکب ہوا۔ یہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ ایک آدمی زمانہ کی برائی بیان کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کی ایذا رسانی کا سبب بنتا ہے تو جو شخص براہِ راست اللہ تعالیٰ کے حکم پر باربار حملے کرتا ہے، وہ اپنی زبان سے اللہ تعالیٰ کو کس قدر ایذا پہنچاتا ہے اور کس قدر بے ادبی اور گستاخی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو قیامت تک کے لیے اتارا ہے اور غامدی صاحب اس میں تقسیم شروع کردیتا ہے کہ یہ حکم اتنی مدت کے لیے ہے، وہ حکم اتنی مدت کے لیے تھا۔ ارے ظالم! تیرے پاس کونسی حدیث ہے یا کونسی وحی ہے کہ ارتداد کی سزا صرف بنی اسماعیل کے ساتھ خاص تھی اور اب یہ سزا ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی ہے۔ اب اگر کوئی شخص مرتد ہوجاتا ہے تواس کوکوئی سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ نبی اکرم a تو قیامت تک امت کے لیے ضابطہ مقرر فرماکر اعلان فرماتے ہیں کہ: ’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘…’’جوکوئی دین اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے اس کو قتل کردو۔‘‘ نبی a کا فرمان ہے کہ اس کو قتل کردو، صحابہ s کا اجماع ہے کہ اس کو قتل کردو، فقہاء کرام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ اس کو قتل کردو، علمائے امت کا فیصلہ ہے کہ اس کو قتل کردو اور غامدی صاحب قرآن وحدیث، اجماعِ صحابہؓ واجماعِ فقہاء وعلماء کے مقابلے میں آکر کافروں کو خوش کرنے کے لیے کہتا ہے کہ یہ سزا ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی ہے اور مرتد کو کوئی یہ سزا نہیں دے سکتا ہے۔ اسی لیے میں کہتاہوں کہ اگر غامدی ان پڑھ ہوتا، جٹ جاہل ہوتا یا اندھا، لنگڑا، لولا ہوتا، اس کی انگلیاں کٹی ہوئی ہوتیں، اس کا قلم ٹوٹا ہوا ہوتا تو یہ اس کے حق میں بہت بہتر تھا، کیونکہ نہ لکھتا تو کوئی مؤاخذہ نہ ہوتا، غلط لکھا ہے تو مؤاخذہ ہوگا، پوچھ گچھ ہوگی، اس پر دلیل یہ ہے کہ مشکوٰۃ شریف،ص:۲۳ باب الایمان بالقدر میں حضرت عائشہ t سے ایک حدیث منقول ہے، فرماتی ہیں کہ نبی اکرم a سے میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ’’ جس شخص نے تقدیر سے متعلق کوئی بھی بات کی تو قیامت میں اس سے سوال ہوگا اور جس نے تقدیر سے متعلق کوئی بات نہیں کی اس سے کوئی سوال نہیں ہوگا‘‘۔        (مشکوٰۃ،ص:۲۳)     زبان وقلم کو بے جا استعمال کرنے کی یہ وعید صرف غامدی صاحب کے لیے نہیں، بلکہ ان کے پیشرواُن تمام دانشوروں اور مقالہ نگاروں کے لیے ہے جن کے قلم اور زبان اسلام کے خلاف زہر اگلتے رہے ہیں اور یہ وعید غامدی صاحب کے ان پیرؤوں اور شاگردوں کے لیے بھی ہے جو دانشوری اور مقالہ نگاری کے شوق میں قدم بقدم غامدی صاحب کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں، جن میں چند نووارد اور نوعمر نوجوان ہیں جن کو شاید یہ فکرلاحق ہوگئی کہ نیک نامی کے راستوں میں حصولِ شہرت میں دیر لگتی ہے، چلو دوسرے راستوں سے یہ مقصد جلدی حاصل ہوجائے۔ منہ پھٹ دانشوروں کے لیے وعید     مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے میں مشکوٰۃ شریف کے ’’باب البیان والشعر‘‘ کے عنوان کے تحت مندرج چند احادیث کو پیش کروں جن میںزبان وبیان سے متعلق بے جامبالغہ اور فصاحت وبلاغت کی سینہ زوری اور منہ پھاڑ کر بولنے اور جوڑ توڑ کے ساتھ رطب ویابس اکٹھا کرکے مطلب حاصل کرنے کی وعیدوں کا ذکر ہے۔ بیان کی جادو گری ۱:’’عن ابن عمرؓ قال: قدم رجلان من المشرق فخطبا، فعجب الناس لبیانہما، فقال رسول اللّٰہ a: إن  من البیان لسحرًا‘‘۔                       (رواہ البخاری) ترجمہ:’’حضرت ابن عمرqفرماتے ہیں کہ:مشرقی علاقے سے دو آدمی آئے اور آپس میں گفتگو کرنے لگے، لوگوں نے ان کے فصیح وبلیغ بیان پر بڑی حیرت اور تعجب کا اظہار کیا، رسول اللہ a نے فرمایا: بلاشبہ بعض بیان سحر کا اثر رکھتے ہیں ۔‘‘     ’’لسحرا‘‘ یعنی بعض بیان دلوں کو مائل کرنے میں جادو کی طرح اثر رکھتے ہیں۔ ’’رجلان‘‘ یہ اس وقت کا قصہ ہے کہ جب مشرقی علاقہ سے بنوتمیم کا ایک وفد آنحضرت a کی بارگاہ میں مدینہ منورہ آیا، اس وفد میں دو فصیح وبلیغ آدمی آئے تھے، ایک کا نام زبرقان تھا اور دوسرے کا نام عمرو بن ہتم تھا۔ حضور اکرم a کی مجلس میں صحابہ کرام sکے بھرے مجمع میں زبرقان نے نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ اپنے مفاخر وماٰثر کو بڑے مؤثر انداز میں پیش کیا اور پھر کہا کہ یا رسول اللہ! یہ عمرو بن ہتم بھی میری بیان کردہ خوبیوں کو جانتا ہے کہ میں کیسا ہوں اور میرے کیا کارنامے ہیں۔ اس کے بعد عمرو بن ہتم اٹھا اور اس نے زبرقان کے بیان کردہ تمام کارنامے جھوٹے ثابت کیے اور کہا کہ اس شخص میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ عمرو کا انداز بیان بھی نہایت مؤثر اور موزون تھا، جس سے لوگ زبرقان کے بارے میں شک میں پڑ گئے۔ اس کے بعدزبرقان پھر اٹھا اور بڑے دلکش انداز میں کہا کہ اس شخص کا دل جانتا ہے کہ میں کیسا ہوں، لیکن حسد نے اس کو اس طرح کہنے پر مجبور کیا ہے۔ صحابہ کرامsکا مجمع ان دونوں کے بیان کو جب سنتا تو دونوں کو شاباش دے کر حیران ہوجاتا او رتعجب کرنے لگتا، اس پر آنحضرت a نے فرمایا: ’’إن من البیان لسحرًا‘‘ یعنی بعض بیان دلوں کو مائل کرنے میں جادو کی طرح اثر رکھتے ہیں۔ بعض محدثین نے آنحضرت a کے اس کلام کو بیان کی مذمت پر حمل کیا ہے، گویا آنحضرت a اس طرح کہنا چاہتے ہیں کہ تکلف کرکے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنا اور منہ پھاڑ پھاڑ کر عجیب کلام پیش کرنا اور منہ زوری کرکے فصاحت وبلاغت کے شکنجوں میں لوگوں کو جکڑنا، رائی کا پہاڑ بنانا اور بات سے پتنگڑ بنانا، حقیر کو عظیم دکھانا اور عظیم کو حقیر کرنا یہ اچھا کام نہیں ہے، بلکہ یہ خالص جادو کی طرح شعبدہ بازی ہے جو قابل نفرت ہے، لیکن بعض دیگر محدثین نے آنحضرت a کے اس کلام کو تقریر وبیان کی مدح پر محمول کیا ہے کہ اچھے اندازِ اسلوب سے اپنے مافی الضمیر کو دوسروں کے سامنے پیش کرنا اور لوگوں کو متأثر کرنا، سلیقہ سے بات پیش کرنا غضب کا اثر رکھتا ہے جو عمدہ اور قابل تحسین ہے، مگر جب حق کے لیے ہو۔ منہ پھاڑ پھاڑ کر کلام کرنا تباہی ہے ۲:’’وعن ابن مسعودؓ قال: قال رسول اللّٰہ a: ہلک المتنطعون، قالہا ثلاثاً‘‘۔(رواہ مسلم) ترجمہ:’’اور حضرت ابن مسعود qفرماتے ہیں کہ: رسول کریم a نے فرمایا: کلام میں مبالغہ کرنے والے ہلاکت میں پڑ گئے، آپ a نے یہ الفاظ تین بار فرمائے۔‘‘     ’’المتنطعون‘‘ ،’’تنطع ‘‘باب تفعل سے ہے، منہ پھاڑ پھاڑ کر مبالغہ کے ساتھ کلام کرنے والے کو’’متنطع ‘‘کہتے ہیں، یعنی جس کے کلام میں تصنع اور بناوٹ بھی ہو اور بے جاچاپلوسی بھی ہو، خوشامد کی غرض سے بلافائدہ عبارت آرائی بھی ہو، الفاظ کی نمائش بھی ہو اور چست جملوں کی عیاشی بھی ہو۔ یہ کام اچھا نہیں ہے، اس لیے آنحضرت a نے اس کی مذمت فرمائی ہے، ظاہر ہے جھوٹ موٹ ملاکر خلافِ حقیقت بات کرنا اور باطل کو حق ثابت کرنا کوئی کمال نہیں ہے۔ منہ پھاڑ کر ٹرٹر کرنے والوں کی مذمت     ۳:’’وعن أبی ثعلبۃ الخشنی أن رسول اللّٰہ a قال: إن أحبکم إلیَّ وأقربکم منی یوم القیامۃ أحاسنکم أخلاقًا وإن أبغضکم إلیَّ وأبعدکم منی مساویکم أخلاقًا الثرثارون المتشدقون المتفیہقون، رواہ البیہقی فی شعب الإیمان وروی الترمذی نجوہ عن جابرؓ وفی روایۃ قالوا: یا رسول اللّٰہ! قد علمنا الثرثارون والمتشدقون المتفیہقون قال: المتکبرون۔‘‘           (رواہ البیہقی) ترجمہ:’’اور حضرت ابو ثعلبہ خشنی qسے روایت ہے کہ رسول کریم a نے فرمایا: قیامت کے دن مجھ کو سب سے زیادہ عزیز ومحبوب اور میرے زیادہ قریب وہ لوگ ہوںگے جو تم میں سے زیادہ خوش اخلاق ہیں اور میرے نزدیک تم میں سے سب سے برے اور مجھ سے سب سے زیادہ دور وہ لوگ ہوںگے جو تم میں بداخلاق ہیں اور بد اخلاق سے مراد وہ لوگ ہیں جو بہت (بنابناکر) منہ پھاڑ کر باتیں کرتے ہیں، بغیراحتیاط کے بک بک لگاتے ہیں اور تکبر کرتے ہیں۔ اس روایت کو بیہقی v نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے اور ترمذی v نے بھی حضرت جابرqسے اسی طرح روایت نقل کیاہے۔ نیز سنن ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ صحابہ s نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! ثرثارون اور متشدقون کے معنی تو ہمیں معلوم ہیں، متفیہقون سے کیا مراد ہے؟ یعنی متفیہق کس کو کہتے ہیں؟ آنحضرت a نے فرمایا: تکبر کرنے والے۔‘‘     ’’الثرثارون‘‘ نہایہ میں لکھا ہے کہ ’’الثرثارون ہم الذین یکثرون الکلام تکلفا خروجا عن الحق من الثرثرۃ وہی کثرۃ الکلام وتردیدہ‘‘۔ گویا ’’ثرثارون‘‘ ٹرٹارون کے وزن پر ہے اور ’’ثرثرۃ‘‘ ٹرٹرۃ کے وزن پر ہے، فضول بکواس کرنا مراد ہے۔ ’’المتشدقون‘‘ منہ پھاڑ پھاڑ کر بے احتیاطی کے ساتھ جھوٹ بول کر استہزاء کرنا اور فحش اشعار پڑھنا۔’’المتفیہقون‘‘ منہ پھاڑ پھاڑ کر گفتگو کرنا اور اپنی بڑائی وعظمت جتلانے کی غرض سے فصیح وبلیغ چست جملے چسپاں کرنا، تاکہ لوگ اس سے مرعوب ہوجائیں۔ یہ سارا کام متکبر لوگوں کا ہوتا ہے، لہٰذا حدیث میں اس لفظ کی تفسیر خود آنحضرت a نے ارشاد فرمائی: ’’قال المتکبرون‘‘ یعنی ’’متفیہقون‘‘ سے متکبرین مراد ہیں۔                                                                                   (جاری ہے)  

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین