بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

یہودیوں کی ویب سائٹ سے معاملہ کرنا


سوال

 کیا کہتے ہیں مفتیانِ اکرام اس بارے میں کہ فائیور ایک مشہور ویب سائٹ ہے، جس کے  ذریعے لوگ اس پر اپنی خدمات مہیا کرتے ہیں اور  خدمات حاصل کرنے والا اس کی مقرر کردہ رقم اسی ویب سائٹ کے ذریعے ادا کرتا ہےاور ویب سائٹ ان خدمات کی  جو اس ویب سائٹ کے  ذریعے انجام دی گئی  ہیں دونوں میں کسی ایک خاص طور پر خدمات مہیا کرنے والے سے بیس فیصد فیس حاصل کرتی ہے۔

مثال کے طور پر اگر کسی نے لوگو بنوانا ہے تو وہ اس ویب سائٹ پر آ کر کسی کو لوگو بنانے کا کہے گا، پھر بنانے والا بنا کر دے گا اور جو فیس مقرر ہو گی وہ لوگو بنوانے والا ادا کرے گا ۔پھر اس میں سے بیس فیصد ویب سائٹ کٹوتی کرے گی،  لوگو بنوانے والے سے یا بنانے والے سے اپنی سروس مہیا کرنےاور لوگو بنوانے والے سے پیسے لے کر بنانے والے کو ادا کرنے اور لوگو بنانے والے سے فائل اور لوگو وغیرہ لے کر بنوانے والےتک پہچانے کے ۔

آن لائن ارننگ کا شوق رکھنے والے خاص طور پر نوجوانوں  میں اس کا رجحان کافی زیادہ ہے۔ 

داراصل اس ویب سائٹ کا مرکز اسرائیل میں ہے جو ایک یہودی ریاست ہے جو فلسطین میں مسلمانو ں کا خون بہا رہی ہے۔ میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کے کیا اس پر کام کرنا اور اس سے آمد ن حاصل کرنا درست /جائز /حلال ہے ؟ کیا جو فیس خدمات انجام دینےوالا ادا کرتا ہےوہ درست /جائز /حلال ہے؟یا خدمات مہیا کرنے والا ادا کرتا ہے وہ درست /جائز /حلال ہے اس طور پر کہ یہ یہودی ہاتھوں میں جا رہی ہے چاہے وہ اسے اپنے ناجائز مقا صد کے لیے استعمال کرتے ہوں یا نہیں؟ اور اگردرست نہیں ہے تو جو اس پرپہلے سے ہی کام کر رہا ہے اور اس کا کوئی درائع آمدن بھی نہیں ہے اس کے علاوہ وہ کیا کرے؟

جواب

وہ  ممالک یا افراد جو مختلف مواقع پر مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے رہتے ہیں، ان کی مصنوعات استعمال کر کے ان کو فائدہ پہنچانا یا ان کی ویب سائٹ پر کام کرکے ان کی معیشت کو فائدہ پہنچانا ایمانی غیرت کے خلاف ہے؛  اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ مسلمانوں پر مظالم ڈھانے والے ممالک اور ریاستوں کو فائدہ پہنچانے  سے مکمل طور پر گریز کرے، اس نوعیت کا بائیکاٹ کرنا اسلامی غیرت، اہلِ اسلام سے یک جہتی اور دینی حمیت کا مظہر ہوگا۔

لہٰذا بصورتِ مسئولہ اگرچہ مذکورہ ویب سائٹ پر مختلف کمپنیوں کے ملازمین یا فری لانسرز کا بروکری کی شرائط کی رعایت رکھ کر معاملات کرنا فی نفسہ جائز ہوگا، لیکن  اگر  مذکورہ  ویب سائٹ سے  حاصل ہونے والی آمدنی کا 20 فیصد  اسرائیلی کمپنی کو جاتا ہے،  اور وہ اس رقم کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتی ہے تو اس ویب سائٹ پر کام کرنا اسرائیل کو فائدہ پہنچانا ہے،  اس لیے اس ویب سائٹ پر کام کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔  اس سے پہلے جو کام کرکے نفع کمایا اگر ان معاملات کی شرائط پوری تھیں اور وہ جائز تھے تو آمدن جائز ہوگی، البتہ آئندہ اجتناب کیا جائے۔

اس سلسلے میں مسلمانوں کو بھی اسی نوعیت کا ایک فورم بنانا چاہیے؛ تاکہ تمام لوگ مسلمانوں کے اس فورم کے حوالے سے ایک دوسرے سے لین دین کریں ، اور اس کا فائدہ مسلمانوں کو پہنچے، اور ان کا طریقہ کار اسلام کے طریقہ پر ہو؛ تاکہ غیر مسلم مسلمانوں کی اس کاوش سے متاثر ہوں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں