بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفی عدالتی خلع شرعاًموثرنہیں ہے۔


سوال

میں اپنے ایک اہم معاملہ میں جومجھے درپیش ہے آپ کوسوال لکھ رہاہوں،میری بیوی نے فیملی کورٹ میں بغیرکسی بنیادکے میرے خلاف خلع کامقدمہ دائرکیاہے،میری شادی گھروالوں نے 31/دسمبر2014کو طے کی تھی،24/جون2015کولڑکی کے والدین آئے اوراہ اپنے ساتھ جوسامان لائی تھی ساراسامان لے کروالدین کے ساتھ چلی گئی،میں نے معاملہ کوحل کرنے کی اورصلح کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں  دیا،اورخلع لینے کے لیے فیملی کورٹ چلے گئے۔

میں نے کورٹ میں جواب جمع کروایاکہ میرے خلاف تمام الزامات غلط ہیں،اورمیں اسے تمام شرعی اوراخلاقی حقوق اداکرتے ہوئے اسے بیوی کے طورپررکھناچاہتاہوں ،اورکسی طورپراس رشتہ کوتوڑنانہیں چاہتا،کیونکہ میں خلع اورعلیحدگی کے بالکل خلاف ہوں،میں یہ جانناچاہتاہوں کہ اگرکورٹ میری چاہت کے خلاف اسے خلع کی ڈگری جاری کردے توکیاوہ موثرہوگی؟جبکہ میں اس کے خلع کے مطالبے پرمتفق نہیں ہوں۔کیامہرکی رقم جومیں دے چکاہوں وہ میں چھوڑدوں؟

جواب

واضح رہے کہ خلع بھی دیگرمالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے،جس طرح دیگرمالی معاملات میں دونوں فریقوں کی رضامندی لازم ہوتی ہے،اسی طرح خلع میں  بھی میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے،اگرایک بھی رضامندنہ ہوتوخلع واقع نہیں ہوگا۔نیزعورت کوعدالت سے تنسیخ نکاح کافیصلہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شرعی اسباب اوروجوہات پائی جائیں،محض ذہنی ہم آہنگی کانہ ہونایاطبیعت کی عدم موافقت یامعمولی رنجش کی بناء پرنکاح ختم کرانے کے لیے عورت کوعدالت سے رجوع کرکے فیصلہ حاصل کرنے کاحق نہیں ہوتا۔بلکہ عدالتی فیصلے کے لیے شرعی اعذار اورشدیدمجبوری کاپایاجاناضروری ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگرعدالت سائل کی رضامندی کے بغیرخلع کی یک طرفہ عدالتی ڈگری جاری کرکے نکاح کرفسخ کرتی ہےتویہ شرعی اعتبارسے معتبرنہیں ہے،نہ ہی اس عدالتی فیصلے سے باہمی نکاح ختم ہوگا۔بلکہ عورت بدستوراپنے شوہرکے نکاح میں برقراررہے گی۔

اگرباہمی نباہ کی کوئی صورت نہ رہے اورمعاملہ جدائی پرہی آجائے  اورآپ مہرکی رقم واپس لیناچاہیں تومہرکی واپسی کی شرط پرخلع یاطلاق دے سکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 143701200028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں