بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

یورپ میں مکان کیسے خریدے؟


سوال

میں نے آپ حضرات کا جواب دیکھا جس میں یورپ کے ممالک میں بینک سے سودی قرضہ کی ممانعت کا ذکر ہے،  لیکن اگر حکومت یا کسی شخص سے قسطوں پر مکان خریدنے کی کوئی صورت نہ ہو (جیسا کہ آپ حضرات نے مشورہ دیا تھا)  تو وہاں کے لوگ کیا طریقہ اختیار کریں? کیوں کہ محض تنخواہ سے گھر خریدنا ممکن نہیں!

جواب

اگر کوئی شخص یورپ میں رہتا ہو اور  اس کے پاس مکان خریدنے کے لیے اتنی رقم نہ ہو جس سے وہ مکان خرید لے اور قسطوں پر خریدنے کی بھی کوئی جائز صورت نہ بن سکے تو بھی اس کے لیے سودی قرضہ لینے کی اجازت نہیں ہے، اگر اندرون ملک یا بیرون ملک کسی سے غیر سودی قرض مل جائے تو لے لے، بصورتِ دیگر مکان خریدنے کے لیے رقم جمع کرنا شروع کر دے اور  جب تک رقم جمع نہ ہو جائے اُس وقت تک کرایہ کے مکان میں رہے، شرعی حدود میں رہ کر کفایت شعاری سے کام لے، پھر جب پیسے جمع ہو جائیں تو اُن پیسوں سے مکان خرید لے۔

اس دوران جو تکالیف آئیں ان پر صبر کرنا چاہیے ؛ کیوں کہ مؤمن کی نظر اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت پر ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جس حال میں راضی ہوں اور جس عمل کے نتیجے میں آخرت کی لازوال نعمتوں کا وعدہ ہو اسے مدِ نظر رکھتے ہوئے ان شاء اللہ دنیا کے مصائب ہیچ معلوم ہوں گے۔اور اگر کسی ملک میں حلال سے اپنی ضروریات پوری کرنا ناممکن یا مشکل ہوجائے تو مسلمان کو چاہیے کہ ایسے ملک میں منتقل ہوجائے جہاں شرعی احکام پر چلنا آسان ہو، خصوصاً جب کہ یورپ میں رہنے والا وہاں کا اصل باشندہ نہ ہو تو اس کے لیے صرف کسبِ معاش یا دنیاوی معیارِ زندگی بلند کرنے کی خاطر  وہاں جانا شرعاً پسندیدہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَةٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾[العنکبوت: 56،57]

ترجمہ: اے ایمان والو! بے شک میری زمین کشادہ ہے سو میری ہی عبادت کرو، ہر نفس نے موت کا مزہ چکھنا ہے، پھر ہماری طرف ہی تم لوٹائے جاؤگے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200533

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں