بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یو ٹیوب پر پیسہ کمانے سے متعلق ایک اشکال


سوال

میرا سوال یوٹیوب پر  پیسے کمانے سے متعلق ہے، اس سے متعلق میں نے آپ کی  ویب سائٹ پر ایک سوال دیکھا بھی تھا، لیکن چوں کہ  اس سوال میں یوٹیوب اور  ایڈسینس  سے  متعلق پوری  وضاحت اور تفصیل نہیں تھی،  اس لیے آپ کا جواب بھی سوال کے مطابق مختصر تھا، مختصر سے میرا مطلب یہ ہے کہ جواب میں اصل عقد کے بارے میں وضاحت مذکور نہیں تھی؛ اس لیے  اس سوال میں میں یوٹیوب اور ایڈسینس کے ساتھ اصل عقد کی شرعی حیثیت کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہو ں ۔  سوال کی وضاحت  کے لیے یوٹیوب سے پیسے کمانے کا  طریقہ کار بھی مختصراً عرض کرتا ہوں ۔

یوٹیوب  (You Tube)  جوکہ گوگل کمپنی  کی ایک ویب سائٹ ہے اور اس ویب سائٹ سے اشتہارات کے ذریعہ پیسے کمائے جاتے ہیں،  پیسے کمانے کا طریقہ وہی ہے جو ”گوگل ایڈسینس،(Google Adsense)  کا ہے  اور گوگل ایڈسینس کے ہی سارے قوانین کا اطلاق یوٹیوب پر بھی ہوتا ہے ، اس لیے یوٹیوب سے پہلے ایڈسینس کا مختصر تعارف اور اصولوں کے بارے میں مختصراً ضروری وضاحت کرتا ہوں ؛ تاکہ آپ  کے لیے بھی آسانی ہو اور عوام کے ذہنوں میں بھی کوئی سوال نہ رہے۔

گوگل اپنے صارفین کو ایک سروس مہیا کرتا ہے، جس میں اگر کوئی شخص اپنے کاروبار، کمپنی یا ادارے کی انٹرنیٹ پر تشہیر کرانا چاہتا ہے تو گوگل اس معاملے میں اس کی اس ضرورت کو پورا کرتا ہے اور انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس پر اس کی تشہیر کرواتا ہے۔ مذکورہ صورت میں تین لوگ بنیادی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں:

اول: وہ جو اپنے ادارے، کاروبار یا کمپنی کی تشہیر کرانا چاہتے ہیں۔

دوم: گوگل۔

سوم: ویب پبلشر ، یعنی وہ شخص جس کی ویب سائٹ پر اشتہار چلتے ہیں۔

اب جو شخص اپنا اشتہار چلوانا چاہتا ہے، وہ گوگل سے رابطہ کرتا ہے اور گوگل اس سے ایک مخصوص رقم کے عوض ایک متعین مدت تک کا معاہدہ کرتا ہے، پھر گوگل وہ اشتہار ویب پبلشر کی ویب سائٹ پر چلاتا ہے اور اسے فی کلک (اشتہار پر جتنی بار کلک ہو گا) یا بعض صورتوں میں امپریشن ( ویب سائٹ پر رش اور اس پر لوگوں کی آمد) کے حساب سے پیسے دیتا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایڈسینس پر  چوں کہ ویب پبلشر کی اجرت مجہول ہے، یہاں اجرت اس بات پر ہے کہ ویب پبلشر اپنی ویب سائٹ پر اشتہار لگائے گا اور اس پر اسے پیسے ملیں گے، لیکن وہ پیسے متعین نہیں، بلکہ معلق ہیں اور وہ معلق اس بات پر ہیں کہ جتنے کلک ہوں گے، اتنے پیسے ملیں گے، لہٰذا اجرت مجہول ہوئی، تو کیا عقد جائز ہے ؟ یعنی اس عقد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ گوگل اگر ویب پبلشر کی ویب سائٹ ایک متعین وقت کے لیے اجرت پر لے لیتا، مثلاً ایک ماہ کے لیے اور اس پر اشتہار چلاتا، تو اجرت متعین ہو جاتی اور عقد کے عدِم جواز کی یہ وجہ نہ بنتی، لیکن یہاں ایسا نہیں، بلکہ گوگل نے اجرت کو معلق کیا ہے کلک کے ساتھ اور وہ مجہول ہے۔

دوسری بات یہ بھی ہے بسا اوقات اجرت متعین نہیں ہوتی، بلکہ فی صد کے اعتبار سے مقرر ہوتی ہے، جو کہ دلالی کی صورت ہے کہ جتنے گاہک لاؤ گے، اتنے فی صد کے حق دار ہوگے، لہٰذا اگر دلالی کی صورت یہاں بھی ہو تو عقد جائز ہو سکتا ہے ، لیکن یہاں دلالی کی صورت بھی ممکن نہیں، کیوں کہ گوگل نے دلالی سے بھی منع کیا ہے کہ ویب پبلشر کسی کو اپنی ویب سائٹ پر لگے اشتہار پر کلک کرنے کا کہہ نہیں سکتا کہ تم میری ویب سائٹ پر لگے اشتہار کو کلک کرو، لہٰذا دلالی کی صورت بھی یہاں نہیں ہو سکتی۔ اجرت کے  معاملے میں بھی گوگل نے  یہ  پابندی لگائی ہے کہ ویب پبلشر کو اجرت اس وقت دی جائے گی جب اس کی اجرت سو (100)  ڈالر سے تجاوز کر گئی ہو، اس سے کم پر گوگل اسے اجرت نہیں دیتا، یعنی اجرت پانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ویب پبلشر نے کم ازکم سو ڈالر تک کا کام کیا ہے، اگر نوے ڈالر کا کام کیا ہو گا تو گوگل اسے اس وقت تک پیسے نہیں دے گا، جب تک اس کے سو ڈالر مکمل نہیں ہو جاتے، تو کیا یہ شرط عقد کے منافی نہیں ہے؟ اور کیا اس قسم کی شرط کے ساتھ کیا جانے والا عقد درست ہے؟

جواب

آپ نے  لکھا کہ گوگل اور  ویب  پبلشر کے درمیان جو معاملہ ہےاس میں اجرت مجہول ہوتی ہے، اس کے لیے عرض یہ ہے کہ یہ اجرت مجہول نہیں ہے؛ کیوں کہ اس معاملہ میں ہر کلک کے  لیے ایک متعین رقم طے کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے جہالت جاتی رہی اور  تنازع کا امکان باقی نہ رہا، لہذا جب اس معاملہ میں جہالت نہیں تو  اس حد تک معاملہ  درست ہوا،  اور  دلالی والی صورت اختیار کرنے  کی بھی حاجت نہیں۔

نیز آپ نے لکھا کہ اس معاملہ میں یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ اجرت جب سو (100)  ڈالر سے تجاوز کر جائے اس کے بعد گوگل اجرت ادا کرے گا تو اس کی مثال ایسے سمجھیں جیسے عام اداروں میں تنخواہ ماہانہ ادا کی جاتی ہے ورنہ اجرت کا استحقاق عمل کے فوراً بعد  ہوجاتا ہے، اس  لیے گوگل والوں کا ایسی شرط لگانا انتظامی سہولت کے  لیے ہے، اس  شرط کے ہوتے ہوئے بھی معاملہ درست ہوسکتاہے۔

تاہم یوٹیوب پر چینل بناکر کمانےکے بارے میں تفصیلی حکم درج ذیل ہے:

یوٹیوب پر چینل بناکر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے کی صورت میں اگر اس چینل کے فالوورز زیادہ ہوں تو یوٹیوب،  چینل ہولڈر کی اجازت سے اس میں اپنے مختلف کسٹمر کے اشتہار چلاتا ہے، اور اس کی ایڈورٹائزمنٹ اور مارکیٹنگ کرنے پر ویڈو اَپ لوڈ کرنے والے کو بھی پیسے دیتا ہے۔ اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر چینل پر ویڈیو اَپ لوڈ کرنے والا:

1۔ جان د ار کی تصویر والی ویڈیو اَپ لوڈ کرے، یا اس ویڈیو میں جان دار کی تصویر ہو۔

2۔ یا اس ویڈیو میں میوزک اور موسیقی ہو۔

3۔  یا اشتہار غیر شرعی ہو ۔

4۔ یا کسی بھی غیر شرعی شے کا اشتہار ہو۔

5۔  یا اس کے لیے کوئی غیر شرعی معاہدہ کرنا پڑتا ہو۔

تو اس کے ذریعے پیسے کمانا جائز نہیں ہے۔

عام طور پر اگر ویڈیو میں مذکورہ خرابیاں نہ پائی جاتی  ہوں تب بھی یوٹیوب کی طرف سے لگائے جانے والے اشتہارات  میں مذکورہ خرابیاں پائی جاتی ہیں، اور ہماری معلومات کے مطابق یوٹیوب کو اگر اَیڈ چلانے کی اجازت دی جائے تو  یو ٹیوب انتظامیہ ملکوں کے حساب سے مختلف ایڈ چلاتی ہے، مثلاً اگر پاکستان میں ایک ویڈیو پر  کوئی اشتہار چللایا جاتا ہو، تو اسی ویڈیو پر پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک  میں  اور قسم کا اشتہار چلایا جاتا ہے، جس میں بسا اوقات حرام اور ناجائز چیزوں کی تشہیر بھی شامل ہوتی ہے، نیز  اشتہاری ویڈیوز میں عمومًا جان دار کا عکس و موسیقی موجود ہوتی ہے ان تمام مفاسد کے پیشِ نظر یوٹیوب پر ویڈیو اَپ لوڈ کرکے پیسے کمانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں