بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یقین ہے کہ احتلام نہیں ہوا اور مذی دیکھے تو غسل کا حکم


سوال

ایک مرد خواب میں  کسی لڑکی کے ساتھ  بوس و کنار ہوتا ہے اور اسے یقینی طور پر یاد رہتا ہے کہ اسے احتلام نہیں ہوا ہے، لیکن جب نیند سے جاگتاہے تو  شرم گاہ پر تری دیکھتا ہے جو یقینی طور پرمذی ہوتی ہے کیوں کہ نہ تو اس سے منی کی طرح بدبو آتی ہے اور نہ منی کی طرح اس میں رطوبت ہوتی ہے تو کیا ایسی صورتِ حال میں غسل کرنا واجب ہوگا،  یا صرف احتیاطاً غسل کرے گا؟  نیز اگر احتیاطاً غسل کرنا ہو اور نہ کرے تو پھر نماز ہوگی یا نہیں؟

جواب

اگریقین ہے کہ احتلام نہیں ہوا اور  مذی کا ہونابھی یقینی طور پر معلوم ہے تو اس صورت میں غسل واجب نہیں، البتہ احتیاطاً غسل کرلینا چاہیے۔مذکورہ صورت میں بلاغسل نماز پڑھی تو ادا ہوجائے گی۔

المحیط البرہانی میں ہے :

"إذا استيقظ الرجل ووجد على فراشه بللاً وهو يذكر احتلاماً، إن تيقن أنه مني أو تيقن أنه مذي أو شك أنه مني أو مذي، فعليه الغسل، وليس في هذا إيجاب الغسل بالمذي بل فيه إيجاب الغسل بالمني؛ لأن سبب خروج المني قد وجد وهو الاحتلام، فالظاهر خروجه إلا أن طبع المني الرقة بإطالة المدة، فالظاهر أنه مني إلا أنه رق قبل أن يستيقط، وإن تيقن أنه ودي لا غسل عليه. وإن رأى بللاً إلا أنه لم يتذكر الاحتلام، فإن تيقن أنه (مذي) لايجب الغسل؛ لأن سبب خروج المني ههنا لم يوجد، فلايمكن أن يقال بأنه مني ثم رق لطول المدة، بل هو مذي حقيقة، والمذي لايوجب الغسل وإن شك أنه مني أو مذي، قال أبو يوسف رحمه الله: لايوجب الغسل حتى يتيقن بالاحتلام، وقالا: يجب الغسل، هكذا ذكر شيخ الإسلام رحمه الله. وإذا تذكر الاحتلام ولم ير بللاً فلا غسل عليه؛ لظاهر قوله عليه السلام: «من احتلم ولم ير بللاً فلا شيء عليه». قال القاضي الإمام أبو علي النسفي رحمه الله: ذكر هشام في «نوداره» عن محمد رحمه الله: إذا استيقظ الرجل فوجد البلل في إحليله ولم يذكر حلماً إن كان ذكره منتشراً قبل النوم، فلا غسل عليه، إلا إذا تيقن أنه مني، وإن كان ذكره ساكناً قبل النوم فعليه الغسل". (1/76)(فتاوی دارالعلوم دیوبند1/136)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں