بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

” یا علی مدد “ کہنے کا حکم


سوال

 کیا ’’یاعلی مدد‘‘  کہنا جائز ہے؟  کیا ’’یاعلی مدد‘‘  کہنے والا کافر ہوجاتا ہے؟

جواب

اللہ کے علاوہ کسی سے مدد مانگنے کی دو صورتیں ہیں :

[۱]: اس کے بارے میں  یہ عقیدہ رکھنا کہ اس میں ذاتی طور پر قدرت و طاقت ہے کہ وہ جو چاہے کر سکتا ہے، یہ شرک اور کفر ہے ،اسی طرح  کسی غیر خدا کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اس کو خدا نے تمام اختیار دے دیے  ہیں اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے ،ہر قسم کی مرادیں ہر جگہ سے اس سے مانگنی چاہییں، یہ بھی شرک ہے جو  ناجائز  اور حرام ہے۔مشکل کشا، حاجت روا اور متصرف فی الامور ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔

[۲]: کسی بھی غیرِ خدا سے ظاہری استعانت کرنا، یعنی جو عادتاً انسان کے بس میں ہوتا ہے، مثلاً: روپیہ، پیسہ ،کپڑا، وغیرہ دینا۔یہ چیزیں اگر کسی سے مانگی جائیں تو یہ درست ہے۔

لہذا   "یا علی مدد"  کہنا جائز نہیں ہے،  اس لیے کہ اگر اس سے مقصود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کر ان سے استغاثہ ہو  اور یہ اعتقاد ہو کہ ان کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہیں، جو چاہیں جس کی چاہیں مدد کرسکتے ہیں تو  یہ  کفر اور شرک ہے۔ اگر یہ اعتقاد نہ ہو  تب  یہ موہمِ شرک ضرور ہیں،  نیز اللہ تعالیٰ کو  اس کی صفتِ علی سے پکارنا مقصود ہو تو  بعینہ ان الفاظ  (یاعلی مدد) سے نہ پکارا جائے؛ اس لیے  کہ  "یاعلی مدد" ایک خاص نظریے اور عقیدے کی علامت بن گیا ہے، اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے۔

"إن الناس قد أکثروا من دعاء غیر الله تعالی من الأولیاء الأحیاء منهم والأموات وغیرهم مثل: یا سیدي فلان أغثني ولیس ذلک من التوسل المباح في شيء ․․․ وقد عده أناس من العلماء شرکًا"․ (روح المعاني: ۲/۱۲۸) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں