بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندؤوں کے میلے میں دکان لگانے کا حکم


سوال

ہندووں کے میلے میں دکان لگانا کیسا ہے ؟

جواب

ہندؤوں کا میلہ اگر مذہبی ہو تو  اس میں شرکت کرنا یا دکان لگانا درست نہیں ہے؛ اس لیے  کہ معصیت اور منکرات پر مشتمل مجالس میں شرکت کرنا شرعاً ممنوع ہے اور ایسی جگہوں پر کسی بھی وقت اللہ تعالیٰ کا عذاب آسکتا ہے، اور عذاب آنے کی صورت میں سب اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں، اسی طرح حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ جو شخص کسی  جماعت یا قوم میں شامل ہو کر ان کا مجمع بڑھائے تو اس کا شمار اسی قوم میں سے ہوگا، لہٰذا  ہندؤوں کے مذہبی میلے میں اگر کوئی شخص صرف دکان بھی لگائے تو اس سے بھی ان کی تعداد اور مجمع بڑھے گا ، اور دوکان لگانے والا حدیثِ مذکور کی وعید میں داخل ہوگا؛ اس لیے ہندؤوں کے مذہبی میلے میں دوکان لگانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

البتہ  اگر ہندؤوں کا میلہ مذہبی نہ ہو، بلکہ تجارتی  ہو تو اس میں جانے، دوکان لگانے اور خرید وفروخت کرنے میں مضائقہ نہیں، بشرطکیہ ناچ  گانے اور دیگر معاصی (گناہوں) وغیرہ سے دور رہے۔

قرآن کریم میں ہے:

﴿فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴾ [الأنعام: 68]

أحكام القرآن للجصاص ط العلمية (3/ 3):

"قَالَ تَعَالَى: ﴿فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ يَعْنِي: بَعْدَمَا تَذْكُرُ نَهْيَ اللَّهِ تَعَالَى لَا تَقْعُدْ مَعَ الظَّالِمِينَ. وَذَلِكَ عُمُومٌ فِي النَّهْيِ عَنْ مُجَالَسَةِ سَائِرِ الظَّالِمِينَ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ وَأَهْلِ الْمِلَّةِ لِوُقُوعِ الِاسْمِ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا، وَذَلِكَ إذَا كَانَ فِي ثِقَةٍ مِنْ تَغْيِيرِهِ بِيَدِهِ أَوْ بِلِسَانِهِ بَعْدَ قِيَامِ الْحُجَّةِ عَلَى الظَّالِمِينَ بِقُبْحِ مَا هُمْ عَلَيْهِ، فَغَيْرُ جَائِزٍ لِأَحَدٍ مُجَالَسَتُهُمْ مَعَ تَرْكِ النَّكِيرِ سَوَاءٌ كَانُوا مُظْهِرِينَ فِي تِلْكَ الْحَالِ لِلظُّلْمِ وَالْقَبَائِحِ أَوَغَيْرَ مُظْهِرِينَ لَهُ؛ لِأَنَّ النَّهْيَ عَامٌّ عَنْ مُجَالَسَةِ الظَّالِمِينَ؛ لِأَنَّ فِي مُجَالَسَتِهِمْ مُخْتَارًا مَعَ تَرْكِ النَّكِيرِ دَلَالَةً عَلَى الرِّضَا بِفِعْلِهِمْ وَنَظِيرُهُ قَوْله تَعَالَى: ﴿لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرائيلَ﴾ [المائدة:78] الْآيَاتُ، وَقَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرُ مَا رُوِيَ فِيهِ، وقَوْله تَعَالَى: ﴿وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ﴾ [هود:113] ".

صحيح البخاري (3/ 65)

"حدثنا محمد بن الصباح، حدثنا إسماعيل بن زكرياء، عن محمد بن سوقة، عن نافع بن جبير بن مطعم، قال: حدثتني عائشة [ص:66] رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يغزو جيش الكعبة، فإذا كانوا ببيداء من الأرض، يخسف بأولهم وآخرهم» قالت: قلت: يا رسول الله، كيف يخسف بأولهم وآخرهم، وفيهم أسواقهم، ومن ليس منهم؟ قال: «يخسف بأولهم وآخرهم، ثم يبعثون على نياتهم»".

و في حاشیته:

 "(بيداء) الصحراء التي لا شيء فيها. (يخسف) تغور بهم الأرض. (أسواقهم) أهل أسواقهم الذين يبيعون ويشترون ولم يقصدوا الغزو. (يبعثون) يوم القيامة. (على نياتهم) يحاسب كل منهم بحسب قصده".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (11/ 236):

" قوله: (وفيهم أسواقهم) ، جملة حالية، وهو جمع: سوق، والتقدير أهل أسواقهم الذين يبيعون ويشترون كما في المدن ... ومما يستفاد منه: أن من كثر سواد قوم في معصية وفتنة أن العقوبة تلزمه معهم إذا لم يكونوا مغلوبين على ذلك ... ومن ذلك وجوب التحذير من مصاحبة أهل الظلم ومجالستهم وتكثير سوادهم إلا لمن اضطر. فإن قلت: ما تقول في مصاحبة التاجر لأهل الفتنة؟ هل هي إعانة لهم على ظلمهم أو هي من ضرورات البشرية؟ قلت: ظاهر الحديث يدل على الثاني. والله أعلم. فإن قلت: ما ذنب من أكره على الخروج أو من جمعه وإياهم الطريق؟ قلت: إن عائشة لما سألت وأم سلمة أيضاً سألت، (قالت: فقلت: يا رسول الله! فكيف بمن كان كارهاً؟ رواه مسلم) أجاب صلى الله عليه وسلم بقوله: "يبعثون على نياتهم بها، فماتوا حين حضرت آجالهم، ويبعثون على نياتهم".

امداد الاحکام (ج:۴/ ۳۸۵ ) میں ہے:

"الجواب:ہندؤوں کا میلہ اگر مذہبی ہوتو اس میں شرکت جائز نہیں اور نہ مسلمانوں کو ان کے ایسے میلے میں اپنی دوکان لے جانی چاہیے۔ باقی سودا خرید نے میں دونوں قول ہیں۔ بعض فقہاء نے اس کو بھی منع کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اگر معمول کے مطابق ضروریات خریدی جائیں اور اس میلہ کی وجہ سے خاص کوئی چیز نہ خریدی جائے تو جائز ہے، مگر احتیاط اسی میں ہے کہ ان کے مذہبی میلہ میں سے کچھ بھی نہ خریدے ؛ کیوں کہ خریداروں سے بھی میلہ کی رونق بڑھتی ہے اور کفّار کے مذہبی میلہ کی رونق کو بڑھانا مناسب نہیں۔ ہاں اگر تجارتی میلہ ہو جیسے بعض جگہ جانوروں کی تجارت کے لیے میلہ لگتا ہے۔ اس میں جانے اور خرید وفروخت کرنے میں مضائقہ نہیں بشرطکیہ ناچ رنگ وغیرہ سے دور رہے۔ واللہ اعلم "

امداد الفتاویٰ (ج:۴ /۲۶۹ ) میں ہے:

" اگر کوئی چیز سوائے اس میلہ کے کہیں نہ بکتی ہو، اس کی خرید و فروخت کے واسطے جانا بضرورت جائز ہے، اور بلا ضرورت جانا بہتر نہیں  کہ ایسے مجمعوں میں شان مغضوبیت کی ہوتی ہے، ان میں شریک ہونا غضبِ الٰہی کا حصہ لینا ہے، اگرچہ اس مجمع والوں کے برابر گناہ نہ ہو مگر خالی نہ رہے گا۔" فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200377

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں