بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہرن اور مارخور کی قربانی کرنا


سوال

ہرن اور مارخور کی قربانی ہوسکتی ہے کیا؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی کے جانور شرعی طور پر متعین ہیں،  جن میں اونٹ ،گائے، دنبہ ، بھیڑ ، بکرا، مینڈھا (مذکر ومؤنث )شامل ہیں،بھینس گائےکی جنس میں سے ہے، لہذا اس کی قربانی بھی جائز ہے، اسی طرح آسٹریلین گائے بھی چوں کہ گائے ہے اس کی قربانی بھی درست ہے۔ ان کے علاوہ کسی اور  جانور کی قربانی درست نہیں ہوتی، لہذا صورتِ مسئولہ میں ہرن یا مارخور کی قربانی باوجود حلال جانور ہونے کے جائز نہیں۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشِّلْبِيِّ  میں ہے:

قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: (وَالْأُضْحِيَّةُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ)؛ لِأَنَّ جَوَازَ التَّضْحِيَةِ بِهَذِهِ الْأَشْيَاءِ عُرِفَ شَرْعًا بِالنَّصِّ عَلَى خِلَافِ الْقِيَاسِ فَيَقْتَصِرُ عَلَيْهَا، وَيَجُوزُ بِالْجَامُوسِ؛ لِأَنَّهُ نَوْعٌ مِنْ الْبَقَرِ بِخِلَافِ بَقَرِ الْوَحْشِ حَيْثُ لَا يَجُوزُ التَّضْحِيَةُ بِهِ؛ لِأَنَّ جَوَازَهَا عُرِفَ بِالشَّرْعِ فِي الْبَقَرِ الْأَهْلِيِّ دُونَ الْوَحْشِيِّ، وَالْقِيَاسُ مُمْتَنِعٌ، وَفِي الْمُتَوَلِّدِ مِنْهُمَا تُعْتَبَرُ الْأُمُّ، وَكَذَا فِي حَقِّ الْحِلِّ تُعْتَبَرُ الْأُمُّ. ( كتاب الأضحية، مما تكون الأضحية، ۶ / ۷، ط: المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وَلَا يَجُوزُ فِي الْأَضَاحِيّ شَيْءٌ مِنْ الْوَحْشِيِّ، فَإِنْ كَانَ مُتَوَلَّدًا مِنْ الْوَحْشِيِّ وَالْإِنْسِيِّ فَالْعِبْرَةُ لِلْأُمِّ، فَإِنْ كَانَتْ أَهْلِيَّةً تَجُوزُ وَإِلَّا فَلَا، حَتَّى لَوْ كَانَتْ الْبَقَرَةُ وَحْشِيَّةً وَالثَّوْرُ أَهْلِيًّا لَمْ تَجُزْ، وَقِيلَ: إذَا نَزَا ظَبْيٌ عَلَى شَاةٍ أَهْلِيَّةٍ، فَإِنْ وَلَدَتْ شَاةً تَجُوزُ التَّضْحِيَةُ، وَإِنْ وَلَدَتْ ظَبْيًا لَا تَجُوزُ، وَقِيلَ: إنْ وَلَدَتْ الرَّمَكَةُ مِنْ حِمَارٍ وَحْشِيٍّ حِمَارًا لَايُؤْكَلُ، وَإِنْ وَلَدَتْ فَرَسًا فَحُكْمُهُ حُكْمُ الْفَرَسِ، وَإِنْ ضَحَّى بِظَبْيَةٍ وَحْشِيَّةٍ أُنِسَتْ أَوْ بِبَقَرَةٍ وَحْشِيَّةٍ أُنِسَتْ لَمْ تَجُزْ. ( كتاب الأضحية، الْبَابُ الْخَامِسُ فِي بَيَانِ مَحَلِّ إقَامَةِ الْوَاجِبِ، ۵ / ۲۹۷، ط: دار الفكر)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

ہرن کی قربانی:

(سوال ۸۳)ایک شخص نے قربانی کی نیت سے ایک ہرنی خریدی ہے اور وہ ہرنی اس سے بہت مانوس ہے وہ اس کی قربانی کرنا چاہتا ہے تو قربانی کرسکتا ہے یا نہیں ؟ وہ شخص کہتا ہے کہ جب ہرن کا گوشت کھانا حلال ہے تو قربانی بھی صحیح ہونا چاہئے ، آپ وضاحت فرمائیں ، بینوا توجروا۔

(الجواب)ہرنی وحشی جانوروں میں سے ہے،اور وحشی جانور کی قربانی جائز نہیں ، فتاوی ٰ عالمگیری میں ہے:

ولایجوز في الأضاحي شيء من الوحش".

وحشی جانوروں میں سے کسی جانور کی قربانی جائز نہیں ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری ص ۱۹۹ج۶، کتاب الا ضحیہ ببا ۵)

یہ ضروری نہیں ہے کہ جس جانور کا کھانا حلال ہو اس کی قربانی بھی جائز ہو، دیکھیے ، ایک برس سے کم عمر کا بکرا، دوبرس سے چھوٹا بچھڑا، پانچ برس سے کم کا اونٹ کھانا حلال ہے، لیکن ان جانوروں کی قربانی جائز نہیں، قربانی جائز ہونے کے لیے شرعی دلیل ضروری ہے ، صرف عقلی دلیل کافی نہیں ۔ لہذا صورتِ مسئولہ میں ہرنی چاہے مانوس ہوگئی ہو تب بھی اس کی قربانی جائز نہیں، فتاویٰ عالمگیری میں ہے :

"وإن ضحی بظبیة وحشیة أنست وببقرة وحشیة أنست لم تجز".

ترجمہ:۔ اگر کسی شخص نے جنگلی (وحشی ) ہرن کی یا جنگلی گائے کی جو مانوس ہوگئی ہے اس کی قربانی کی تو یہ جائز نہیں. (فتاویٰ عالمگیری ص ۱۹۹ ج۶باب مایجوز فیہ الشرکۃ ، کتاب الا ضحیہ ب ۵) فقط وﷲ اعلم بالصواب۔ (فتاوی رحیمیہ، کتاب الاضحیہ، ۱۰ / ۵۷)۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم


فتوی نمبر : 144112200613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں