بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

کیا ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت ہے؟ کیا ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

کتبِ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں ہاتھ چھوڑنے کا ثبوت کسی بھی صحیح یا ضعیف روایت میں نہیں ملتا، البتہ بعض صحابہ کرام اور تابعین سے ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا منقول ہے، صحابہ میں سے عبداللہ بن زبیر، اسعد بن سہل بن حنیف، رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین اور ان کے بعد کے فقہاء میں سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی، حسن بصری، ابن سیرین، عطاء اور ابن جریج رحمہم اللہ سے یہ بات امام عبدالرزاق نے اپنی "مصنف" میں، ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اپنی "مصنف" میں، امام ابن منذر نے "الاوسط"  میں امام ابوزرعہ دمشقی نے اپنی تاریخ میں نقل فرمایا ہے، البتہ ہمارے ہاں یہ عمل معمول بہ نہیں ہے، بلکہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل راجح ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ کا معمول اس کے خلاف ہے؛ لہذا اس پر کسی حنفی کے لیے عمل درست نہیں ہے۔

ہاتھ چھوڑنے کے بارے میں روایات درج ذیل ہیں :

1- "حدثنا عفان قال: حدثنا یزید بن إبراهیم قال: سمعت عمرو بن دینار قال: کان ابن زبیر إذا صلی یرسل یدیه." (مصنف ابن أبي شیبة، باب من کان یرسل یدیه في الصلاۃ: ۳/۳۲۵، رقم: ۳۹۷۱، ط: إدارۃ القرآن)

اس روایت میں باقی رواۃ ثقہ ہیں، البتہ یزید بن ابراہیم کے بارے میں ہے کہ جو حدیث وہ قتادۃ سے نقل کریں اس میں کمزوری ہوتی ہے۔ (تقریب التہذیب :۴۲۴، رقم الترجمہ :۴۶۲۵،ط: رشیدیہ)

2- "وحدثني عبد الرحمن بن إبراهيم عن عبد الله بن يحيى المعافري عن حيوة عن بكر بن عمرو: أنه لم ير أبا أمامة -يعني ابن سهل- واضعاً إحدى يديه على الأخرى قط، ولا أحداً من أهل المدينة، حتى قدم الشام، فرأى الأوزاعي، وناساً يضعونه." (تاریخ أبي زرعة الدمشقي: ۶۲۲، ط: مجمع اللغة العربیة، دمشق)

اس سند میں عبداللہ بن یحیی المعافری کے بارے میں ہے کہ ان سے روایت لینے میں حرج نہیں۔ (تقریب التہذیب :۲۲۱،رقم :۱۶۰۰،ط: رشیدیہ) باقی رواۃ ثقہ ہیں۔

اس کے علاوہ بھی کچھ روایتیں ہیں، لیکن جیساکہ سابقہ سطور میں گزرا ہے کہ حنفیہ کے ہاں یہ سب روایات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح عمل کی وجہ سے قابل تقلید نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200189

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں