بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیس کھینچے کے لیے ہیٹ گن کا استعمال


سوال

آج کل ہمارے علاقے میں 24 گھنٹے کے دوران بمشکل 2 گھنٹے گیس آتی ہے۔ اور وہ 2 گھنٹے بھی ایسے نہیں کہ جن میں کھانا مکمل پک سکے (یعنی گیس کا پریشر بہت کم ہوتا ہے)۔ اور ہر شخص اس قابل نہیں کہ وہ سلنڈر کا استعمال بھی کر سکے، آج کل سلنڈر گیس 150 روپے کلو ہے، ماہانہ 2 سے 3 ہزار کا خرچہ ہے۔ اس صورت میں کچھ لوگ ہیٹ گن کا استعمال کرتے ہیں۔ ہیٹ گن ایک کمپریسر کی طرح گیس کھینچ کر اس کا پریشر بڑھا دیتی ہے۔ کچھ تو اس کا استعمال فقط کھانا پکانے کی حد تک کرتے ہیں اور کچھ اس کو عام استعمال کرتے ہیں یعنی ہیٹر، گیزر وغیرہ سب اسی پر سارا دن چلتے ہیں۔ حال آں کہ حکومت کی طرف سے بھی اس پر پابندی ہے۔

آیا کہ یہ کسی صورت میں "الضرورات تبیح المحظورات" کے تحت جائز ہو سکتی ہے؟ اگر جائز ہو گی تو اس کی دلیل اور جواز کی حد کیا ہو گی؟ یا یہ کسی صورت جائز نہیں ہے؟

اگر جواز کی کوئی صورت نہیں ہے تو اس کا استعمال کرنے والے حرام کے مرتکب ہیں یا حرام سے نچلے درجے پر گناہ گار ہیں؟

جواب

گیس کی قلت کی صورت میں  زیادہ گیس کھینچنے کے لیے گھرمیں ’’ہیٹ گن‘‘  لگانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ اسے مذکورہ قاعدہ (الضرورات تبیح المحظورات) کے  تحت داخل کرکے جواز مہیا نہیں کیاجاسکتا۔
اولاً: تو اس لیے کہ اس سے دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے،ظاہر ہے کہ جب گیس کا پریشر کم ہوگااور ہیٹ گن کے ذریعہ گیس کھینچ لی جائے تو  آس پاس کے لوگوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوگی اور وہ اس معمولی گیس سے بھی محروم ہوجائیں گے،اور جو چیز عام لوگوں کی تکلیف کا ذریعہ بنے اس کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہوتا ہے۔
ثانیاً: گیس کھینچنے کے لیے ہیٹ گن کا استعمال کمپریسر  کی مانندخطرے کا باعث بھی بن سکتاہے،  نیز  یہ کہ گیس کا استعمال ہیٹ گن کے ذریعہ  قانوناً بھی جرم ہے،جیساکہ سوال میں آپ نے ذکر بھی کیاہے، اس لیے  گیس کھینچنے کے لیے ہیٹ گن کا استعمال کرنادرست نہیں ہے۔

بلکہ ایسے علاقوں میں جن اوقات میں گیس معمول کے مطابق ہو اُن اوقات میں اپنی ضروریات پوری کرلی جائیں اور یا جس قدر گیس مہیا ہواسی پر اکتفا کرلیاجائے، اس صورت میں وقت کاخرچ اور مشقت ضرور ہوگی،  تاہم دوسروں کو ان کے حق سے محروم کرنے اور قانون شکنی جیسے گناہ سے آدمی محفوظ رہے گا۔

گناہ کی شدت تو متعین نہیں کی جاسکتی، تاہم مسلمانوں، بلکہ انسانوں کو تکلیف دینا ناجائز اور حرام ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أبي صرمة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من ضار أضر الله به، ومن شاق شق الله عليه»". (2/ 785،  کتاب الاحکام، باب من بنى في حقه ما يضر بجاره، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فیض القدیرمیں ہے:

"(لا ضرر) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئاً من حقه (ولا ضرار) فعال بكسر أوله أي لايجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو، فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقاً والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة، أي كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل، وقال الحرالي: الضر بالفتح والضم ما يؤلم الظاهر من الجسم وما يتصل بمحسوسه في مقابلة الأذى وهو إيلام النفس وما يتصل بأحوالها وتشعر الضمة في الضر بأنه عن قهر وعلو والفتحة بأنه ما يكون من مماثل أو نحوه اه. وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النكرة في سياق النفي تعم وفيه حذف أصله لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا أي لايجوز شرعاً إلا لموجب خاص". (فيض القدير  للمناوی (6/ 431) حرف "لا"،  برقم: 13474، ط: المكتبة التجارية الكبرى – مصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله)؛ لحديث: «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره".

 وفي الرد:

"والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال.

(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى". (6/ 398، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں