بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھروں میں جا کرقرآن پڑھانا کیسا ہے؟


سوال

گھروں میں جا کرقرآن پڑھانا کیسا ہے؟

جواب

پہلے تو یہ  کوشش کرنی چاہیے  کہ  بچوں کے گھر جاکر قرآن پڑھانے کے بجائے بچوں کو اپنے گھر یا مدرسہ بلاکر وہاں ان کو قرآن پڑھایا جائے، تاکہ بچوں کے دل میں قرآنِ کریم کی تعلیم  اور اس کے پڑھانے والے استاذ  کی عظمت باقی رہے، چوں کہ عام طور سے گھر گھر جاکر قرآن کی ٹیوشن پڑھانے سے لوگوں کے دلوں میں قرآن کے معلم اور قرآنی تعلیم کی عظمت باقی نہیں رہتی؛ اس لیے علمائے کرام نے گھر گھر جاکر قرآن کریم کی ٹیوشن پڑھانے کو پسندیدہ قرار نہیں دیا ہے، لیکن  اگر کسی عذر کی وجہ سے کوئی شخص گھر جاکر قرآن کریم پڑھاتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ چند باتوں کی رعایت رکھے:

(۱) گھر جاکر قرآن پڑھانے کے دوران اپنا دینی تشخص اور دینی وقار برقرار رکھے اور استغنا کا مظاہرہ کرے۔ کوئی ایسا طرزِ عمل نہ اپنائے جس کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے قرآن پڑھانے والوں کی عظمت و اہمیت ختم ہوجائے، مثلاً ایسا نہ ہو کہ اسے صرف اپنی فیس لینے سے مطلب ہو اور بچے جب چاہیں چھٹی کرلیں،  اور جتنا چاہیں اسے بٹھا کر انتظار کرواتے رہیں، اور خود کھیل کود میں مصروف ہوں، لیکن قاری صاحب کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ اسی طرح مقررہ مشاہرے کے علاوہ گھر والوں سے صراحتاً یا اشارۃً  سوال نہ کرے۔

(۲)کسی بالغہ یا قریب البلوغ لڑکی کو نہ پڑھائے۔

(۳)لوگوں کے گھر آتے جاتے پردہ کا بہت زیادہ خیال رکھے  اور نگاہوں کی خوب حفاظت کرے کہ کسی اجنبی عورت پر نگاہ نہ پڑ جائے، اور گھر والوں کو بھی تلقین کرے کہ وہ اس کے آنے جانے کے اوقات میں پردہ کا خیال رکھا کریں۔فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144012200553

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں