بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں گھس کرآنے والے چورکو قتل کرنے کا حکم


سوال

  کیا گھر میں گھسے چور کو قتل کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ از روئے شرع چوری ثابت ہونے کی صورت میں چور کی سزا اس کا دایاں ہاتھ کاٹنا ہے، اور اس سزا کے جاری کرنے کا اختیار صرف مسلمان حکمران یا اس کے نائب جج وغیرہ کے پاس ہوتا ہے، ہر ایک کو یہ حد جاری کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ 
بصورتِ مسئولہ اگر کوئی چور کسی کے گھر گھس کر گھر والوں سے ان کا مملوکہ مال چوری  کرنے کی کو شش کرے تو شریعت صاحبِ مال کو اس کی اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے مال کی امکانی حد تک حفاظت کرنے کی بھر پور کوشش کرے، اسے چور پر دست درازی کی رخصت بھی حاصل ہے، حتی کہ اگر اس سلسلے میں قتل و قتال کی نوبت آجائے اور صاحبِ مال قتل ہوجائے تو وہ شہید ہے اور اگر چور  مارا جائے تو مارنے والے پر نہ قصاص لازم ہے اور نہ دیت ہے، بشرطیکہ اس انتہائی اقدام کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو، لہذا اگر چیخ و پکار یا معمولی مارپیٹ سے ڈاکو کا شر دور ہوجانے کا غالب گمان ہو تو پھر قتل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، ورنہ مارنے والے پر قصاص لازم ہوگا۔

نیز یہ حکم بھی عین موقعۂ واردات  کے ساتھ خاص ہے، یعنی اگر چور اس وقت نہیں پکڑا گیا اور بعد میں کہی اور وہی چور نظر آجائے، تو اس سے مسروقہ مال واپس لینا، اسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالہ کرنا تو جائز ہے، مگر اسے قتل کرنا ناجائز ہے، بصورتِ دیگر مقتول کے اولیاء کو دیت دینی لازم ہوگی، اسی طرح اگر عین موقع پر بھی چور کسی رد عمل کی بنا پر فرار ہونے لگے یافرار ہوجائے تو اس صورت میں بھی قتل کرنا ناجائز ہے۔ 

قرآن مجید میں ہے:

{والسارق والسارقة فاقطعوا ایدیهما}[مائدہ:۳۸]
ترجمہ:…”چوری کرنے والے مرد اورچوری کرنے والی عورت کے ہاتھ کاٹ دیا کرو“۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"فصل وأما شرائط جوازاقامتها فمنها ما يعم الحدود كلها ومنها ما يخص البعض دون البعضأما الذى يعم الحدود كلها فهو الامامة وهو أن يكون المقيم للحدوهوالامام أو من ولاه الامام".
(ج:9، ص:165، ط:مکتبه حبیبه)

فتاوی شامی میں ہے:

" ومن دخل علیه غیرہ لیلاً فاخرج السرقة من بیته (فاتبعه) رب البیت (فقتله فلاشئ علیہ) لقوله علیه السلام: قاتل دون مالك، وکذا لوقتله قبل أخذ ماله ولم یتمکن من دفعه إلا بالقتل إذا لم یعلم أنه لو صاح علیه طرح ماله، و إن علم ذلك فقتله مع ذلك وجب علیه القصاص لقتله بغیر حق، کالمغصوبة منه إذا قتل الغاصب فانه یجب القود لقدرته علی دفعه بالاستغاثة بالمسلمین والقاضی“.

قال الشامي: ”انظر ما إذا لم یقدروا المسلمون والقاضی کما هو مشاہد في زماننا، والظاهر أنه یجوز له قتله؛ لعموم الحدیث“.

( کتاب الجنایات، فصل فیما یوجب القود و مالایوجب، ج:6، ص:546، ط: ایچ ایم سعید)

 فتاوی ہندیہ میں ہے:
”وأما أنه لو صاح به یترك ما أخذہ ویذهب فلم یفعل هکذا، ولکن قتله کان علیه القصاص“.

( کتاب الجنایات، الباب الثاني، ج: 6، ص:7، ط: مکتبه رشیدیه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

”فإن فرّ منهم إلی موضع ترکوہ لایقدر علی قطع الطریق علیهم فقتلوہ کان علیهم الدیة، لأنهم قتلوہ لا لأجل ما لهم، ولو فرّ رجل من القطاع فلحقوہ وقد ألقى نفسه إلى مکان لایقدر معه علی قطع الطریق فقتلوہ کان علیهم الدیة، لأن قتلهم إیاہ لا لأجل الخوف علی المال۔ “

(کتاب السرقة، الباب الرابع، ج:2، ص:188، ط:مكتبة رشيدية)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144112201066

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں