بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کے کام کاج (کھانا پکانا اور صفائی وغیرہ) بیوی کے ذمہ ہے یا نہیں؟


سوال

کیا شوہر کے ذمہ کمانا اور گھر کے سارے کام کاج جیسا کہ کھانا پکانا اور صفائی وغیرہ ہے، اور عورت چوں کہ بچے پیدا کرتی ہے اور شوہر اس کے جسم سے فائدہ اٹھا تا ہے تو وہ ان گھریلو ذمےداریوں سے آزاد ہے۔ کچھ واضح طور پر بتادیجیے!

جواب

واضح رہے کہ ازدواجی زندگی پرسکون اور خوش گوار  ہونے کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں، نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں۔ دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا ، ارشادِ نبوی ہے:  (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔

لہذا بیوی کا اخلاقی فریضہ ہے اور اس پر دیانۃً واجب ہے کہ وہ  شوہر کے لیے کھانا پکائے اور اس  کے کپڑے دھوئے، جس طرح  بیوی کا علاج معالجہ کرنا مرد پر قضاءً واجب نہیں، عدالت اس سلسلے میں اس پر جبر نہیں کرسکتی، لیکن زندگی کی گاڑی سکون اور خوش حالی کے ساتھ تب ہی آگے بڑھے گی جب شوہر قضائی فرائض کے علاوہ اخلاقی فرائض کو بھی انجام دے، بالکل اسی طرح عورت کو بھی ازدواجی زندگی پرامن اور پرسکون بنانے کے لیے اخلاقی فرائض کا اہتمام کرنا ہوگا, خلاصہ یہ ہے کہ گھر کے کام کاج (کھانا پکانا اور صفائی وغیرہ) دیانۃً اور اخلاقاً بیوی کے ذمہ ہے ، اس لیے بیوی کو بغیر کسی عذر کے گھر کے کاموں سے یہ کہہ کر انکار نہیں کرنا چاہیے کہ یہ کام کاج میرے ذمہ نہیں ہیں، اسی طرح شوہر کو بھی چاہیے کہ اگر استطاعت ہو تو گھر کے کاموں میں مدد کرنے کے لیے کسی خادمہ یا نوکرانی وغیرہ کا انتظام کردے یا حتی الامکان خود بھی گھر کے کاموں میں بیوی کا ہاتھ بٹائے، بیوی پر نوکرانی کی طرح اتنا بوجھ بھی نہ ڈالے کہ اسے عبادت،  بچوں کی پرورش اور تربیت وغیرہ کے لیے یا اپنے ذاتی کاموں کے لیے بھی وقت نہ مل سکے، جناب رسول اللہ ﷺ خود بنفس نفیس اپنے  گھر کے کام سر انجام دے دیتے تھے۔

الفتاوى الهندية - (11 / 378):

"وإن قالت : لاأطبخ ، ولاأخبز قال في الكتاب : لاتجبر على الطبخ والخبز، وعلى الزوج أن يأتيها بطعام مهيإ أو يأتيها بمن يكفيها عمل الطبخ والخبز، قال الفقيه أبو الليث -رحمه الله تعالى- إن امتنعت المرأة عن الطبخ والخبز إنما يجب على الزوج أن يأتيها بطعام مهيأ إذا كانت من بنات الأشراف لا تخدم بنفسها في أهلها ، وإن لم تكن من بنات الأشراف لكن بها علة تمنعها من الطبخ والخبز أما إذا لم تكن كذلك فلايجب على الزوج أن يأتيها بطعام مهيأ كذا في الظهيرية قالوا : إن هذه الأعمال واجبة عليها ديانة ، وإن كان لا يجبرها القاضي، كذا في البحر الرائق". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں