بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں کام کرنے والی عورت کو زکاۃ دینا


سوال

 ہمارے گھر  میں ایک  خاتون  کام کرتی ہے، وہ کچھ اور گھروں کے کام بھی کرتی ہے، ایک اندازے کے مطابق آٹھ یا دس ہزار  کماتی ہے، اس کام کرنے والی عورت کے مطابق اس کا خاوند مزدوری کرتا ہے اور اس کے 3 بچے ہیں، ان کے گھر میں ایک بھینس بھی ہے جس کا دودھ وہ بیچتے ہیں،  ایک دفعہ اس سے زکاۃ کا ذکر ہوا تو اس نے کہا کہ میں بھی  زکاۃ لیتی ہوں،کیا ا س کو زکاۃ  دی جا سکتی ہے؟

جواب

 اگر مذکورہ خاتون ضروت مند ہے  اور اس کو جو تنخواہ ملتی ہے وہ بھی گھر کے اخراجات میں خرچ ہوجاتی ہے  اوراس کے علاوہ  اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر  رقم نہیں ہے  اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید یا ہاشمی ہے  تو اسے زکاۃ دی جاسکتی ہے، ان کے پاس جو بھینس ہے چوں کہ اس کا دودھ فروخت کرکے وہ  گھر کے اخراجات چلاتے ہیں تو یہ بھینس بھی ان کی ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہوگی اور یہ زکاۃ لینے سے مانع نہیں ہوگی۔

'' وذكر في الفتاوى فيمن له حوانيت ودور للغلة لكن غلتها لا تكفيه وعياله أنه فقير، ويحل له أخذ الصدقة عند محمد، وعند أبي يوسف لا يحل، وكذا لو له كرم لا تكفيه غلته، ولو عنده طعام للقوت يساوي مائتي درهم، فإن كان كفاية شهر يحل، أو كفاية سنة، قيل: لا تحل، وقيل: يحل؛ لأنه يستحق الصرف إلى الكفاية، فيلحق بالعدم، وقد ادخر عليه الصلاة والسلام لنسائه قوت سنة، ولو له كسوة الشتاء وهو لا يحتاج إليها في الصيف يحل، ذكر هذه الجملة في الفتاوى. اهـ.وظاهر تعليله للقول الثاني في مسألة الطعام اعتماده.وفي التتارخانية عن التهذيب: أنه الصحيح، وفيها عن الصغرى: له دار يسكنها لكن تزيد على حاجته بأن لا يسكن الكل يحل له أخذ الصدقة في الصحيح، وفيها: سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولا تكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفاً، وعليه الفتوی''۔  (فتاوی شامی 2/ 348،  کتاب الزکاۃ، ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200605

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں