بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گستاخ رسول ﷺ کا حکم


سوال

 گستاخِ رسول ﷺ کا کیا حکم ہے؟

جواب

پاکستان  کے قانون کے آرٹیکل 295 C  کے تحت گستاخِ رسول ﷺ کی سزا بطورِ حد قتل ہے۔اور اس جرم کے پائے جانے اور اقرار یا شرعی گواہوں کی گواہی سے یہ  ثابت ہو جانے کی صورت میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس سزا کا اطلاق کرے۔فقہاءِ کرام نے لکھا ہے کہ گستاخِ رسول کی سزا بطورِ حد ہے، لہٰذا توبہ کرنے سے بھی یہ سزا اس سے معاف نہیں ہوگی۔

تاہم یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اس طرح کی سزاوٴں کا اجرا حکومت کا کام ہے، ہرکس و ناکس اس طرح کی سزا جاری کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

قال في الشامية:

"لو لم یر السنة حقاً کفر؛ لأنه استخفاف. و وجهه: أن السنة أحد الأحکام الشرعیة المتفق علی مشروعیتها عند علماء الدین، فإذا أنکر ذلک ولم یرها شیئاً ثابتاً ومعتبرًا في الدین یکون قد استخف بها واستهانها وذلک کفر". (ج۱ ص۳۵۰)

وقال في سابّ الأنبیاء:

"والکافر یسب نبياً من الأنبیاء فإنه یقتل حداًّ، ولاتقبل توبته مطلقاً". (ج6 ص370)

"وحاصله: أنه نقل الإجماع علی کفرالساب، ثم نقل عن مالک ومن ذکره بعده أنه لاتقبل توبته، فعلم أن المراد من نقل الإجماع علی قتله قبل التوبة․ ثم قال:وبمثله قال أبو حنیفة وأصحابه ... فهذا صریح کلام القاضي عیاض في الشفاء والسبکي وابن تیمیة وأئمة مذهبه علی أن مذهب الحنفیة قبول التوبة بلاحکایة قول آخر عنهم، وإنما حکوالخلاف في بقیة المذاهب وکفی بهولآء حجة لولم یوجد النقل کذلک في کتب مذهبنا"․ (شامی:۶/۳۷۱،۳۷۲)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں