بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گردن پر مسح کی شرعی حیثیت


سوال

چاروں ائمہ میں سے کون سے امام گردن پرمسح کے قائل ہیں،حدیث کے حوالے کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔

جواب

احناف کے نزدیک گردن کامسح مستحب ہے،اوریہ احادیث وآثارصحابہ سے ثابت ہے۔چنانچہ صحیح بخاری ومسلم اورسنن ترمذی میں یہ روایت موجودہے :

عمرو بن یحیٰی مازنی، یحیی مازنی سے روایت کرتے ہے کہ ایک شخص نے جو عمر وبن یحیی کے دادا ہیں، عبداللہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ یہ کر سکتے ہیں کہ مجھے یہ دکھلا ویں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کس طرح کرتے تھے؟ عبداللہ بن زید نے کہا ہاں، میں دکھا سکتا ہوں، پھر انہوں نے پانی منگوایا اور اپنے ہاتھ پر ڈالا، ہاتھ دو مرتبہ دھوئے، پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر اپنے منہ کو تیں مرتبہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو مرتبہ دھوئے، پھر اپنے سر کا اپنے دونوں ہاتھوں سے مسح کیا یعنی ان کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے، سر کے پہلے حصے سے ابتدا کی اور دونوں ہاتھ گدی تک لے گئے، پھر ان دونوں کو وہیں تک واپس لائے، جہاں سے شروع کیا تھا، پھر اپنے دونوں پیر دھوئے۔(بخاری ،باب بیان الوضوء)

''رقبۃ''(گردن)کااطلاق گردن کے پچھلے حصے یعنی گدی پرہوتاہے جس کاتذکرہ اس حدیث میں موجودہے۔

نیز''اعلاء السنن ''میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے صریح حدیث منقول ہے جس میں ''عنقہ''کے الفاظ موجودہیں۔(اعلاء السنن 1/120ادارۃ القران)

البتہ گلے کامسح سنت سے ثابت نہیں اس لیے درست بھی نہیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143710200034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں