بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گزشتہ سالوں کی زکاۃ


سوال

میں 28 سال کا ہوں اور بلوغت کے بعد سے میں نے زکاۃ نہیں دی ہے۔ کافی سال گزر گئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ گزشتہ سالوں میں میری ملکیت میں کتنا مال تھا اور مجھے نہیں معلوم کہ مجھے کتنے پیسوں پر زکاۃ دینی تھی۔  مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ مجھ پر زکاۃ کب سے واجب ہے۔ میری بیوی کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔

تاہم مجھے یہ یاد ہے کہ جولائی  2017  میں میرے  پاس 60 گرام سونا اور چاندی کے تھے۔ میں تمام گزشتہ سالوں کی زکاۃ کیسے نکالوں؟

آئندہ کی زکاۃ کیسے ادا کروں؟

جواب

گزشتہ سالوں کی رقم یا نصاب کی مالیت کی مقدار معلوم نہیں تو اندازا  لگا کر تعین کیجیے کہ گزشتہ سالوں میں ہر سال کتنی رقم تھی اگر وہ زکاۃ کے نصاب تک پہنچتی ہو تو اس سے ڈھائی فیصد (2.5%) زکاۃ ادا کردیجیے۔جہاں تک ممکن ہو اس بات کی کوشش کریں کہ اندازا  لگاتے وقت کچھ زیادہ ہی لگالیجیے؛ تاکہ زکاۃ ذمہ میں نہ رہ جائے۔ 

آئندہ کی زکاۃ کے لیے قمری مہینے کی ایک تاریخ متعین کرکے ہر سال اس تاریخ کو اپنی ضرورت سے زائد اموال (نقدی، سامانِ تجارت، سونا، چاندی وغیرہ داخل ہیں)کی کل مالیت کا ڈھائی فیصد نکالیں۔

آپ کی بیوی کے لیے بھی یہی حکم ہے۔

باقی نصاب کی تفصیل یہ ہے کہ سونے کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہے جو موجودہ اَوزان کے اعتبار سے ستاسی (۸۷) گرام چار سو اُناسی (۴۷۹) ملی گرام سونا ہے۔ یعنی اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو، چاندی بھی نہ ہو اور بنیادی ضرورت سے زائد نقد رقم بھی نہ ہو اور مالِ تجارت بھی نہ ہو تو سونے کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا۔ اور اگر کسی کے پاس سونے کے ساتھ کچھ چاندی یا نقد رقم یا مال تجارت ہو، یا ان میں سے دو سے زائد مختلف قسم کے مال ہوں تو پھر چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا، اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی ہے جو  موجودہ اَوزان کے اعتبار سے چھ سو بارہ (۶۱۲) گرام پینتیس (۳۵) ملی گرام چاندی ہے۔ اور سونا، چاندی، نقدی اور مالِ تجارت میں سے دو چیزوں کی مالیت جب چاندی کے نصاب کے برابر ہو تو اس پر زکاۃ واجب ہے۔

أصول السرخسي (1 / 52):
"والأخذ بالاحتياط في باب العبادات أصل".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200933

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں